میرا ایک افسانہ

mmubin

محفلین
افسانہ ٠٣ بچوں کی ماں از:۔ایم مبین





گھر سےنکلنےمیں صرف ٠١ منٹ کی تاخیر ہوئی تھی اور سارےمعمولات بگڑ گئےتھے۔
اُسےاندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ پورےایک گھنٹہ تاخیر سےڈیوٹی پر پہونچےگی اور اِس ایک گھنٹہ میں کیا کیا فسانےبن گئےہوں گے' اُسےاِس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا ۔
سندھیا سےکسی بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ کچھ ایسا کرےجس سےکوئی نئی کہانی نہ بن پائے۔
چنٹو نےرو رو کےپورا کمرہ سر پر اُٹھا رکھا ہوگا ۔ رونےکی وجہ سےاُس کی آنکھیں سُرخ ہوکر سوج گئی ہوں گی جو شام تک سوجی رہےگی ۔
اُس کی آنکھوں کو دیکھتےہی شوانی اُس پر برس پڑےگی ۔
" آج پھر چنٹو کو رُلادیا ؟ میں تم کو الگ سےپیسےکس بات کےدیتی ہوں ؟ اگر تم چنٹو کےساتھ بھی عام بچوں کا سا سلوک کرو تو پھر عام بچوں میں اور چنٹو میں فرق کیا ہی؟ میں تمہاری سسٹر سےشکایت کردوں گی کہ تم مجھ سےالگ سےپچاس روپےلیتی ہو ۔"
دھمکی ایسی تھی کہ جس کےتصور سےہی وہ کانپ اُٹھتی تھی ۔
اگر سسٹر کو پتہ چلا کہ وہ شوانی اور دُوسری عورتوں سےبھی الگ سےپیسہ لیتی ہےتو وہ ایک لمحہ بھی اُسےکیئر ہوم میں رکھنےنہیں دےگی ۔
اُس کی نوکری جاتی رہےگی ۔ اور نوکری چلی گئی تو ؟
اس تصور سےہی اُس کےماتھےپر پسینےکی بوندیں اُبھر آئیں ۔ چنٹو کی عادت سی بن گئی تھی کہ وہ جیسےہی ماں سےبچھڑتا تھا ' دہاڑیں مار مار کر رونےلگتا تھا ۔ صرف اُسی کی گود میں بہل پاتا تھا ۔
آج شوانی اُسےسندھیا کےپاس یہ سوچ کر چھوڑگئی ہوگی کہ وہ تو تھوڑی دیر میں آجائےگی اور روتےچنٹو کو بہلا لےگی ۔
لیکن بدقسمتی سےوہ آج ایک گھنٹہ لیٹ پہونچ رہی ہے۔
تھوڑی دیر سےآنکھ کھلی جس کی وجہ سےگھر سےنکلنےمیں دس منٹ لیٹ ہوگئی تھی جس کی وجہ سےجو بس اُسےریلوےاسٹیشن تک لےجاتی تھی 'چھوٹ گئی ۔
دُوسری بس آنےمیں ٥١ منٹ لگ گئے۔
اسٹیشن پہونچی تو لوکل چھوٹ گئی تھی ۔ دُوسری ٹرین ٥١ ۔ ٠٢ منٹ لیٹ آئی جو راستےمیں دس منٹ لیٹ ہوگئی ۔ پھر ریلوےاسٹیشن سےکیئر ہوم کےلئےبس کاانتظار
ہر جگہ تاخیر تاخیر تاخیر !
اُسےپتا تھا اُس کےدیر سےآنےسےنہ تو سسٹر اُسےکچھ بولےگی اور نہ سندھیا ۔
دونوں کو پتا تھا کہ وہ کافی دُور سےآتی ہے۔ سات بجےہوم پہونچنےکےلئےاُسےرات ساڑھےپانچ بجےگھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اِس کےباوجود وہ کبھی کبھار ہی لیٹ ہوتی تھی ۔ اس میں اِس کا عمل دخل نہیں ہوتا تھا ۔ لوکل یا بس لیٹ ہونےکی وجہ سےہی تاخیر سےکیئر ہوم پہونچ پاتی تھی ۔
اور پھر دِن بھر ٠٣ بچوں کی ماں بن کر اُن کا خیال رکھتی تھی ۔کبھی کبھی تو بچوں میں اِتنی اُلجھ جاتی تھی کہ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھا پاتی تھی ۔
روزانہ کا یہ معمول تھا جب بھی وہ دوپہر کا کھانا کھاتی تھی ۔ اُس کی گود میں کوئی نہ کوئی روتا ہوا بچہ ضرور ہوتا تھا ۔ وہ کھانا بھی کھاتی اور بہلاتی بھی ۔
کیئر ہوم میں جتنےبھی گاہک تھےسب اُس سےخوش تھے۔
چھوٹےبچےتو زبان سےاِس کی خدمت کےبارےمیں اپنےماں باپ کو کہہ نہیں پاتےتھے۔ لیکن جب وہ اُسےدیکھ کر ماں کی گود سےاُس کی طرف ہاتھ پھیلا کر مسکراتے، لپکتےتھےتو ماں باپ اندازہ لگا لیتےتھےوہ اُن کےبچوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔
ہاں بڑےبچےجو بول سکتےتھےوہ ماں باپ سےتعریف کرتےتھے۔
" رادھا آنٹی بہت اچھی ہیں ، ہم سےبہت پیار کرتی ہیں ، ہمارا بہت خیال رکھتی ہے، ہم سےبڑی اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں ۔ "
اِس وجہ سےگاہکوں میں اُس کی امیج بہت اچھی تھی ۔
لیکن کبھی کبھی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوجاتی تھی جس کی وجہ سےاُس کی امیج کو دھکّا پہونچنےکا خطرہ پیدا ہوجاتا تھا ۔بلکہ اُسےاپنی نوکری بھی خطرےمیں محسوس ہوتی تھی ۔
اور نوکری خطرےمیں پڑنےکےتصور سےہی وہ کانپ اُٹھتی تھی ۔
بوڑھےماں باپ ، دو جوان بہنیں اور دو نکمّے، آوارہ بھائیوں کی نگہداشت کا سارا بوجھ اُسی پر تھا ۔ سسٹر اُسےتنخواہ کےطور پر ٣ ہزار روپےدیتی تھی ۔
اُسےاِس بات کا علم تھا کہ وہ اچھی سےاچھی غیر سرکاری نوکری بھی کرتی تو شاید اُسےاِتنی تنخواہ نہیں ملتی ۔ اِس کےعلاوہ بچوں کےماں باپ اُسےخوشی سےچالیس پچاس روپےہر مہینہ دےدیتےتھے۔ یہ سوچ کر کہ اِس لالچ سےشاید وہ اُن کےبچےکا اچھی طرح سےخیال رکھےگی ۔
اس نوکری کےچھوٹ جانےکا مطلب تھا پھر سےایک بار بےکاری کےغار میں بھٹکنا ، ماں باپ کی جھڑکیاں ، بہنوں کےطعنےاور بھائیوں کی گالیاں سننا ۔
گھر کےحالات کچھ ایسےہوگئےتھےکہ اگر اُسےکسی کےگھر میں برتن مانجھنےکا کام بھی مل جاتا تو وہ بھی کرنےکےلئےتیّار ہوجاتی ۔
اس کےمقابلےتو یہ کافی اچھا ، مختلف اور آمدنی والا کام تھا ۔
اُسےکیئر ہوم میں ٠٣ بچوں ک دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی ۔
شہر کی ایک بڑی سی رہائشی کالونی میں سسٹر روزی نےیہ چلڈرن کیئر ہوم جاری کر رکھا تھا ۔
اِس کالونی میں زیادہ تر افراد نوکری پیشہ تھے۔ ان میں سےکئی ایسےبھی تھے۔ دونوں میاں بیوی نوکری کرتےتھے۔ ان کےگھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنےوالا کوئی نہیں تھا۔
بچےدو ماہ سےلےکر دس سال تک تھے۔
اُن بچوں کو وہ کس کےسہارےاکیلےگھر میں چھوڑ کر دُور دراز کےعلاقوں میں نوکری کےلئےجائیں ؟
پورےوقت کےلئےوہ نوکرانی نہیں رکھ سکتےتھے۔ کیونکہ ایسےکاموں کےلئےنوکرانیاں اتنی تنخواہ کی مانگ کرتی تھیں جو اُن کی کل تنخواہ کےنصف سےبھی زائد ہوتی تھی ۔
ایسےتمام نوکری پیشہ افراد کا وہ واحد سہارا سسٹر روزی کا چلڈرن کیئر ہوم تھا ۔
مائیں اپنےبچےڈیوٹی پر جاتےہوئےکیئر ہوم میں چھوڑ جاتی تھیں اور شام کو ڈیوٹی سےواپس آتےہوئےاُنھیں واپس اپنےگھروں کو لیکر جاتی تھیں ۔
اِس طرح اس کیئر ہوم میں روزانہ سیکڑوں بچےآتےاور دِن بھر وہاں رُک کر شام کو واپس اپنےگھروں کو چلےجاتےتھے۔
ان بچوں کی دیکھ بھال کےلئےسسٹر روزی نےکئی نوکرانیاں رکھی تھیں ۔وہ بھی اُن میں سےایک تھی۔ اس کےساتھ ساتھ سندھیا بھی تھی ۔ دونوں مل کر ٠٣ بچوں کا خیال رکھتی تھیں ۔
سندھیا اور اُس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
وہ ایک گریجویٹ ، سلجھی ہوئی لڑکی تھی ۔
لیکن سندھیا ایک جاہل ، اُجڈ اور گنوارقسم کی عورت تھی۔
وہ سویری٧ بجےسےرات کے٨ / ٩ بجےتک ڈیوٹی دینےپر یقین رکھتی تھی، بچوں کا کس طرح خیال رکھا جائےاُس نےسیکھا نہ تھا اور نہ اُسنےسیکھنےکی ضرورت محسوس کی تھی ۔
" ارے! میں اپنےبچوں کا اِس طرح سےخیال نہیں رکھتی ہوں تو کیا اِن لوگوں کا خیال رکھوں۔ اُن کےماں باپ نےکیا اُنھیں ہمارےلےجنا ۔ پیدا کیا اُنھوں نےاور یہاں ہمارےپاس لاکر چھوڑ گئے۔ "
" سندھیا تم اس کام کےپیسےبھی تو لیتی ہو ؟ "
" بی بی میں پیسےان بچوں پر نظر رکھنےکےلیتی ہوں ۔ یہ کمرےکےباہر تو نہیں جارہےہیں ۔ کوئی اُنھیں اغوا کرنےکی کوشش تو نہیں کررہا ہے؟ رات دِن ان کی خدمت کرنےکےنہیں ؟ "
سندھیا کی باتوں اور حرکتوں سےاسےاُلجھن ہوتی تھی ۔ اسےسندھیا کی نہ تو کوئی بات پسند تھی اور نہ کوئی حرکت ۔ کبھی کبھی دِل میں آتا تھا کہ وہ سسٹر سےاس کی شکایت کردےیا پھر سسٹر سےکہہ کر سندھیا کےبدلےمیں کسی اور کو اپنےمعاون کےطور پر مانگ لے۔
مگر اس کا انجام کیا ہوگا اُسےاس بات کا اندازہ تھا ۔
ار وہ سسٹر سےسندھیا کی شکایت کرتی تو سسٹر اُےفوراً اُسےاِس کام سےنکال دیتی ۔
یا وہ سندھیا کےبدلےمیں کسی اور کو مانگ لیتی تو سندھیا جس کسی کےساتھ رہتی اُ س کی حرکتوں کی وجہ سےوہ سسٹر سےاُس کی شکایت ضرور کرتی اور سسٹر اُسےکام پر سےنکال دیتی ۔
اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ سندھیا کی نوکری جائے۔
کیونکہ اُسےپتا تھا سندھیا بھی اُسی کی طرح بہت ضرورت مند ہے۔
اِسی نوکری پر اُس کا گھر چلتا تھا ۔
اُس کا ایک آوارہ شرابی شوہر تھا جو کام نہیں کرتا تھا لیکن روزانہ شراب پینےکےلئےاُس سےلڑجھگڑ کر پیسےضرور لےجاتا تھا ۔ اُس کےچار بچےتھے۔ سب سےچھوٹا لڑکا ٢ سال کا تھا ۔وہ اُن سب کو اکیلا اپنےگھر چھوڑ کر آتی تھی ۔ ان سب کا خیال اس کی بڑی لڑکی رکھتی تھی ۔ جس کی عمر ٠١ سال کےقریب ہوگی ۔
سندھیا کا اس نوکری سےنکال دیا جانا ان سب کےلئےبھکمری کا پیغام لےکر آتا ۔ اس لئےوہ سندھیا اور اس کی حرکتوں کو برداشت کئےجارہی تھی ۔
ان کےپاس جو ٠٣ بچےتھےان میں سےتقریباً دس بچےایک سال سےبھی کم عمر کےتھے۔چنٹو اور رنیتو صرف دو ماہ کےتھے۔ دس بچےپانچ سال سےکم کےتھےباقی پانچ سال سےبڑےتھے۔
بڑےبچےان کےلئےکوئی مسئلہ نہیں تھے۔
جب ان کےماں باپ اُنھیں چھوڑ کر جاتےتھےتو ان کا اسکول کا بستہ ان کےساتھ ہوتا تھا ۔وہ بچےایک کونےمیں بیٹھ کر پڑھائی کیا کرتےتھے، جب ان کی اسکول کا وقت ہوجاتا تو وہ دونوں ان بچوں کو یونیفارم پہنا کر تیار کرتیں اور اسکول کی بس یا رکشاتک چھوڑ آتیں ۔
ان میں سےکچھ بچےاسکول چھوٹنےکےبعد سیدھےگھر چلےجاتےتھے۔کیونکہ تب تک ان کےماں باپ گھر واپس آجاتےتھے۔کچھ بچےاسکول سےدوبارہ کیئر ہوم میں آجاتےتھے۔ کیونکہ ان کےماں باپ دیر سےگھر آتےتھے۔ اِس لئےوہ ڈیوٹی سےآکر اُنھیں کیئر ہوم سےلےکر جاتےتھے۔
پانچ سال کےبچےآپس میں یا پھر کمرےمیں رکھےکھلونوں سےکھیلا کرتےتھے۔
سب سےبڑا مسئلہ ٢ ماہ سے١ سال کی عمر کےجو بچےتھے' ان کا تھا ۔ ایک ایک لمحہ ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا ۔ اُنھیں وقت پر دُود ھ ، دو ائیں یا دُوسری چیزیں دینا ۔ پیشاب ، پاخانےکی صورت میں اُن کےکپڑےتبدیل کرنا ، رونےکی صورت میں اُنھیں بہلانا ۔
پھر عام طور پر اس عمر کےبچےصرف ماں باپ سےہی بہلتےہیں ۔ ایک بار اگر رونا شروع کردیں تو پھر اُنھیں بہلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بڑےبچوں کو تو مار کےخوف سےچپ کرایا جاسکتا ہے۔
لیکن اِس عمر کےبچوں کےسامنےیہ ہتھیار بھی ناکارہ ثابت ہوتا تھا ۔ ایسی بچوں کا وہ ماں بن کر خیال تو رکھ سکتی تھی لیکن ماں نہیں بن سکتی تھی ۔ بچےماں کےلمس سےہی چپ ہوجاتےہیں ۔ بھلےوہ اُنھیں لاکھ ماں سا لاڈ ، پیار ، دُلار دےلیکن ماں کا لمس کیسےدےسکتی تھی ۔جس سےوہ آشنا تھے۔
اُسےپتا تھا اگر اس نےکسی بھی بچےکو سنھالنےمیں ذرا بھی لاپرواہی کی تو اِس کی سزا اسےہی بھگتنی پڑےگی۔
راہیہ کو ہر ایک گھنٹےکےبعد دوا دینی پڑتی تھی ۔ اگر اس نےاسےباقاعدگی سےدوا نہیں دی تو وہ بیمار ہوجائےگی ۔ راہیہ کی ماں صرف رات بھر اسےسنبھالےگی ۔دُوسرےدِن وہ اس کےپاس چھوڑ کر جائےگی اور دُوسرےبچوں کےساتھ بیمار راہیہ کو اسی کو سنبھالنا پڑےگا ۔ گوتم کو ہر ایک گھنٹےپر دُودھ دینا پڑتا تھا ۔ اگر اُسےدودھ نہ ملےتو وہ رو رو کر سارا کمرہ سر پر اُٹھا لیتا تھا ۔ اور اُسےروتا دیکھ کر دوسرےبچےبھی رونےلگتےتھے۔بچوں کو یہ عادت ہوتی ہےکہ اگر وہ کسی کو روتا ہوا دیکھتےہیں تو خود بھی رونا شروع کردیتےہیں ۔
اِس سےبہتر تھا کہ ٥١ ۔ ٠٢ روتےہوئےبچوں کو سنبھالنےکےبجائےگوتم نہ روئےاس بات کی ترکیب کی جائے۔
نِکیتا صرف ٨ مہینےکی ہے۔اس کا باپ اسےوہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اور اسےلینےکےلئےبھی آتا ہے۔اس کی ماں جب وہ ٥ مہینےکی تھی تو کسی کےساتھ بھاگ گئی تھی ۔ ا ب اس کا باپ ہی ماں بن کر اس کی پرورش کررہاہے۔
اشونی کی صرف ماں ہے۔اُس کےباپ نےکسی اور کےساتھ دُوسری شادی کرلی ہے۔ مجبوراً اپنا گھر چلانےکےلئےاس کی ماں کو نوکری کرنی پڑی ۔ وہ آٹھ مہینےکا ہے۔اس کی ماں اس کےپاس اشونی کو چھوڑ کر نوکری کرنےجاتی ہے۔
جب ماں باپ کیئر ہوم میں بچےچھوڑ کر جاتےہیں تو ان کےلئےسیکڑوں ہدایتیں دےجاتےہیں ۔
" ہر دوگھنٹےکےبعد دُودھ پلاتی رہنا ، دوا باقاعدگی سےدینا ، اگر پاخانہ یا پیشاب کرےتو فوراً صاف کردینا ، زیادہ دیر کھلا رہنےسےاُسےسردی ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر نےسختی سےمنع کیا ہےتو بچےکو سردی نہیں ہونی چاہیئے۔ اس بار سردی ہوئی تو اسےنمونیہ ہونےکا ڈر ہے۔ دوپہر کو کپڑےبدل کر کاجل پاو¿ڈر لگادینا ۔ شام کو بچہ اچھی حالت میںہونا چاہیئے۔ اسےراہل سےدُور رکھنا ، راہل بیمار ہےکہیں اس کی بیماری اسےنہ لگ جائے۔
چھوٹےبچوں کےلئےتو ہدایتیں تھیں ۔ بڑےبچوں کےلئےکوئی ہدایتیں نہیں ہوتی تھیں ۔ کیونکہ بچےخود ہدایت دیتےتھے۔
" ممی نےکہا ہے۔ ١١ بجےدوائی دیجئےگا ۔ "
" ممی نےکہا ہے۔٠١ بجےوہ چاکلیٹ کھالینا جو اُنھوں نےدی ہے۔ "
" ممی نےکپڑےبدل کر نہلانےکےلئےکہا ہے۔ "
بچےخود فرمائش کرتے، ایسےبچوں کی فوراً فرمائش پوری کرنی پڑتی تھی ۔ نہ کرنےکی صورت میں وہ باپ سےشکایت کردیتے، ماں باپ اُسےباتیں سناتےاور سسٹر روزی کو بھی شکایت کردیتےاور اسےسسٹر روزی کی بھی باتیں سننی پڑتیں ۔ ان تمام خوف اور ڈر سےبےنیاز کوئی تھا تو وہ سندھیا ۔
ہر بچےسےوہ پوچھتی ۔
" اےآج ٹفن میں کیا لایا رے؟ "
اگر بچےکےٹفن میں کوئی اچھی چیز رہتی تو وہ اسےخود کھاجاتی تھی ۔ بچوں کےچاکلیٹ بسکٹ بھی آدھےسےزیادہ خود کھالیتی تھی ۔ ذرا ذرا سی بات پر بچوں کو بری طرح مارتی تھی اور اُنھیں دھمکاتی بھی تھی ۔ اگر اُنھوں نےاپنےماں باپ سےشکایت کی تو کل اس سےزیادہ مار پڑےگی ۔
اس دھمکی کےبعد بچےشکایت نہیں کرتےتھے۔اگر کسی نےکچھ کہہ دیا اور اسےباتیں سننی پڑتی تھی تو دُوسرےدِن اس بچےکو اس بری طرح مارتی تھی کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرتا تھا ۔
اُسےیہ سب اچھا نہیں لگتا تھا ۔
اُس کی سوچ الگ تھی ۔
اُسےماں باپ کےدِلوں کا پتا تھا ۔
ماں باپ اپنےبچوں کو ایک لمحہ کےلئےبھی کبھی جدا نہیں کرتےتھے۔ اگر وہ جدا کرتےبھی ہیں تو ان کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے۔ جو ماں باپ اپنےبچوں کو ان کےپاس چھوڑ جاتےہیں وہ سب مجبور ہیں ۔ پیٹ کی خاطر ، روزی ، روٹی کی خاطر وہ اتنا بڑا پتھر اپنےدِل پر رکھتےہیں ۔
ایسےمیں ان ماں باپ کےجذبات سےکیوں کھیلا جائے۔
سسٹر روزی ان بچوں کو سنبھالنےکےاسےپیسےدیتی ہے۔
پھر اپنےکام سےایمانداری کیوں نہ برتی جائے۔ بےایمانی برت کر کیا حاصل ؟
اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔
وہ ماں نہیں بنی تھی ۔ لیکن ان ٠٣ بچوں کو سنبھالتےہوئےکب وہ ان ٠٣ بچوں کی ماں بن گئی تھی اسےبھی پتہ نہیں چل سکا تھا ۔

٭٭٭



پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)






Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421302

Dist.Thane (Maharashtra,India)

Phone:-(02522)256477

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com
 

جہانزیب

محفلین
اچھا افسانہ ہے مگر دو باتیں کہنا چاہوں گا ایک تو اگر امیج اچھا کی بجائے شہرت اچھی زیادہ بہتر لگتا۔۔ اور دوسرا اختتام پر ایسے لگتا ہے جیسے کہانی ختم نہیں ہوئی۔۔ مطلب ایسے لگ رہا ہے کہ وہ جاتے وقت راستے میں یہ سب سوچ رہی ہے اور منزل پہ پہنچنے سے پہلے ہی افسانہ ختم ہو گیا ہے ۔
بہرحال یہ میرا ایک عام قاری کا ذاتی تبصرہ ہے اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے نا ہی میں کوئی ادیب یا ادب سے گہرا شغل رکھتا ہوں اس لئے اگر آپ کو تبصرہ ناگوار گزرے تو معذرت خواہ ہوں
 

mmubin

محفلین
افسانے پر اظہار خیال کے لیے شکریہ

محسن صاحب
آداب

آپ نے افسانے پر اظہار خیال کیا اس کے لیے شکریہ
دراصل میں اس افسانے کے ذریعے ملازمت پیشہ افراد کا کرب اور ان کے بچوں کے مسائیل اجاگر کرنا چاہتا تھا اس لیے آپ کو یہ افسانہ نامکمل محسوس ہور ہا ہے

ایم مبین
 
اس کونے میں پہلی مرتبہ آمد ہے مگر یہ افسانہ پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ افسانہ نامکمل نہیں ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو بہترین افسانہ ہے کیونکہ کرب ہمیشہ ادھورا ہوتا ہے اور یہاں تو کرب ہی کرب ہے ۔ لہذا افسانہ مکمل ہے ہاں اگر نامکمل ہے تو اس افسانے کا کرب اور یہی اسکا حسن ہے
 
Top