مَیِّت کی داستان

نہلايا جا رہا ہوں،
کفنایا جا رہا ہوں۔
ڈولے میں پهر مرے میں،
لے جایا جا رہا ہوں-

بند پڑ گئی ہیں آنکهیں،
چپ چاپ میرے لب ہیں-
کیسی یہ کیفیت میں،
بتلایا جا رہا ہوں-

ہاتهوں میں دم نہیں ہے،
پیرؤں میں جاں نہیں ہے-
غسّال کے میں ہاتهوں،
پلٹایا جا رہا ہوں-

نازک میرا بدن تها،
اونچا رہن سہن تها-
معمولی اک کفن میں،
لپٹایا جا رہا ہوں-

بہنیں بهی رو رہی ہیں،
ماں میری رو رہی ہے-
آکر میں یاد سب کو،
تڑپایا جا رہا ہوں-

صحنِ مکاں میں میرے،
بچے بڑے ہیں بوڑهے-
کندهوں پہ اب میں انکے،
اٹهوایا جا رہا ہوں-

گهر کے صحن سے آواز،
چیخوں کی آرہی ہے-
روتی ہوئی فضا۶ میں،
لے جایا جا رہا ہوں-

سج کر کهڑا جنازه،
منزل کو تک رہا ہے-
پڑھ کر نماز میری،
بخشایا جا رہا ہوں-

ہر ساتھ دینے والے،
خاموش ہو گئے ہیں-
انکے ہی ہاته‍ سے میں،
دفنایا جا رہا ہوں-

تاریکیاں قبر کی،
مجھ کو ڈرا رہی ہیں-
تنہائیوں سے اپنی،
گه‍برایا جا رہا ہوں-

ائے کاش میرا کوئی،
ساتهی تو آج ہوتا-
اعمال ہی کو لیکر،
میں ساته‍ جا رہا ہوں-

کر لے قبر کو روشن،
ایمان کی شمع سے-
دربارِ حق میں عاصمؔ،
لے جایا جا رہا ہوں-
 
Top