مہکا ہے زخم زخم ہوائیں ہیں منچلی ۔ سیف زلفی

فرخ منظور

لائبریرین
مہکا ہے زخم زخم ہوائیں ہیں منچلی
برسا ہے تیری یاد کا ساون گلی گلی

دیوار و در تو راہ میں حائل نہ ہو سکے
آگے بڑھوں تو پاؤں پکڑتی ہے بیکلی

اک ماہتاب تھا کہ پگھلتا چلا گیا
اک شمع تھی کہ ساتھ مرے رات بھر جلی

وہ روشنی جو تو نے ہمیں دی تھی دن ڈھلے
وہ روشنی بھی ہم نے لٹا دی گلی گلی

یہ اور بات ہم ہی اجالوں سے دور ہیں
ورنہ ہمیں نے تیری جبیں پر شفق ملی

سائے کا اک نقاب سا رخ پر بکھر گیا
یارو سحر جو اس کے گریبان سے ڈھلی

شعلہ فشاں ہے شدتِ ادراک سے بدن
اک کرب کے الاؤ سے دیوانگی بھلی

لو دے اٹھی ہیں بیتے دنوں کی رفاقتیں
بجھتے شرر بھی آگ بنے وہ ہوا چلی

سیف زلفی
 
Top