فیض موضوع سخن -فیض احمد فیض

موضوع سخن
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمہء مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات

ان کا آنچل ہے ، کہ رخسار ، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

آج پھر حسنِ دل آرا کی وہی دھج ہو گی
وہی خوبیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگِ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر

اپنے افکار کی، اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضموں ہے یہی ، شاہدِ معنی ہے یہی

آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے ؟
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پی کیا گزری ہے؟

ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے

یہ ہر اک سمت پراسرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چرغ
یہ ہر اک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پر تو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ

یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہئے کہیں ایسے بھی فسوں ہوں گے

اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں

فیض احمد فیض​
 

جیا راؤ

محفلین
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے


بہت خوب۔۔۔۔ !!
شئیر کرنے کا بہت شکریہ۔۔۔۔ :):)
 

طارق شاہ

محفلین



فیض احمد فیضؔ
موضوعِ سُخن

گُل ہُوئی جاتی ہے افسُردہ سُلگتی ہُوئی شام
دُھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مُشتاق نِگاہوں کی سُنی جائے گی
اور اُن ہاتھوں سے مَس ہوں گے یہ ترسے ہُوئے ہات

اُن کا آنچل ہے ، کہ رُخسار ، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے، جس سے ہوئی جاتی ہے چِلمن رنگیں
جانے اُس زُلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

آج پھر حُسنِ دل آرا کی وہی دھج ہو گی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں، وہی کاجَل کی لکیر
رنگِ رُخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غُبار
صندلی ہاتھ پہ دُھندلی سی حِنا کی تحریر

اپنے افکار کی، اشعار کی دُنیا ہے یہی
جانِ مضموُں ہے یہی ، شاہدِ معنی ہے یہی

آج تک سُرخ و سِیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے ؟
موت اور زِیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گُزرے گی ،اجداد پہ کیا گُزری ہے؟

اِن دَمکتے ہُوئے شہروں کی فراواں مخلوُق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جِیا کرتی ہے
یہ حَسِیں کھیت ، پَھٹا پڑتا ہے جوبَن جن کا!
کِس لیے اِن میں فقط بُھوک اُگا کرتی ہے

یہ ہر اِک سمت پُراسرار کڑِی دِیواریں
جَل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ ہر اِک گام پہ اُن خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پر تَو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ

یہ بھی ہیں ،ایسے کئی اور بھی مضموُں ہوں گے
لیکن، اُس شوخ کے آہستہ سے کُھلتے ہُوئے ہونٹ
ہائے! اُس جِسم کے کمبخت دِل آویز خطوُط
آپ ہی کہیے، کہیں ایسے فسُوں بھی ہوں گے ؟

اپنا موضوعِ سُخن اِن کے سِوا، اور نہیں
طبع شاعر کا وَطن اِن کے سِوا اور نہیں
۔
فیض احمد فیضؔ
 
Top