مَر جاؤں ّ

میری سانسیں نکلنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
بدن سے جاں بچھڑنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
جو دل میں بات تھی اپنے لبوں تک لا نہیں پایا
اُسی پر بات کرنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
چلے آؤ اِسی رُت میں ملا کرتے تھے ہم دونو
وہی رُت ہے بدلنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
تجھے ملنے کو دل بیتاب ہے کب تک ستاوگے ؟؟
قضا سے ہاتھ ملنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
ترے پہلو میں دم نکلے یہی ہے آخری حسرت
میرے ارماں بکھرنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
بچی ہے آخری ہچکی چلے آؤ تو بہتر ہے
کٹھن لمحے گزرنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے
اُسے کہہ دو گلی کوچے میں ہی ٹھہرے کہ واجد کا
جنازہ جو ہے اٹھنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے ۔۔۔
(واجد علی واجد )
 
Top