مُحبت کے خواہش ہونے کے آخری مرحلے

طاھر جاوید

محفلین
مری ہجر ذاد سی زندگی
جولانیئ محدود میں شایئد
اُن رفعتوں کا احاطہ کرسکے
جو ترے ہونے کے بھرم میں
بے مِثل و بے مِثال تھیں کہ
مرے ہُنر کی اُنگلیوں نے
وقت کی پرچھائیوں سے نظر بچا کر
تری ہم عصری کے خیالوں کو
اپنے دامن میں باندھ لیا تھا
اِنہیں اپنی جنت کا نام دیا تھا
پھر چپقلش کی مہیب گھڑیوں میں
سوچتے سوچتے سوچتا تھا
کہ ایک دوسرے سے جُدائ کا شایئد
کل یہاں بھی آے گا
اور ایسے میں ۔۔ خاکِ یکساں کی یہ زمیں۔۔۔۔۔ نیم آفریں
بے رحم ہو کر شاید ۔۔۔حساب لینے لگےگی
اور مرے لفظوں ، خیالوں ، اور موجودگی کو
وقت کے متعین پل کے کسی دھوکے میں شاید
رفتہ رفتہ ختم کر کے
مُجھےجلوہ دکھاَے بے انت کا
میں اِنہی سوچوں میں گِھرا
بے کل سا تھا مگر ثابت رہا
کہ مری سوچیں دستِ زماں سے تھیں اور۔ اور بے گماں
اور اُن میں چُپھا جوھنر تھا
وہ مُسلسل بیاں ہوتا تھا اور تھا بے حد فشاں
میں جانتا تھا کہ چاہے۔۔۔
تھے میری تمنا کے اُفق ۔۔۔۔ بے زمیں و بے آسماں
ہر دم مگر ایسے میں رہی خاکِ یکساں مری رازداں
پھر بھی تُجھ سے بِچھڑنے کا فسُوں
بعد مُدتوں کے یونہی جواں
دیکھو اڑی رہی یونہی۔۔۔۔ مری اَنا
تیری اَنا کے درمیاں
 
آخری تدوین:
Top