یقین نہیں آتا کہ میاں نواز شریف کے عہد حکمرانی میں نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی بے قصور بیٹی کو دھمکی آمیز فون کے ذریعے ہراساں اور باپ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ گسٹاپو طرز کی ان کارروائیوں کی حوصلہ افزائی میاں صاحب کا مزاج نہیں مگر عیاں راچہ بیاں، یہ واقعہ تو ہوچکا ہے۔
پاکستان میں سیاسی انتقام سکہ رائج الوقت ہے حکمران خواہ باوردی ہو یا سوٹڈ بوٹڈ اور شیروانی پوش ا پنے ہر جائز و ناجائز حکم اور فیصلے کی بے چون و چرا تعمیل کے خوگر ہیں۔ قاعدے قانون کے پابند بااصول افسر عموماً ان کے غیظ و غضب اور انتقام کا نشانہ بنتے ہیں مگر طارق ملک کی بیٹی کا کیا قصور؟
میاں نواز شریف کے بارے میں ، میں ہمیشہ اس حسن ظن کا شکاررہا ہوں کہ وہ ان سیاستدانوں اور حکمرانوں میں سے نہیں جنہیں عیش میں یاد خدا نہ رہے اور طیش میں خوف خدا نہ رہے۔ مقبولیت کے وہ دلدادہ ،سرکاری قوائد و ضوابط کی پابندی کے عادی ہیں اور شاہانہ مزاج رکھتے ہیں مگر مخالفین کی تذلیل اور بہو بیٹیوں کی تحقیر ان کا وطیرہ نہیں، تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ طارق ملک کی بیٹی کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں ملیں اور نادرا کا چیئرمین استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا۔ظاہر ہے جس وزیر، مشیر اور دربان نے یہ گھٹیا حرکت کی وہ وزیر اعظم کے کھونٹے پر ناچا ،آخری ذمہ داری انہی کی ہے جبکہ وزیر اعظم ہائوس کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔
پاکستان بالخصوص پنجاب میں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں رحمۃ للعالمینﷺ کے پیرو کار اور عشق رسولؐ کے دعویدار معاشرے میں بیٹی صرف قابل احترام نہیں انس، محبت اور والہانہ شفقت کا استعارہ ہے۔ حاتم طائی کی بیٹی دربار رسالت مآبؐ میں حاضر ہوئی تو حضور اکرمؐ نے اٹھ کر استقبال کیا اور اپنی چادر اوڑھنے کو دی۔ فرمایا’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی بہتر پرورش کی روز قیامت میرے ساتھ کھڑا ہوگا‘‘۔ زوال پذیر پاکستانی معاشرے میں جہاں کئی دوسری اقدار و روایات قصہ پارینہ بن چکیں وہاں بیٹیوں کو سانجھا سمجھنے کی روایت تاحال برقرار ہے مگر اب سرکاری سر پرستی میں اسے بھی دیس نکالا دینے کے ارادے ہیں کیا بھٹو کا عہد ستم پھر لوٹ رہا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مخالفین کی بہو بیٹیوں کی تذلیل ایک ایسا گھٹیا حربہ تھا جو بھٹو صاحب کے عوامی دور میں بکثرت استعمال ہوا۔ نارووال سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ملک سلمان کا قصہ سب جانتے ہیں جس کی عمر رسیدہ اہلیہ اور نوجوان بیٹیوں کو تھانے بلا،بیٹھا اور ڈرا دھمکا کر قائد عوام کے احکامات کی تعمیل اور جذبہ انتقام کی تسکین کی گئی۔ طاہرہ مسعود بہاولپور کی ابھرتی ہوئی سیاستدان تھیں اور ائیر مارشل اصغر خان کی سیاسی ہم سفر۔ طاہر مسعود کے علاوہ اس کا والد کونسل مسلم لیگ کے ممبر قومی اسمبلی نظام الدین حیدر کو سبق سکھانے کے لئے ایک سیکنڈل بنا اور دونوں باپ بیٹی سیاسی منظر سے غائب ہوگئے۔
قریشی برادران سے علیحدگی کے بعد بھی دبنگ اور صاف گو اخبار نویس مجیب الرحمن شامی نے بھٹو آمریت کے خلاف مورچہ لگائے رکھا اور بار بار بندش کے باوجود نئے جرائد کے ساتھ سینہ سپر رہے تو بھٹو صاحب کا ایک قریبی معاون آزادی اظہار کا علمبردار شامی صاحب سے ملا احتیاط برتنے کا مشورہ دیا اور کہا’’آپ کی شادی ہوچکی اور ایک بیٹی بھی ہے‘‘ ٹی وی انٹرویو کے دوران نعیم بخاری نے پانچ سالہ عوامی دور پر تبصرے کرنے کے لئے اصرار کیا تو انہوں نے کہا’’بھٹو صاحب کا پورا عہد ایک فقرے میں بند ہے کہ آپ کی بیٹی بھی ہے‘‘ ۔
اخبارات و جرائد پر پابندی، صحافیوں کی سرکوبی، مخالف سیاستدانوں کی تذلیل ،سیاسی سرگرمیوں کی مسلسل بندش، ناقدین کی بہو بیٹیوں کی تذلیل اور انتخابات میں تاریخ ساز و شرمناک دھاندلی نے اس عوامی تحریک کو جنم دیا جو بالآخر اس عہد ستم کے خاتمے کا سبب بنی، بھٹو نے 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ ؐ کو ناکام بنانے کے لئے بیوروکریسی اور خفیہ ایجنسیوں سے مل کر انتخابی دھاندلی کا ارتکاب کیا، اس دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس اور فوج سے گولیاں چلوائیں۔ نتھ فورس کے ذریعے خواتین سیاسی کارکنوں کی بے حرمتی کی اور دھاندلی کا اعتراف کرنے کے بعد نئے انتخابات کا معاہدہ کیا مگر بیرون ملک سیر سپاٹے کے لئے نکل گئے۔ اس تحریک میں ایک ہزار سیاسی کارکن شہید اور سینکڑوں معذور ہوئے مگر نئے انتخابات کرانے اور دھاندلی زدہ اقتدار چھوڑ کر انتقال ا قتدار کی راہ ہموار کرنے کے بجائے بھٹو صاحب خانہ جنگی پر تل گئے جس کا منطقی نتیجہ فوجی مداخلت کی صورت میں برآمد ہوا۔ آج کل دھونس دھاندلی کے خلاف اس مقدس عوامی تحریک کو سی آئی اے سپانسرڈ اور جعلی ،دھاندلی زدہ انتخابات کے بل بوتے پر ا قتدار سے چمٹے بھٹو کو منتخب وزیر اعظم قرار دیا جاتا ہے تو انسان سر پیٹ لیتا ہے؎
حیران ہوں دل کو روئوں، کہ پیٹوں جگر کو میں
1977ء کے انتخابات اور تحریک نظام مصطفیٰؐ کا بچشم خود مشاہدہ کرنے والے سینئر صحافی سید انور قدوائی کی کتاب’’انتخابات،قصر جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘حال ہی میں منظر عام پر آئی ہےجس میں پشاور سے لاڑکانہ تک دھاندلی کے منصوبہ بندی ،دھاندلی کے لئے قائم کمیٹی، سرکاری فنڈز اور اس سے مستفید ہونے والے صحافیوں کی فہرست درج ہے۔ رائو رشید اور صاحبزادہ فاروق علی خان کی کتابوں میں بھی اعتراف موجود ہے اور خفیہ امریکی پیپرز بھی منظر عام پر آچکے ہیں مگر کسی میں اس تحریک کو سی آئی اے کی طرف سے ملنے والی سپانسر شپ کا کوئی ذکر نہیں ملتا، الٹا تہران کے امریکی سفارت خانے سے ملنے والی دستاویزات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ضیاء الحق بعض شرعی قوانین کا نفاذ، ایٹمی پروگرام میں پیش رفت اور کئی دیگر معاملات میں امریکی خواہشات کی تکمیل کرنے لئے تیار نہیں تھے۔
بھٹو کے جانشین جنرل ضیاء الحق نے اپنے پیشرو کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو خوب رگڑا لگایا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں اور آزادی صحافت کے علمبرداروں سے کم و بیش وہی سلوک کیا جو بھٹو دور کی یاد گار تھا۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی، قیوم نظامی، خالد چودھری اور جہانگیر بدر اب تک اپنے زخم سہلاتے ہیں مگر بہو بیٹیوں کے باپ ہیں اس ’’ظالم‘‘،’’سفاک‘‘،’’اور منقسم مزاج‘‘ فوجی حکمران کا رویہ قائد عوام سے مختلف رہا۔ ایک بار جناب ا ٓصف علی زرداری کے چہیتے ایک صحافی(بعد میں سفارتکار) نے محترمہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی بعض اصلی یا جعلی تصاویر ضیاء الحق کے سامنے رکھیں جنہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھا مگر فوجی آمر نے ڈانٹ دیا اور ایک روایت کے مطابق ایوان صدر میں اس مہم جو کا داخلہ بند کردیا۔
طارق ملک سے میں کبھی ملا ہوں نہ اس کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں اور نہ اس کے مستعفی ہونے سے پریشان۔ ان کے والد پروفیسر فتح محمد ملک سے البتہ پرانی یاد اللہ ہے اور انہیں مل کر حضرت جوش یاد آتے ہیں؎
بہت جی خوش ہوا اے ہم نشین کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونٹے پائے جاتے ہیں
مگر جس بھونڈے انداز میں پہلے طارق ملک کو برطرف اور اب ان کی بیٹی کو دھمکی دے کر استعفیٰ پر مجبور کیا گیا وہ دکھ اور صدمے کا باعث بنا۔ ملک میں جمہوری روایات ،صبر و تحمل، روا داری، قاعدے قانون کی پابندی اور احترام انسانیت کا پہلے ہی فقدان ہے۔ چادرچار دیواری کا تقدس باقی نہیں رہا، اپنی اور دوسروں کی بیٹیوں کو سانجھا سمجھنے کا اسلامی، پاکستانی اور پنجابی کلچر بھی نامراد سیاسی ضرورتوں کی بھینٹ چڑھنے لگا ہے جو ہر مہذب شہری کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔
کونسل مسلم لیگ کے سربراہ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے برطانیہ میں ہائی کمشنر بننے کی بھٹوانہ پیشکش قبول کرلی تو ایک دوست نے وجہ دریافت کی’’میں عزت بچائوں یا سیاست؟‘‘ دولتانہ کا جواب تھا۔ طارق ملک نے نوکری چھوڑ کر عزت بچالی۔ تو کیا اب اس جمہوری ریاست میں لوگوں کو اپنی عزت دائو پر لگا کر سیاست یا ملازمت کرنا پڑے گی؟ خدا گواہ ہے مجھے یقین نہیں آرہا کہ مشرقی روایات کے دلدادہ میاں نواز شریف کے دور میں کوئی اپنی بیٹی کو ملنے والے دھمکی آمیز پیغام کی بنا پر ملازمت سے استعفیٰ دے سکتا ہے مگر عیاں راچہ بیاں
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=163569
پاکستان میں سیاسی انتقام سکہ رائج الوقت ہے حکمران خواہ باوردی ہو یا سوٹڈ بوٹڈ اور شیروانی پوش ا پنے ہر جائز و ناجائز حکم اور فیصلے کی بے چون و چرا تعمیل کے خوگر ہیں۔ قاعدے قانون کے پابند بااصول افسر عموماً ان کے غیظ و غضب اور انتقام کا نشانہ بنتے ہیں مگر طارق ملک کی بیٹی کا کیا قصور؟
میاں نواز شریف کے بارے میں ، میں ہمیشہ اس حسن ظن کا شکاررہا ہوں کہ وہ ان سیاستدانوں اور حکمرانوں میں سے نہیں جنہیں عیش میں یاد خدا نہ رہے اور طیش میں خوف خدا نہ رہے۔ مقبولیت کے وہ دلدادہ ،سرکاری قوائد و ضوابط کی پابندی کے عادی ہیں اور شاہانہ مزاج رکھتے ہیں مگر مخالفین کی تذلیل اور بہو بیٹیوں کی تحقیر ان کا وطیرہ نہیں، تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ طارق ملک کی بیٹی کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں ملیں اور نادرا کا چیئرمین استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا۔ظاہر ہے جس وزیر، مشیر اور دربان نے یہ گھٹیا حرکت کی وہ وزیر اعظم کے کھونٹے پر ناچا ،آخری ذمہ داری انہی کی ہے جبکہ وزیر اعظم ہائوس کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔
پاکستان بالخصوص پنجاب میں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں رحمۃ للعالمینﷺ کے پیرو کار اور عشق رسولؐ کے دعویدار معاشرے میں بیٹی صرف قابل احترام نہیں انس، محبت اور والہانہ شفقت کا استعارہ ہے۔ حاتم طائی کی بیٹی دربار رسالت مآبؐ میں حاضر ہوئی تو حضور اکرمؐ نے اٹھ کر استقبال کیا اور اپنی چادر اوڑھنے کو دی۔ فرمایا’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی بہتر پرورش کی روز قیامت میرے ساتھ کھڑا ہوگا‘‘۔ زوال پذیر پاکستانی معاشرے میں جہاں کئی دوسری اقدار و روایات قصہ پارینہ بن چکیں وہاں بیٹیوں کو سانجھا سمجھنے کی روایت تاحال برقرار ہے مگر اب سرکاری سر پرستی میں اسے بھی دیس نکالا دینے کے ارادے ہیں کیا بھٹو کا عہد ستم پھر لوٹ رہا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مخالفین کی بہو بیٹیوں کی تذلیل ایک ایسا گھٹیا حربہ تھا جو بھٹو صاحب کے عوامی دور میں بکثرت استعمال ہوا۔ نارووال سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ملک سلمان کا قصہ سب جانتے ہیں جس کی عمر رسیدہ اہلیہ اور نوجوان بیٹیوں کو تھانے بلا،بیٹھا اور ڈرا دھمکا کر قائد عوام کے احکامات کی تعمیل اور جذبہ انتقام کی تسکین کی گئی۔ طاہرہ مسعود بہاولپور کی ابھرتی ہوئی سیاستدان تھیں اور ائیر مارشل اصغر خان کی سیاسی ہم سفر۔ طاہر مسعود کے علاوہ اس کا والد کونسل مسلم لیگ کے ممبر قومی اسمبلی نظام الدین حیدر کو سبق سکھانے کے لئے ایک سیکنڈل بنا اور دونوں باپ بیٹی سیاسی منظر سے غائب ہوگئے۔
قریشی برادران سے علیحدگی کے بعد بھی دبنگ اور صاف گو اخبار نویس مجیب الرحمن شامی نے بھٹو آمریت کے خلاف مورچہ لگائے رکھا اور بار بار بندش کے باوجود نئے جرائد کے ساتھ سینہ سپر رہے تو بھٹو صاحب کا ایک قریبی معاون آزادی اظہار کا علمبردار شامی صاحب سے ملا احتیاط برتنے کا مشورہ دیا اور کہا’’آپ کی شادی ہوچکی اور ایک بیٹی بھی ہے‘‘ ٹی وی انٹرویو کے دوران نعیم بخاری نے پانچ سالہ عوامی دور پر تبصرے کرنے کے لئے اصرار کیا تو انہوں نے کہا’’بھٹو صاحب کا پورا عہد ایک فقرے میں بند ہے کہ آپ کی بیٹی بھی ہے‘‘ ۔
اخبارات و جرائد پر پابندی، صحافیوں کی سرکوبی، مخالف سیاستدانوں کی تذلیل ،سیاسی سرگرمیوں کی مسلسل بندش، ناقدین کی بہو بیٹیوں کی تذلیل اور انتخابات میں تاریخ ساز و شرمناک دھاندلی نے اس عوامی تحریک کو جنم دیا جو بالآخر اس عہد ستم کے خاتمے کا سبب بنی، بھٹو نے 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ ؐ کو ناکام بنانے کے لئے بیوروکریسی اور خفیہ ایجنسیوں سے مل کر انتخابی دھاندلی کا ارتکاب کیا، اس دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس اور فوج سے گولیاں چلوائیں۔ نتھ فورس کے ذریعے خواتین سیاسی کارکنوں کی بے حرمتی کی اور دھاندلی کا اعتراف کرنے کے بعد نئے انتخابات کا معاہدہ کیا مگر بیرون ملک سیر سپاٹے کے لئے نکل گئے۔ اس تحریک میں ایک ہزار سیاسی کارکن شہید اور سینکڑوں معذور ہوئے مگر نئے انتخابات کرانے اور دھاندلی زدہ اقتدار چھوڑ کر انتقال ا قتدار کی راہ ہموار کرنے کے بجائے بھٹو صاحب خانہ جنگی پر تل گئے جس کا منطقی نتیجہ فوجی مداخلت کی صورت میں برآمد ہوا۔ آج کل دھونس دھاندلی کے خلاف اس مقدس عوامی تحریک کو سی آئی اے سپانسرڈ اور جعلی ،دھاندلی زدہ انتخابات کے بل بوتے پر ا قتدار سے چمٹے بھٹو کو منتخب وزیر اعظم قرار دیا جاتا ہے تو انسان سر پیٹ لیتا ہے؎
حیران ہوں دل کو روئوں، کہ پیٹوں جگر کو میں
1977ء کے انتخابات اور تحریک نظام مصطفیٰؐ کا بچشم خود مشاہدہ کرنے والے سینئر صحافی سید انور قدوائی کی کتاب’’انتخابات،قصر جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘حال ہی میں منظر عام پر آئی ہےجس میں پشاور سے لاڑکانہ تک دھاندلی کے منصوبہ بندی ،دھاندلی کے لئے قائم کمیٹی، سرکاری فنڈز اور اس سے مستفید ہونے والے صحافیوں کی فہرست درج ہے۔ رائو رشید اور صاحبزادہ فاروق علی خان کی کتابوں میں بھی اعتراف موجود ہے اور خفیہ امریکی پیپرز بھی منظر عام پر آچکے ہیں مگر کسی میں اس تحریک کو سی آئی اے کی طرف سے ملنے والی سپانسر شپ کا کوئی ذکر نہیں ملتا، الٹا تہران کے امریکی سفارت خانے سے ملنے والی دستاویزات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ضیاء الحق بعض شرعی قوانین کا نفاذ، ایٹمی پروگرام میں پیش رفت اور کئی دیگر معاملات میں امریکی خواہشات کی تکمیل کرنے لئے تیار نہیں تھے۔
بھٹو کے جانشین جنرل ضیاء الحق نے اپنے پیشرو کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو خوب رگڑا لگایا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں اور آزادی صحافت کے علمبرداروں سے کم و بیش وہی سلوک کیا جو بھٹو دور کی یاد گار تھا۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی، قیوم نظامی، خالد چودھری اور جہانگیر بدر اب تک اپنے زخم سہلاتے ہیں مگر بہو بیٹیوں کے باپ ہیں اس ’’ظالم‘‘،’’سفاک‘‘،’’اور منقسم مزاج‘‘ فوجی حکمران کا رویہ قائد عوام سے مختلف رہا۔ ایک بار جناب ا ٓصف علی زرداری کے چہیتے ایک صحافی(بعد میں سفارتکار) نے محترمہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی بعض اصلی یا جعلی تصاویر ضیاء الحق کے سامنے رکھیں جنہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھا مگر فوجی آمر نے ڈانٹ دیا اور ایک روایت کے مطابق ایوان صدر میں اس مہم جو کا داخلہ بند کردیا۔
طارق ملک سے میں کبھی ملا ہوں نہ اس کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں اور نہ اس کے مستعفی ہونے سے پریشان۔ ان کے والد پروفیسر فتح محمد ملک سے البتہ پرانی یاد اللہ ہے اور انہیں مل کر حضرت جوش یاد آتے ہیں؎
بہت جی خوش ہوا اے ہم نشین کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونٹے پائے جاتے ہیں
مگر جس بھونڈے انداز میں پہلے طارق ملک کو برطرف اور اب ان کی بیٹی کو دھمکی دے کر استعفیٰ پر مجبور کیا گیا وہ دکھ اور صدمے کا باعث بنا۔ ملک میں جمہوری روایات ،صبر و تحمل، روا داری، قاعدے قانون کی پابندی اور احترام انسانیت کا پہلے ہی فقدان ہے۔ چادرچار دیواری کا تقدس باقی نہیں رہا، اپنی اور دوسروں کی بیٹیوں کو سانجھا سمجھنے کا اسلامی، پاکستانی اور پنجابی کلچر بھی نامراد سیاسی ضرورتوں کی بھینٹ چڑھنے لگا ہے جو ہر مہذب شہری کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔
کونسل مسلم لیگ کے سربراہ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے برطانیہ میں ہائی کمشنر بننے کی بھٹوانہ پیشکش قبول کرلی تو ایک دوست نے وجہ دریافت کی’’میں عزت بچائوں یا سیاست؟‘‘ دولتانہ کا جواب تھا۔ طارق ملک نے نوکری چھوڑ کر عزت بچالی۔ تو کیا اب اس جمہوری ریاست میں لوگوں کو اپنی عزت دائو پر لگا کر سیاست یا ملازمت کرنا پڑے گی؟ خدا گواہ ہے مجھے یقین نہیں آرہا کہ مشرقی روایات کے دلدادہ میاں نواز شریف کے دور میں کوئی اپنی بیٹی کو ملنے والے دھمکی آمیز پیغام کی بنا پر ملازمت سے استعفیٰ دے سکتا ہے مگر عیاں راچہ بیاں
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=163569