مولانا سہیل اقبال ' عجب نیرنگِ فطرت ہے سرشتِ نوعِ انساں بھی "

طارق شاہ

محفلین
غزل
مولانا سہیل اقبال
1947
عجب نیرنگِ فطرت ہے سرشتِ نوعِ انساں بھی
یہی خود ارہمَن بھی ہے، یہی تصویرِ یزداں بھی
اُسی کی جُستُجو میں کفر بھی سرگرْم، اِیماں بھی
بظاہر کشمکش سی بھی، مگر اِک ربطِ پِنہاں بھی
اِسی سنگھم کے دو دھارے ہیں ہندُو بھی مُسلماں بھی
گلے مِل مِل کے روئے بھی، ہُوئے دست و گریباں بھی
اِنہی موجوں کی ٹکّر نے اُٹھائے کتنے طوفاں بھی
یہی اب مِل کے سِینچیں گے وطن کا باغِ ویراں بھی
رہیں گے متّحد، باوَصْفِ تقسیمِ گُلِستاں بھی
چمن کے لالہ وگل بھی، چمن کے سروْ و ریحاں بھی
جنوں میں چاک کرڈالا ، مگر اب ہیں پشیماں بھی
کہ خود اپنے ہی پیراہن کا ٹکڑا تھا گریباں بھی
ابھی تو خانماں برباد پروانوں پہ آفت ہے!
سحر تک دیکھ لینگے سب مآلِ شمعِ سوزاں بھی
فروغِ آتش گُل نے جَلائے آشیاں لاکھوں
نہ آیا راس اِس گلزار کو جوشِ بہاراں بھی
کوئی دیر وحرَم تک یہ مِری فریاد پہنچا دے
وہ شیخ وبرہمن کیا، جو نہ رہ سکتے ہوں انساں بھی
بلا سے پھونک ڈال اے برق میرے آشیانے کو
اِنہیں شعلوں سے ہوگا صحنِ گُلشن میں چراغاں بھی
سہیل اِس بے نوائی پر بھی، ہمّت کا یہ عالم ہے!
عوض خاکِ وطن کے، میں نہ لُوں مُلکِ سُلیماں بھی
مولانا سہیل اقبال
1947
 

سید زبیر

محفلین
بلا سے پھونک ڈال اے برق میرے آشیانے کو
اِنہیں شعلوں سے ہوگا صحنِ گُلشن میں چراغاں بھی
واہ ۔۔ ۔۔ بہت خوب
 

طارق شاہ

محفلین
بلا سے پھونک ڈال اے برق میرے آشیانے کو
اِنہیں شعلوں سے ہوگا صحنِ گُلشن میں چراغاں بھی
واہ ۔۔ ۔۔ بہت خوب
سید صاحب اظہار خیال کے لئے، اور انتخاب کی داد کے لئے متشکّر ہوں آپ کا
بہت خوشی ہوئی، کہ مولانا سہیل کی یہ غزل جو تقسیم ہند وپاک کے تناظر میں لکھی گئی، آپ کو پسند آئی
بہت خوش رہیں
 
Top