مومن نہیں ہو جس کے لئے دیں کا کاج بوجھ غزل نمبر 86 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
مومن نہیں ہو جس کے لئے دیں کا کاج بوجھ
راجہ وہ کیا کہ جس کو لگے سر کا تاج بوجھ


مانا کہ شریعت پہ ہے چلنا بہت مشکل
محشر میں ہوں گے شاد اُٹھالیں جو آج بوجھ


ورثے میں ملے دین سے کیوں تنگ ہو ناداں؟
کیا بادشاہ کو لاگے ہے اپنا ہی راج بوجھ؟

بیزار کیوں ہوں آپ خود دستار سے اپنی
دہقان کو کب لگتا ہے اپنا اناج بوجھ


اُکتا گئے ہیں روز و شب کی بے رُخی سے ہم
برداشت کہاں کرتا ہے اپنا مزاج بوجھ؟


ہم ایسے سادہ دل کو کیا دل لگی سے غرض
لگتا ہے حُسن و عِشق کا یہ امتزاج بوجھ


اِس کو وفا کہتے ہیں کہ مرجائیں گے لیکن
پروانوں کو پھر بھی نہیں لگتا سراج بوجھ


کل تک طلب جو عشق کی وجہِ قرار تھی
لگتی ہے آج دل کو وہی احتیاج بوجھ


تھی دھڑکنِ دل کی وجہ کل تک جو یادِ یار
سینے پہ آج کل ہے وہی اختلاج بوجھ

کتنا بُرا یہ کام ہے اللہ سے جنگ ہے
یارب تُو ہی بچانا ہے سُود و بیاج بوجھ

مولیٰ تُو اپنے رحم سے بے پرسش بخش دے
کیسے اُ ٹھائے عبد ہے تیرا محتاج بوجھ؟

یہ عہدِ مشینی ہے دورِ سنگ کے انساں
سر سے اتار پھینک ہیں رسم و رواج بوجھ

اپنے حقوق کے لئے اُ ٹھے ہیں کچھ غریب
کیوں لگتا ہے سرکار کو یہ احتجاج بوجھ

پہلے ہی جو ہیں ناتواں و لاغر و مجبور
اس پر ہی لاد دیتا ہے ظالم سماج بوجھ

جمہوریت بُری ہے خلافت ہی ٹھیک تھی
ہے سادہ لوگوں کے لئے یہ سامراج بوجھ


شارؔق جو تھا ذہن پہ میرے کچھ دنوں سے وہ
اس غزل میں ہے کردیا سب اندراج بوجھ
 
Top