مَرد کھانے والی عورتیں

” سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں “۔۔۔۔۔

اس جملے میں کس قدر حقارت نفرت غصہ ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کسی ایک عورت کے ساتھ کوئی سانحہ ہو جائے تو تمام عورتیں سارے مردوں کو ایک صف میں کھڑا کر کے لعن طعن کرنا شروع کر دیتی ہیں۔جس وقت وہ تمام مَردوں پر لعنت ڈال رہی ہوتی ہیں۔اس وقت وہ بھول جاتی ہیں کہ ان تمام مردوں میں ان کو پیدا کرنے والا باپ ،انکی حفاظت کرنے والا بھائی، انکے نان ونفقہ کی فکر کرنے والا شوہر اور ان کے بڑھاپے کا سہارا انکا بیٹا بھی شامل ہوتا ہے، پھر کیسی قدرت ہے کہ تمام مردوں کو لعنت کرنے والی عورت ساری عمر انہی مَردوں کی کمائی کھاتی ہیں۔

ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں کوئی شک نہیں کے مَرد طاقت ور ہے۔ اور عورتوں بچیوں کی عزت ان سے اکثر غیر محفوظ ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کے آج بھی بعض جگہوں پر لڑکی کو یا تو پیدا ہی نہیں ہونے دیا جاتا یا پیدا کر کے مار دیا جاتا ہے۔بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح بھی دی جاتی ہے۔عورتوں کو تعلیم سے بھی مرحوم رکھا جاتا ہے اور ان پر بہت سے ظلم و ستم بھی ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں تمام عورتیں مظلوم نہیں۔نہ ہی تمام لڑکیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔نہ ہی ہر عورت تشدد کا شکار ہے۔نہ ہی تمام عورتوں کی عزتیں پامال کی جاتیں ہیں۔اس کی زندہ جیتی جاگتی مثالیں میں اور آپ جیسی لاکھوں عورتیں ہیں۔

بیشک ہم میں سے کچھ عورتیں ظلم و ستم سہہ رہی ہیں ۔جبکہ زیادہ عورتیں آزاد اور بہترین زندگی جی رہی ہیں۔جن کو یہ بہترین زندگی دینے والے بھی ان کے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا ہی ہیں اور یہ تمام مرد ہی ہیں۔

کہتے ہیں جھوٹ کو سچ ثابت کرنا ہو تو اس کو بار بار دہراؤ اتنا شور مچاؤ، واویلا کرو، چیخو کہ یہ یا تو حقیقت بن جائے یا پھر لوگ مجبور ہو کر اس کو سچ مان لیں۔ایسا ہی ہمارے معاشرے کی کچھ عورتیں کر رہی ہیں۔ہر طرح کی آزادی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود مظلومیت کا رونا اتنا رورہی ہیں اتنا واویلا کرتی ہیں کہ تمام مردوں کو ظالم، ہوس کے مارے،عورتوں پر جبر کرنے اور عورتوں پر حکمرانی کرنے والا ثابت کرسکے۔ انکا جھوٹ کچھ لوگوں کو خاص کر مردوں کو ہی سچ لگنے لگا ہے اور کچھ مجبوری میں سچ مان رہے ہیں کیونکہ اگر وہ جھوٹ کہے گے تو ان پر تمام عورتیں الفاظوں کے خنجر چلانا شروع کر دیں گی۔

ہم ایسا پاگل معاشرہ جنم دے چکے ہیں کہ ٹی وی لگا لو تو لگتا ہے پاکستان میں صرف قتل و غارت ہے۔ہر طرف ظالم لوگ ہیں۔ایک دوسرے سے روٹی چھینتے عزتیں لوٹتے عزتوں کی بولیاں لگاتے چوری کرتے تباہی مچاتے پھر رہے ہیں۔کبھی کسی نیک آدمی کا ذکر نہیں ملے گا۔اسی طرح کسی بھی انسان سے خاص کر کسی عورت سے کسی مرد کی اچھائی کا ذکر سننا اب بس خواب ہو گیا ہے۔

عورت فتنہ ہے اور آج کے دور میں یہ فتنہ صرف مردوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔وہ تمام عورتیں جو تمام مردوں کو گالی دیتی اور لعن طعن کرتی ہیں وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ان تمام عورتوں کے باپ کسی عورت کی عزت لوٹتے ہیں؟کیا ان کا بھائی لڑکیوں کی عزتیں خراب کرنے بیوی پر ظلم کرنے بیٹی کو زندہ دفن کرنے والا ہے؟کیا ان کا شوہر ان کا بیٹا ہوس کے مارے لوگ ہیں؟کیا ان کو نوکری کے دوران عزتیں بیچنے کی پیشکش ہوتی ہیں؟ اگر پاکستان کی تمام عورتیں ان سوالات کے جوابات ہاں میں دیں گی تو یقیناً تمام مرد ظالم ہیں۔اور اگر تمام عورتیں ان تمام سوالات کے جوابات ہاں میں نہیں دے سکتی اور صرف یہ کہہ دیں گی کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ضرور ہے مگر ان کے گھرمیں ایسا کوئی ظالم مرد موجود نہیں تو بیشک یہ بات یہاں ہی صاف ہو جاتی ہے کہ تمام مرد ظالم نہیں نہ ہی تمام مرد عورتوں کی عزتیں خراب کرتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں مرد کی حکمرانی اور عورت پر مظالم ڈھانے کی۔ایک شوہر اپنی ماں بہن کی باتوں میں آکر بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔مرد کی ماں کو اپنے بیٹے کا وارث صرف لڑکا چاہیے اس لئے اکثر ساس بہو کو یا تو بیٹی پیدا نہیں کرنے دیتی یا پیدا ہونے پر مروا دیتی ہے اور بیٹے سے بہو پر تشدد کرواتی ہے۔بہو کو گھر میں زندہ جلا دینے کے واقعات میں ساس اور نندیں شامل ہوتی ہیں۔ایک ماں اپنے بیٹے کے گناہوں کی معافی کی صورت میں بیٹی کو ونی کرنا مناسب سمجھتی ہے۔ایک عورت اپنی بیٹی پر بیٹے کو فوقیت دیتی ہے۔ کوٹھے پر آدمی عورت کے ساتھ عیاشی کرتے ہیں مگر اسی کوٹھے پر ان عورتوں کو بیچنے ان کا سوداکرنے والی بھی ایک عورت ہی ہوتی ہے۔ایک آدمی دوسری شادی کرنے کے لئے دوسری عورت کی باتوں میں آکر یا تو پہلی بیوی اور بچوں کو گھر سے نکال دیتا ہے یا ان کو جان سے مار دیتا ہے ۔لاہور میں ایک لڑکا ڈکیتی کی واردات صرف اس لئے کرتا ہے کیونکہ اسکی گرل فرینڈ نے ویلنٹائن پر مہنگے تحفے کی فرمائش کی تھی۔منشیات کے گروہ،لڑکیاں اغواء کر کے بیچنے، نومولود بچوں کو ہسپتال سے اٹھانے والی نرسیں یا گھر میں ڈکیتی کی واردات ہو، ان تمام جرائم میں بھی عورت کا ایک خاص کردار ہے۔مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ سن کر خوشی سے جھومنے والی یہ عورتیں یہ کیوں نہیں مانتی کہ عورت کی اصل دشمن عورت ہی ہے۔مرد کے ہر جرائم کے پیچھے بھی ایک سازشی عورت ہی ہے۔

جس طرح ہم چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ دہشت گرد کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ دہشت گرد ایک جانور ہے۔اسی طرح جو مرد عورتوں پر تشدد کرتے عزتیں لوٹتے ہیں یہ مرد نہیں بھیڑیے او درندے ہیں۔پھر ان جانوروں کی وجہ سے تمام مَردوں کو گالی دینا سراسر زیادتی ہے۔
ایک عورت پر تشدد ہونے کی صورت میں سب سے پہلے اس کے حق میں آواز اٹھانے والا بھی مَرد ہی ہوتا ہے۔عورتوں کے پاس اتنا وقت اتنی عقل نہیں کہ ان باتوں میں وقت دے سکے۔لہذا مَرد عورت کی تمام تر اس فتنے کے باوحود بھی عورت کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں اور درندوں کو سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مَرد کے جرم اور تشدد پر واویلا کرنے والی یہ عورتیں اس وقت گونگی بہری کیوں ہو جاتی ہیں جب ایک عورت اپنے آشنا کے ساتھ مل کر گھر سے فرار ہوتی ہے۔پاکستان میں ایک عورت نے جانور ذبح کرنے کا سامان خریدا۔رات شوہر کو آشنا کے ساتھ مل کر مارا اسکا جانوروں کی طرح گوشت بنایا اور سالن پکا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔

پاکستان میں ہی ایک عورت اپنے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے سسرال والوں کا قتل کر کے فرار ہو گئی ۔کراچی میں چند سال پہلے کچھ لڑکیوں نے باری باری چار لڑکے پھنسائے گھر میں رکھ کر اذیت دے دے کر مارے۔اس طرح کے کئی واقعات رو نما ہو چکے ہیں جن میں عورتوں نے درندگی دکھائی۔

کسی عورت کی عزت خراب کرنے پر اس درندے کو سرِعام پھانسی کا مطالبہ ہم سب کرتے ہیں۔میں بھی کرتی ہوں۔مگر عزت صرف عزت ہوتی ہے چاہے لڑکی کی عزت خراب کی جائے یا لڑکی گھر سے فرار ہو کر ماں باپ کی عزت خاک میں ملا دے۔ لہذا جو لڑکیاں ماں باپ کی عزت خراب کرکے گھر سے فرار ہو جاتی ہیں انکے لئے سرِ عام سزا کا مطالبہ کب کیا جائے گا؟ کیا لڑکیاں ماں باپ کو دھوکہ دے کر پڑھائی کے بہانے سکول، کالج اور یونیورسٹی سے لڑکوں کے ساتھ ڈیٹ پر نہیں جاتی؟ کیا لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ ہوٹلوں کے کمروں تک نہیں جاتی؟ ان معاملات میں عورتوں کے لئےکسی قسم کی قانونی سزا کا مطالبہ کب کیا جائے گا؟ یا عورتیں اپنی اور اپنے گھر والوں کی عزت کو جس طرح چاہے خاک میں ملا لیں ان کو آزادی ہے؟

ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اپنے باپ کی جوانی کھانا شروع کر دیتی ہے۔باپ اس کی پرورش تعلیم و تربیت کے لئے دن رات محنت کرتا ہے۔لڑکی جوان ہوتی ہے تو بھائی کی جوانی کھانا شروع کرتی ہے جو اسکی شادی کے لئے ایک ایک روپیہ جوڑتا ہے۔لڑکی شادی کرتی ہے تو شوہر کی ساری جوانی کھا جاتی ہے جو اسکے نان و نفقہ سے لیکر اسکے پالر اور ہر طرح کی ضرورت پوری کرنے کا انتظام کرتا ہے۔عورت بوڑھی ہوتی ہے تو بیٹے کی جوانی کھانا شروع کر دیتی ہے۔جو بڑھاپے میں اس کا سہارا بنتا ہے۔ایک ڈائن کی طرح زندگی کے ہر مرحلے پر کسی نہ کسی طرح ان سارے مَردوں کا خون پسینہ چوستی مَرد کی جوانی کھاتی یہ عورتیں مَرد کو لعن طعن کرنے میں ہر وقت مصروف بھی رہتی ہیں۔

عورتیں ساری مظلوم نہیں مگر مرد سارے مظلوم ہیں ہوش سنبھالنے سے لے کر قبر میں جانے تک ان کو گھر والوں کا پیٹ پالنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ہم عورت کی عظمت,ہمت اور حقوق کی بات ہر جگہ کرتے ہیں۔مگر وہ مرد جو تمام عمر مشین کی طرح کام کرکے عورت کو کھلاتا ہے اسکے فیشن اس کے نخرے اسکی تمام ضروریات پورا کرتا ہے اس کو صرف اس ایک جملے سے نوازا جاتا ہے کہ مرد ہوتے ہی ذلیل اور بے غیرت ہیں۔

مجھے عورت کا غیرت کے نام پہ قتل پریشان کرتا ہے تو روزی روٹی کی خاطر مرد کا قتل بھی پریشان کرتا ہے۔مرد کا فکرِمعاش میں جوانی سے بڑھاپے تک سخت مشقت کرنا بھی قتل کے مترادف ہے۔

معاشرے میں پھیلتی نفرت اور منفی سوچ کے اس دور میں کیا ضروری ہے کہ مزید نفرت پھیلائی جائے۔ان درندوں کا چرچا اتنا زیادہ کیا جاتا ہے کہ لگتا ہے آس پاس صرف درندے ہی ہیں۔کیا کبھی کسی مَرد نے کسی بے سہارا عورت کو سہارا نہیں دیا؟کیا ہمارے باپ بھائی نے ہمیں پھولوں کی طرح نہیں رکھا ہوا؟کیا ہمارا شوہر ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے لئے دربدر ٹھوکریں نہیں کھاتا؟کیا کسی مرد نے کسی لڑکی کے سر پر عزت کی چادر نہیں ڈالی؟اگر ہاں۔ تو پھر ان عظیم لوگوں کا ذکر کیوں نہیں؟کیوں صرف برائی کا ذکر کرتے کرتے ہم اچھائی کو بالکل بھول گئے ہیں۔جو تشدد کرتے عزتیں پامال کرتے ،حیا کی چادر تار تار کرتے ہیں وہ درندے ہیں انکا نہ مذہب ہے نہ ذات ،نہ جنس ،وہ صرف جانور ہیں۔

شاپنگ مال،ہوٹل، تفریحی مقامات یا پھر تعلیمی ادارے ہر جگہ عورتوں کی بھیڑ یہ ثابت کرتی ہے کے ان کو زندگی جینے کا حق دینے والے مَرد ہی ہیں۔مجازی خدا کا درجہ بھی اﷲ نے ایک مَرد کو ہی دیا ہے۔اگر سجدے کی اجازت ہوتی تو اﷲ پاک بیوی کو اجازت دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔بالکل مَرد کی ذات اتنی ہی عزت کے قابل ہے۔ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے روپ میں اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے انکی خوشی کے لئے دن رات محنت کرتے، عیدوں پر بازاروں میں صرف عورتوں اور بچوں کی خریداری پر خرچ کرنے والے یہ مَرد اکثر اپنے لئے ایک نیا سوٹ خریدنے سے بھی اس لئے انکار کر جاتے ہیں تاکہ بیوی بچوں کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ایسے مردوں کا ذکر کرنا کیوں بھول جاتے ہیں ہم سب؟

ظلم و ستم کرنےاور عزتیں خراب کرنے والے عورت یا مرد نہیں بلکہ صرف درندے ہوتے ہیں۔اور ان درندوں کی وجہ سے نہ تمام عورتوں کو برا کہا جا سکتا ہے نہ ہی تمام مرد حضرات کو۔میں مرد کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہوں۔اور عورتوں کی طرف سے ہر وقت مرد حضرات کی کردارکشی کی مذمت بھی کرتی ہوں۔

از رمشا تبسم

ربط
 
Top