اقتباسات موم کی گلیاں سے انتخاب از بانوقدسیہ

زبیر مرزا

محفلین
صبح کی ہلکی دھوپ اخروٹ کے پتوں میں رینگ رہی تھی- اچانک میری نظرسامنے شہد کے چھتےپرپڑی-
اگرمجھے شہد کی مکھیوں کا کچھ تجربہ نہ ہوتا توشاید میں پٹاخ سے کھڑکیاں بھیڑلیتا اور
اگرخُرم بھائی ہوتے توکمرہ چھوڑکربھاگ جاتے-
لیکن آج میرے سامنے قدرت کی ایک مخلوق تھی جوصبح شام محنت کرتی ہے اورایسی منظم زندگی بسرکرتی ہے جہاں سوشلسٹ ، کمیونسٹ یا جمہوریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- یہاں کی ڈکٹیٹر ملکہ قدم قدم پرفرمان جاری کرتی ہے- لمحہ بہ لمحہ چھتے کی زندگی کو سنوارتی ہے - لیکن بڑے علمکے ساتھ ، نہایت انکساری کے ساتھ -
مجھے مکھیوں کی ملکہ کا سوچ کراپنے خُرم بھائی یاد آگئے- شاید ملکہ کی طرح ان کا وجود بھی فطرت نے اس لیے بنایا تھا تاکہ محبت کی باتیں ہوں-گھرکی سالمیت برقراررہے اورمیرصاحبوں کا خاندان آگے بڑھے-
اخروٹ کے پتوں میں ہولے ہولے بھنبھناتی تقریباَ ساٹھ ہزار کی آبادی محوِگردش تھی- کوئی سپاہی اس ٹریفک کے لیے مقررنہ تھا- پھربھی یہ جانیں اپنے اپنے کاموں میں بلا کی سرگرمی دکھا رہیں
تھیں-سورج کی کرنیں تیکھی ہوچکیں تھیں اور اب چھتے کا رنگ قدرے سیاہی مائل نظرآرہا تھا
اورگھومتی ہوئی مکھیوں کے پرچمکنے لگے تھے-
 
Top