مومن خاں مومن

بھلے وقتوں میں شعور ادب نامی ایک کتاب خریدی تھی جو بی اے کے طلبا و طالبات کے لیے تھی۔ اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے بہت سے اچھے مضامین پڑھے اور مومن خاں مومن جو میرا پسندیدہ شاعر ہے اس پر لکھنے کو دل کیا مگر خود سے لکھنے کی بجائے وہاں سے نقل کر لیا تاکہ بعد میں اردو وکیپیڈیا پر بھی ڈال سکوں۔ مومن نے نو عشق بھی کیے جس میں پہلا عشق نو سال کی عمر میں تھا مگر ان کا تذکرہ پھر سہی ۔

مختصر حالات زندگی

مومن خاں مومن کی ولادت ۱۸۰۰ میں دلی ہوئی۔ ابتدا میں عربی کی متداول کتابیں شاہ عبدالقادر سے پڑھیں۔ علم نجوم ، رمل اور طب میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ شطرنج کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ شاعری کے ساتھ انہیں فطری مناسبت تھی۔ اس ضمن میں شاہ نصیر سے اصلاح لیتے رہے۔ مومن نے شاعری کو کبھی ذریعہ معاش نہیں بنایا اور نہ امرا کی مدح سرائی کی۔ کوٹھے سے گر کر پانچ ماہ بیمار رہنے کے بعد ۱۸۵۱ میں مومن نے انتقال کیا۔

خصوصیات کلام

مومن کے کلیات میں میں دیگر اصناف بھی ہیں لیکن مثنوی اور غزل کی صنف میں انہوں نے بطور خاص کمال فن کا اظہار کیا ہے ان کی غزل کو غالب جیسے استاد فن نے بھی سراہا ہے۔ مومن کو اپنے عہد میں خاصی عزت و توقیر تھی اور آج بھی وہ اپنے منفرد انداز کے باعث پسند کیے جاتے ہیں۔

مومن کی شاعری میں حسن پرستی کا رجحان نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ کہیں تو وہ محبوب "پردہ نشین " دکھائی دیتا ہے جو اس عہد کے سماجی حالات کا آئینہ دار ہے اور کہیں وہ محبوب بے حجاب ہو کر سامنے آتا ہے اور مومن محبوب کے حسن کو اجاگر کرنے کے لیے دراز اقامت ، سرمگیں آنکھ ، لب نازک ، خم کاکل اور خرام ناز وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن مومن اکثر لکھنوی شعرا کی طرح خارجی مظاہر پر ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ حسن کو دیکھ کر پیدا ہونے والی داخلی کیفیتوں کو بھی بیان کرتے ہیں دراصل مومن حسن کی تاثیر کے قائل ہیں۔

مومن حسن کا بھی ایک اعلی معیار پیش کرتے ہیں اور عشق کا بھی ایک ایسا تصور پیش کرتے ہیں جو جاں نثاری اور عجز و نیاز کا حامل ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک ایسا عاشق دکھائی دیتا ہے جو جذب صادق کا حامل ہے وہ محبوب کی جفاؤں اور رقیب پر اس کی عنایتوں کے باوجود اس کی محبت سے سرشار ہے اور اس کے سامنے عاجزی کا پیکر بنا ہوا ہے۔ وہ محبوب سے گلہ کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مومن کی غزل میں عاشق ، محبوب اور رقیب کی مثلث واضح اور نمایاں صورت میں موجود ہے۔

مومن کے ہاں ذاتی سطح پر پیش آنے والے تجربات بھی ہیں اور ان کی شاعری سماجی شعور کی بھی حامل ہے۔ وہ اپنے زمانے میں سیاسی و سماجی سطح پر رونما ہونے والے انقلابات سے آگاہ تھے اور اشاروں کنایوں میں ان کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ مومن کی غزل تغزل سے معمور ہے۔ اس میں تاثیر اور دلچسپی کے عناصر موجود ہیں۔ وہ حسن و عشق سے متعلق تصویریں بڑی عمدگی سے پیش کرتے ہیں اور ان کی غزل رمز و ایما کا اچھا نمونہ ہے۔ وہ غزل کے فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حسن و عشق سے متعلق معلومات کو رمز و ایما کے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔

مومن غزل کی زبان سے آگاہ تھے اور انہوں نے زبان و بیان پر قدرت کا ثبوت دیا ہے۔ وہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جس میں فطری پن ، برجستگی ، بے ساختگی ، سادگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ مومن روزمرے اور محاورے کا استعمال بھی عمدگی سے کرتے ہیں لیکن ان کا میلان زیادہ تر فارسی تراکیب کی طرف ہے۔ انہوں نے خوبصورت تراکیب تراشی ہیں۔ تشبیہ و استعارہ کا استعال بھی ہے۔ کہیں کہیں مومن نے اپنے تخیل کو بالکل آزاد کر دیا ہے وہاں فطرت سے دوری پیدا ہوگئی ہے۔ مومن کے کلام میں ایک اور بات خاص طور سے نظر آتی ہے ، یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تخلص " مومن " بہت عمدگی سے برتا ہے اور نئی نئی معنویت پیدا کی ہے۔

مجموعی طور پر مومن اپنے عہد کے کامیاب شاعر ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں۔


ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی


تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو


تیری نگاہ شرم سے کیا کچھ عیاں نہیں
میں اپنی چشم شوق کو الزام خاک دوں

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم


جسے آپ گنتے تھے آشنا ، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ محب۔
لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔ارے اشعار میں دوسرا مصرع مصرع اولیٰ بن گیا ہے، اور اولیٰ مصرع ثانی؟
کیا ان پیج کا جدول استعمال کیا تھا اور اسے کنورٹ کیا تھا؟
 
Top