رضا مِلکِ خاصِ کبریا ہو ۔ مالکِ ہر ماسوا ہو

ملکِ خاصِ کبریا ہو
مالکِ ہر ما سوا ہو


کوئی کیا جانے کہ کیا ہو
عقل ِعالَم سے وَرا ہو


کنزِ مکتوم ِازل میں
دُرِّ مکنونِ خدا ہو


سب سے اوّل سب سے آخر
ابتداء ہو انتہا ہو


تھے وسیلے سب نبی، تم
اصل ِمقصودِ ہدیٰ ہو


پاک کرنے کو وضو تھے
تم نماز ِجانفزا ہو


سب بِشارت کی اذاں تھے
تم اذاں کا مدّعا ہو


سب تمہاری ہی خبر تھے
تم مؤخر مبتدا ہو


قرب ِحق کی منزلیں تھے
تم سفر کا منتہٰی ہو


قبل ذکر اضمار کیا جب
رتبہ سابق آپ کا ہو


طورِ موسیٰ چرخ ِعیسیٰ
کیا مساویِٔ دَنٰےہو


سب جہت کے دائرے میں
شش جہت سے تم ورا ہو


سب مکاں تم لا مکاں میں
تن ہیں تم جانِ صفا ہو


سب تمہارے در کے رستے
ایک تم راہ ِخدا ہو


سب تمہارے آگے شافع
تم حضور ِکبریا ہو


سب کی ہے تم تک رسائی
بارگہ تک تم رسا ہو


وہ کلس روضے کا چمکا
سر جھکاؤ کج کلا ہو


وہ در ِدولت پہ آئے
جھولیاں پھیلاؤ شا ہو
 
مُصطفٰی خیرُ الورٰی ہو
سرورِ ہر دوسَرا ہو

اپنے اچھوں کا تصدّق
ہم بدوں کو بھی نبا ہو

کس کے پھر ہو کر رہیں ہم
گر تمہیں ہم کو نہ چاہو

بد ہنسیں تم اُن کی خاطر
رات بھر روو ٔ کرا ہو

بد کریں ہم دم برائی
تم کہو اُن کا بھلا ہو

ہم وہی نا شستہ رو ہیں
تم وہی بحر ِعطا ہو

ہم وہی شایانِ رد ہیں
تم وہی شان ِسخا ہو

ہم وہی ہے شرم و بد ہیں
تم وہی کانِ حیا ہو

ہم وہی ننگِ جفا ہیں
تم وہی جانِ وفا ہو

ہم وہی قابل سزا کے
تم وہی رحم ِخدا ہو

چرخ بدلے دہر بدلے
تم بدلنے سے ورا ہو

اب ہمیں ہو سہو حاشا
ایسی بھولوں سے جدا ہو

عمر بھر تو یاد رکھا
وقت پر کیا بھولنا ہو

وقت پیدائش نہ بھولے
کَیفَ یَنسٰی کیوں قضا ہو

یہ بھی مولیٰ عرض کردوں
بھول اگر جاؤ تو کیا ہو

وہ ہو جو تم پر گراں ہے
وہ ہو جو ہرگز نہ چاہو

وہ ہو جس کا نام لیتے
دشمنوں کا دل برا ہو

وہ ہو جس کے رد کی خاطر
رات دن وقفِ دُعا ہو

مرمٹیں برباد بندے
خانہ آباد آگ کا ہو

شاد ہو ابلیس ملعون
غم کسے اِس قہر کا ہو

تم کو ہو واللہ تم کو
جان و دل تم پر فدا ہو

تم کو غم سے حق بچائے
بے کسوں کے غم زُدا ہو

حق درودیں تم پہ بھیجے
تم مُدام اس کو سرا ہو

وہ عطا دے تم عطا لو
وہ وہی چاہے جو چاہو

بر تو او پاشد تو برما
تا ابد یہ سلسلہ ہو

کیوں رضؔا مشکل سے ڈریئے
جب نبی مشکل کشا ہو
 
Top