موسمیاتی تغیر و تبدل

قیصرانی

لائبریرین
بی بی سے اس لنک پر یہ رپورٹ موجود ہے

پاکستان میں موسمیاتی تغیر و تبدل

پاکستان:’سنگین‘ موسمیاتی تبدیلیاں

مختار آزاد
کراچی



بارش کی کمی
جنوبی پاکستان کے میدانی علاقوں میں صحرازدگی بڑھ رہی ہے
ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں اور اس سے تحفظِ آبی وسائل، زراعت، توانائی، صحت، موسمی شدت، جنگلی حیات کی بقاء اور صحرا زدگی جیسے سنگین مسائل جنم لینے لگے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان اقوامِ متحدہ کے معاہدے کنونشن آن کلائمیٹ چینج 1995ء اور کیوٹو پروٹوکول 2005 ء پر دستخط کر چکا ہے۔ اس حوالے سے ملک میں وفاقی وزارتِ ماحولیات کے تحت متعدد تحقیقی منصوبے جاری ہیں تاہم ابھی یہ ابتدائی مراحل میں خیال کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں محکمۂ موسمیات موسمی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتا ہے اور اس کے پاس ملک میں اعداد و شمار کا ریکارڈ موجود ہے۔ محکمۂ موسمیات کا عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں کہنا ہے کہ ’گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان میں غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ سندھ، بلوچستان کے بنجر ساحلی علاقوں کے درجۂ حرارت میں اعشاریہ چھ سے لے کر ایک سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ خشک میدانی اور ساحلی علاقوں میں موسمِ گرما اور سرما کی معمول کی بارشوں میں اوسط دس تا پندرہ فیصد کمی آئی ہے۔ نیز نیم مرطوب اور مرطوب کیفیت کے حامل علاقوں میں مون سون کی بارشوں میں دس تا پندرہ فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے‘۔

محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کی فضا میں نمی کا تناسب پانچ فیصد تک کم ہوا ہے جبکہ جنوبی پاکستان کے نصف حصے میں صفر اعشاریہ پانچ سے لے کر صفر اعشاریہ سات فیصد تک سورج کی تمازت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔


پاکستان پر چھانے والے بادلوں کی شرح میں بھی سالانہ اوسطاً 3 سے 5فیصد کمی ہوئی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے مرکزی حصے کی فضا پر چھانے والے بادلوں کی شرح میں بھی سالانہ اوسط بنیاد پر تین سے پانچ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس بنا پر یہاں بھی سورج کی تمازت میں اضافے کا رجحان ہے۔ نیز گرمیوں کی شدت، ہوا میں نمی کی مقدار میں کمی کے زمین پر اثرات پڑے ہیں اور جنوبی پاکستان کے میدانی علاقوں میں صحرازدگی بڑھ رہی ہے۔

بقائے ماحول کے لیے سرگرم عالمی ماحولیاتی تنظیم آئی یو سی این، پاکستان کے جائزے کے مطابق ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا اشاریہ 1998ء سے قابلِ مشاہدہ ہے۔ اس سال ملک میں سب سے زیادہ گرمی پڑی جس نے گزشتہ ایک دہائی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ 1999ء میں شدید سمندری طوفان نے زیریں سندھ کے ساحلی علاقوں ٹھٹہ اور بدین میں شدید تباہی مچائی جس کا خمیازہ مقامی باشندے اب تک بھگت رہے ہیں۔ 1999ء سے 2000ء کے دوران ملک کے جنوبی حصوں اور بلوچستان میں خشک سالی اور آبی قلت کے سبب بدترین قحط پڑا۔ جولائی 2001ء کے دوران اسلام آباد میں غیر معمولی بارش ہوئی اور دس گھنٹوں تک جاری اس بارش کی مقدار 621 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔


سندھ، بلوچستان کے بنجر ساحلی علاقوں کے درجۂ حرارت میں اعشاریہ چھ سے لے کر ایک سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ خشک میدانی اور ساحلی علاقوں میں موسمِ گرما اور سرما کی معمول کی بارشوں میں اوسط دس تا پندرہ فیصد کمی آئی ہے۔ نیز نیم مرطوب اور مرطوب کیفیت کے حامل علاقوں میں مون سون کی بارشوں میں دس تا پندرہ فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے

محکمۂ موسمیات

2003ء موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے نہایت اہم سال تھا، جس میں خلافِ معمول ایسے واقعات ہوئے جن کی جڑیں موسمیاتی تبدیلیوں سے جا ملتی ہیں۔ اس برس جون میں ملک میں شدید گرمی کی لہر رہی اور 5 جون کو سندھ کے ضلع جیکب آباد کا درجہ حرارت52 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل اوائلِ جون میں یہاں کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہی رہتا تھا۔ اس سال مون سون کی بارشوں میں بھی خلافِ معمول شدت دیکھی گئی، جس سے جنوبی پاکستان کے مختلف علاقوں میں162 افراد ہلاک ہوئے۔ ان بارشوں کے باعث سندھ میں 152 افراد شدید زخمی ہوئے۔

2003ء میں ہی سترہ فروری کو شدید بارشوں اور برفباری سے بلوچستان کے پہاڑی اور ساحلی علاقوں میں زبردست سیلاب اور طوفان آیا۔ ان کی نوعیت اتنی شدید تھی کہ مختلف بڑی بڑی سڑکیں ان میں بہہ گئیں اور درجنوں چھوٹے بڑے پل تباہ ہوگئے۔

2004ء کے دوران پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور بھارت سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں معمول کی برف باری میں غیر معمولی تبدیلی آئی۔ تاخیری برف باری مئی میں ہوئی۔ اس غیر معمولی برف باری کے سبب میدانوں سے بلندی پر واپس جانے والے لگ بھگ بیس ہزار خانہ بدوش (جنہیں گجر کہا جاتا ہے) راستے بند ہونے کے سبب پھنس کر رہ گئے۔


موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بحیرۂ عرب کی سطح بلند ہو رہی ہے

2005ء میں بھی تبدیلی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سال فروری کے دوسرے ہفتے میں ملک کے جنوبی حصوں میں شدید بارشیں ہوئیں، کشمیر سمیت شمالی پاکستان میں ان تیز بارشوں سے ندی نالوں اور دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب آئے، جس سے مجموعی طور پر486 افراد ہلاک ہوئے۔ مارچ میں بھی یہ غیر معمولی تبدیلیاں جاری رہیں اور تیز بارشوں اور طوفان سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تباہی کے علاوہ جنوبی پاکستان میں اس کے سبب تیس سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔

چند ماہ بعد جون میں ملک کے شمالی علاقہ جات میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گرمی کی حدت سے پہاڑوں پر برف پگھلنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ جس کی وجہ سے دریائے سوات، دریائے کابل اور دریائے سندھ میں زیادہ شدت والے سیلاب آئے۔ یاد رہے کہ عالمی ماہرینِ موسمیات کے مطابق یہ صورتِ حال موسمیاتی معمول میں تبدیلی کا بڑا اشارہ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اگلے دو عشرے نہایت اہم ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے ااثرات کے باعث ملک میں کہیں بارشیں بہت کم اور کہیں بہت زیادہ ہوں گی، کہیں گرمی کم، کہیں بہت زیادہ ہوگی اور یہ سب مجموعی طور پر زراعت کے لیے نقصاندہ ہوگا۔


ملکی آبادی کا 66 فیصد زرعی شعبے سے وابستہ ہے

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بحیرۂ عرب کی سطح بھی بلند ہو رہی ہے البتہ اس وقت اس کی رفتار نہایت کم ہے لیکن خطرات برقرار ہیں۔ اس حوالے سے آئی یو سی این کوسٹل ایکو سسٹم منیجمنٹ کے سربراہ طاہر قریشی کا کہنا ہے کہ ’سطح سمندر میں بلندی سے طوفان آئیں گے، جس سے باقی ماندہ انڈس ڈیلٹا اور تیمر کے ساحلی جنگلات کوخطرہ ہے‘۔ اعداد وشمار کے مطابق بحیرۂ عرب کی سطح میں سالانہ پانچ ملی میٹر اوسطًا اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین نے دنیا کے سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہونے کے سبب جن ممالک کے ساحلی شہروں کو خطرناک قرار دیا ہے ان میں کراچی اور ممبئی بھی شامل ہیں۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں زمین کی نمی کی مقدار کم ہورہی ہے جس سے بنجر پن اور صحرا زدگی کا پھیلاؤ ہوگا۔ پانی کے بعد عالمی موسمیاتی تبدیلی کا دوسرا بڑا شکار زراعت کو کہا جاتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ملکی آبادی کا 66 فیصد زرعی شعبے سے وابستہ ہے جس میں سے 44 فیصد سے زائد افراد کا براہ راست معاشی انحصار زراعت پر ہے۔


پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اگلے دو عشرے اہم ہیں

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر اثرات کے موضوع کی محقق ماہرِ ماحولیات صفیہ شفیق کا کہنا ہے ’پاکستان کی موسمی حدت تیز ہو رہی ہے اور شمالی علاقہ جات سمیت ملک کے میدانی اور بنجر علاقوں کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اس عالمی مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات اور سائنسی تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس حوالے سے زیادہ اعداد وشمار دستیاب نہیں، تاہم بلوچستان کے نیم صحرائی و بنجر پہاڑی علاقوں اور سندھ و بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں‘۔

ماہرِآب ڈاکٹر عبدالمجید کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ملک میں جہاں پانی کی قلت کا سامنا ہوگا وہیں بارشوں میں کمی سے زرعی شعبے کی آبی طلب تیس فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ اگر اس کے برخلاف ہوا اور بارشوں میں شدت آئی تو نہ صرف فصلوں کی تیاری کے روایتی دورانیے میں تبدیلی ہوگی بلکہ فصلوں کو تباہی کا سامناکرنا پڑے گا۔ جس کے براہ راست اثرات خوراک اور ملکی معیشت پر مرتب ہوسکتے ہیں۔،

ماحولیاتی صحت کے ماہر ڈاکٹر حسن کے مطابق ’درجہ حرارت میں اضافے سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ڈینگو وائرس، ملیریا اور گیسٹرو میں حالیہ اضافہ توجہ طلب ہے، کیونکہ حدت میں اضافے سے وبائی امراض کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
 
Top