مٹی کا سفر

زرقا مفتی

محفلین
ڈاکٹر نگہت نسیم کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ مٹی کا سفر کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ نگہت پیشے کے لحاظ سے ماہرِ نفسیات ہیں اور آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ ایک عرصے سے اُن کے افسانے مختلف نسائی جریدوں میں شائع ہو رہے ہیں۔ میرا اُن سے تعارف بذریعہ انٹر نیٹ ہوا۔ اپنی کتاب انہوں نے مجھے تحفے میں بھجوائی ہے جس کے لئے میں اُن کی بے حد ممنون ہوں۔ میں ایک قاری کی حیثیت سے نگہت کی کتاب پر اپنا تبصرہ لکھ رہی ہوں۔ یہ لکھنے سے پہلے میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ انسانی نفسیات کی باریکیوں سے واقف نہیں ہوں۔ انسانی نفسیات بھی ایک گہرے سمندر کے مانند ہے اور میری حیثیت اس کے کنارے پر کھڑے ایک تماشائی کی سی ہے جو اس کی گہرائی کا اندازہ اس کی سطح پر ننھے ننھے کنکر اُچھال کر کرنا چاہتا ہے جس میں اتنا حوصلہ نہیں کہ اس سمندر کی گہرائی میں اُتر سکے ۔

نگہت کیسی مسیحا ہیں یہ میں نہیں جانتی لیکن وہ الفاظ سے سحر کرنا بخوبی جانتی ہیں ۔اس کے لیے صرف ایک ہی دلیل پیش کروں گی کہ میرا بیٹا جسے کتاب پڑھنے سے دلچسپی نہیں جسے میں نے بڑی مشکل سے حکایاتِ رومی پڑھائیں اُس نے نگہت کی کتاب کا پیش لفظ بھی پڑھا اور مٹی کاسفر بھی۔ میں نے اُن کی کتاب تقریباً ایک ہی نشست میں پڑھ لی۔ نگہت کے افسانے مجھے سچی کہانیوں کی طرح لگے۔ یوں محسوس ہوا جیسے ایک ہی خاندان کے افراد بھیس بدل کر اُن کی اُن کے افسانوں میں جلوہ گری کرتے ہیں۔

نگہت کی کتاب کا پیش لفظ پڑھ کر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام اور مشرقی اقدار کی حامی ہیں۔ نگہت کا اپنی مٹی سے رشتہ بہت گہرا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے دیس کی بہت ساری مٹی سات سمندر پار لے گئی ہیں جبھی تو اُن ڈھالے ہوئے سبھی کرداروں سے اُسی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ نگہت کی پہلی کہانی کی بی بی جی نے مجھے اپنی امی جی (دادی ) کی یاد دلا دی۔ میرا خیال ہے نگہت کی کتاب کا ہرقاری بی بی جی کے روپ میں اپنی ماں ۔ دادی یا نانی سے پھر ایک بار مل سکے گا۔

نگہت کے افسانوں کے کردار پُرانی حویلیوں کی طرح مضبوط اور وسیع الظرف ہیں جو آنے والے ہر مہمان کے کے لیے اپنے دل کے دروازے وا کر دیتے ہیں مگر ہر ایک کو اپنا محرمِ راز نہیں بناتے۔ زمانے کی سرد گرم تیز و تند ہوائیں ان کرداروں کے مزاج بدلنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ان کے مرکزی کردار بے انتہا محبت تقسیم کرنے والے ہیں ان کی شبنمی مسکراہٹوں کے پیچھے ان کے ذاتی غم اور تنہائیاں چھپی رہتی ہیں ۔

کتاب پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ نگہت کی ذات میں بھی کوئی صوفی یا کوئی تلقین شاہ چھپا بیٹھا ہے جس نے ان کی کہانیوں کے تمام کرداروں کو اپنے اپنے محور پر مرتکز رہنے کی تلقین کر دی ہے یا اپنے مدار سے باہر نکلنے کی ممانعت کر رکھی ہے۔ خواب کا دیا کی نیلم ہو یاہجرت کرنے والی پندرہ سال کی عائشہ یا پھر اینا گریٹا کا ہم جماعت شکیل فنا ہونے کے ڈر سے اپنے مدار سے نہیں نکلتے۔ ان میں سے کوئی کردار اپنے مدار سے باہر نکلتا ہے تو شہابِ ثاقب کی طرح فنا ہو جاتا ہے۔ بغاوت کی سزا نہیں بھگتتا پچھتاوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔

ہجرت نگہت کا پسندیدہ موضوع ہے شاید اس لیے کہ وہ خود اپنے وطن سے ہجرت کر چکی ہیں وہ بخوبی جانتی ہیں کہ اجنبی زمینوں پر اپنے دیس کے بوٹے لگانا اُن کی آبیاری کرنا اور پھر اُن سے پھل پھول حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ہم سب کا عام مشاہدہ یہ ہے کہ بہت کم خاندان ایسے ہیں جو ہجرت کے بعد اپنی اقدار و روایات کو اپنی اولاد کے کردار میں منتقل کر سکے ہوں ۔ مگر نگہت کے کردار ایسا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ شاید نگہت اپنی کہانیوں کو ایسا انجام شعوری طور پر دیتی ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ نگہت نے یہ افسانے مغرب میں پلنے والی مشرقی اولادوں کے لیے لکھے ہیں۔

نگہت کےزیادہ تر افسانے نسوانی کرداروں کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ نسوانی کردار مشرقی عورت کے مختلف روپ ہیں۔ کہیں یہ ماں کے روپ میں مجسم نور ہیں، بیوی کے روپ میں اطاعت گزار اور خامشی سے سمجھوتہ کرنے والی ہیں بہن کے روپ میں دکھ سکھ بانٹنے والی پیار نچھاور کرنے والی ہیں، بیٹی کے روپ میں ماں باپ سے محبت کرنے والی اُن کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہیں، محبوبہ کے روپ میں اپنی ذات کو فنا کرنے والی ہیں۔ یہ سب کردار اپنی اپنی جگہ عظمت کے مینار ہیں اپنی خواہشوں کو قربان کرنے والے محبوب کی پوچا کرنے والے محبت کے بدلے میں کچھ نہ مانگنے والے۔ نارسائی کے دکھ کو نادیدہ آنسوؤں کی شبنم میں بھگونے والے۔نفس کو قابو میں رکھنے والے ۔ ساری دُنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی خواہش رکھنے والے۔ میں حیران ہوں یہ کردار اس جیتی جاگتی دُنیا کا حصہ ہو سکتے ہیں یا پھر یہ صرف نگہت کے تخیل میں زندہ ہیں۔ شاید نگہت اپنی دُنیا کو ایسے ہی انسانوں سے آباد رکھنا چاہتی ہیں۔

کتاب پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ نگہت کے لیے لکھنا بھی ایک عبادت ہے میری دُعا ہے کہ نگہت اسی طرح مصروفِ عبادت رہیں۔
آخر میں صرف یہ کہنا چاہوں گی کہ نگہت کتاب ضرور پڑھیئے بلکہ تحفے میں اپنے بچوں کو دیجئے ۔ یہ کتاب ہمیں اپنی گم گشتہ اقدارسے پھر ایک بار روشناس کراتی ہے،رشتوں کی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افسانے کے کسی کردار کی صورت آپ کی خود سے ملاقات کا وسیلہ بھی بنتی ہے۔
 
Top