موجودہ حکمرانوں کی اطاعت کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-254"
سوال_ مسلمان حاکم کی اطاعت کرنا کس قدر ضروری ہے؟ اگر حکمران ظالم،جابر اور عیاش ہوں تو کیا پھر بھی انکی اطاعت واجب ہے؟ نیز موجودہ حکمرانوں کی اطاعت کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟

Published Date: 20-6-2019

جواب:
الحمدللہ:

*شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کو ہر مسئلہ میں مکمل رہنمائی دی ہے اور دنیا میں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ و سلیقہ سکھایا ہے، اسلام مسلمانوں کو جہاں اخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے وہیں اتفاق و اتحاد کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے،اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شریعت مسلمانوں کے اتحاد کو قائم رکھنے کا حکم دے اور اس کے لیے کوئی اصول و ضوابط ہی نا بتائے،اور ان اصولوں میں سب سے اہم بات ہے اپنے حاکم کی اطاعت کرنا،آپ دیکھتے ہیں کہ کسی بھی گھر ،محلہ ، شہر، یا ملک کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے وہاں کے وڈیرے/ حاکم/لیڈر کی اطاعت کرناضروری ہوتی ہے،اگر اپنے لیڈر /حاکم وقت کی اطاعت ہی نا کی جائے تو اتفاق و اتحاد کی بجائے اختلافات جنم لیتے ہیں، جو کسی بھی گھر ، محلہ، شہر یا ملک کو برباد کر دیتے ہیں،جیسے کہ آج اختلاف و انتشار کی وجہ سے کئی مسلم ممالک ذلیل و رسواء ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔*

*ہمارے پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتی ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت و فرمانبرداری والی تمام آیات اور احادیث صرف پہلے گزر جانے والے خلفاء اور امراء کے لیے ہی تھیں،اور موجودہ وقت میں جو مسلمانوں کے حاکم ہیں چونکہ وہ جمہوری ہیں اور جمہوریت کفر ہے اس لیےانکی اطاعت واجب نہیں بلکہ اکثر مسلمان تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور کفر کے فتوےٰ داغنے شروع کر دیتے ہیں، جب کہ شریعت ہمیں مسلمان حاکم کی اطاعت کا درس دیتی ہے، بھلے وہ حاکم ظالم جابر اور عیاش ہی کیوں نا ہو،وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری ، ہمارے لیے ہر حال میں انکی ہر معروف کام میں اطاعت ضروری اور واجب ہے اور اگر وہ خلاف شریعت کام کہیں تو انکی اطاعت نہیں کریں گے، بلکہ شریعت کی رو سے انہیں سمجھائیں گے، اور اگر پھر بھی وہ غلطی پر قائم رہیں تو ہم دل میں برا جانیں گے، لیکن شریعت کے احکامات کے مطابق حاکم وقت کے کسی بھی غلط فیصلے یا ظلم و جبر پر نا ہی اسکے خلاف بغاوت کی جائے گی اور نا ہی کفر کے فتوے لگائیں جائیں گے،اور نا ہی منبر و محراب میں بیٹھ کر انکی غلطیوں کے اعلان کیے جائیں گے، بلکہ تنہائی میں انکو نصیحت کی جائے گی ، اور یہ اطاعت تب تک رہے گی جب تک کہ وہ واضح کفر کا ارتکاب نہیں کرتے اور جب تک وہ نماز کو قائم کرنے والے ہیں*

*موجودہ حالات کے پیش نظر اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے قرآن و حدیث اور سلف صالحین سے چند دلائل پیش خدمت ہیں،جن میں ایک مسلم حکمران کی اطاعت و فرماں برداری کی اہمیت خوب واضح کی گئی ہے،ہماری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اسے قارئین کے لئے فائدہ مند بنائے، اور اسے اپنی رضا کے لئے خالص کرے*

*قرآن کریم سے دلائل*

أَع۔وذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْ۔طانِ الرَّجي۔م
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


يٰۤ۔اَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡ۔عُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡ۔عُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡ۔تُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَ۔وۡمِ الۡاٰخِرِ‌ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔
(سورۃ : النساء، آیت نمبر 59)

تفسیر مودودی
یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے ۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:
( 1) اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے ۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندہ خدا ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے ۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام ، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے ۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مد مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں ۔ ورنہ ہر وہ حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے ۔

( 2 ) اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے ۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت خدا کی واحد عملی صورت ہے ۔ رسول اس لیے مطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں ۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں ۔ کوئی اطاعت خدا رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ۔ ” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ “ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے ۔

( 3 ) مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں ۔ ”اولی الامر “ کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں ، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر ، یا ملکی انتظام کرنے والے حکام ، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج ، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔۔۔۔

تفسیر القرآن الکریم،
استاذ العلماء حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب حفظہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ،
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو، چاہے فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انھیں اپنی، اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور حکام و امراء کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی،
شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ) لکھتے ہیں : ” اختیار والے بادشاہ، قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے، جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف حکم نہ کرے، اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانیے۔ “
(موضح)

علامہ شیخ عبد الرحمٰن سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ تعالی نے اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اولو الامر سے مراد اہل حل و عقد علماء و حکام وقت ہیں، کیونکہ لوگوں کے دینی و دنیوی معاملات اللہ کی اطاعت میں ، اور ان کی پیروی فرمانبرداری سے ہی سدھر سکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ کسی گناہ یامعصیت کے کام کا حکم نہ دیں، اور اگر وہ کوئی ایسا حکم دیتے ہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہے تو ایسی صورت میں حاکم کی کوئی اطاعت نہیں ہے، اور شائد یہی بات ہے کہ جب حکام وقت کی اطاعت کا ذکر کیا گیا تو فعل اطیعوا حذف کر دیا گیا جبکہ رسولﷺ کے ساتھ یہ فعل ذکر کیا گیا: اس کی وجہ یہی ہے کہ رسولﷺ تو اللہ کی اطاعت کے سوائے کسی چیز کا حکم نہیں دیتے ،اور جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی ، لیکن جہاں تک اہل حل و عقد کا تعلق ہے تو ان کی اطاعت کو مشروط کیا گیا کہ یہ اطاعت اللہ کی معصیت میں نہ ہو۔
(تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان ص: 183، ط: الرسالۃ)

اس آیت میں حکام وقت کی اطاعت کی فرضیت کا بیان ہے، اور یہ مطلق ہے، اس کی تقیید سنت میں یوں آئی ہے کہ اطاعت صرف جائز کاموں میں ہے نہ کہ اللہ کی معصیت میں۔

اس کی دلیل آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ:
اطاعت تو صرف جائز کاموں میں ہے۔
(صحیح بخاری:7257)
( صحیح مسلم: 1840)

______&_________

*سنت نبویہ سے حاکم وقت کی اطاعت کی فرضیت کے دلائل*

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی، (صحیح بخاری: حدیث نمبر_2957 )
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1835)

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر (حکام کی) سمع و اطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نا تو اس پر سننا ہے اور نا ماننا ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 7144)
( صحیح مسلم: حدیث نمبر-1839)

حذیفۃ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہا آپ ﷺ نے فرمایاؒ میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نا تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: حاکم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹ پر مارے اور تمہارا سارا مال لے لے،
سنو اور اطاعت کرو۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1847)

علقمۃ ابن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
سلمۃ بن یزید جعفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا: اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو، ان کا کام وہ ہے جو انہیں سونپا گیا ہے اور تمہارا کام وہ ہے جو تمہیں سونپا گیا ہے۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر_1846)

عیاض بن غنم ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی کسی صاحب منصب کو نصیحت کا ارادہ کرے تو اسے علانیۃ ظاہر نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ تھامے او اسے اکیلے میں لے جائے، اگر وہ اس کی بات سن لے تو ٹھیک ورنہ اس نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔
(السنۃ لابن ابی عاصم 1096، )
نیز البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔

ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا: عنقریب ایسے حاکم ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جو کوئی ان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، اور جس نے ان پر انکار کیا اس کا ذمہ بری ہوگیا لیکن جو راضی ہو گیا اور اسی صورت کے پیچھے چل پڑا ، صحابہ نے فرمایا : کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1854)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4760)

حذیفۃ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : لوگ رسول اللہﷺ سے بھلائی کے بارے میں سوال کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے شر(برائی) کے بارے میں سوال کرتا تھا کہ کہیں مجھ تک نہ پہنچ جائے چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر کی دلدلوں میں پھنسے ہوئے تھے پھر اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عطا فرمائی تو کیا اب اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں لیکن اس میں دھواں ہوگا، میں نے کہا : دھواں کیسا؟ فرمایا : ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کو چھوڑ کر دوسری سنتیں اختیار کریں گے، اور میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار کریں گے ، تم ان کی بعض باتوں کو پہچانو گے اور بعض کا انکار کرو گے، میں نے کہا : تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں جنہم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے، جوان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جنہم میں پھینک دیں گے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ مجھے ان کے اوصاف ونشانیاں بتادیں (کہ وہ کیسے ہوں گے) آپﷺ نے فرمایا: ہاں وہ ہماری طرح کے ہی ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر مجھے یہ زمانہ مل جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ تم مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امیر کو لازم پکڑنا ، میں نے کہا : اور اگر ان کی نہ کوئی جماعت ہو اور نہ امام؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سےا لگ ہوجانا اگرچہ تمہیں درخت کی ٹہنی سے ہی لٹکنا پڑے ، یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے اور تم اسی طریقے پر ہو۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-7084)
(صحیح مسلم:847 الفاظ مسلم کے ہیں)

امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث حذیفہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امام کو لازم پکڑنا چاہئے ، اس کی اطاعت کرنی چاہئے اگرچہ وہ فسق وفجور یا دیگر معصیت میں مبتلا ہو لوگوں کا مال غصب کرتا ہو یا دیگر گناہوں میں ملوث ہو ایسی صورت میں اگر وہ گناہ کا حکم نہ دے تو اس کی اطاعت فرض ہے۔
(شرح مسلم 12/237) ط۔دالفکر بیروت۔

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بنواسرائیل کے امور کی تدبیر انبیاء کے ذمے تھی، جب بھی کوئی نبی وفات پاتا اس کے بعد ایک اور نبی آجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن خلفا، بکثرت ہوں گے ، صحابہ کرام نے فرمایا : اے اللہ کے رسول پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: جو پہلے امیر بنے اس کی بیعت نبھاؤ اور وفا کرو، ان کو ان کا حق دو: کیونکہ اللہ نے ان کے سپرد جو کیا ہے اللہ ان سے اس (رعایا) بارے میں پوچھے گا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 3455)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-،1842)

ابن مسعود سے روایت ہے کہ”میرے بعد تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں تم پر دوسروں کو مقدم کیا جائے گا اور ایسی باتیں سامنے آئیں گی جن کو تم برا سمجھو گے۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت ہمیں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو حقوق تم پر دوسروں کے واجب ہوں انہیں ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق اللہ ہی سے مانگنا۔ ( یعنی صبر کرنا اور اپنا حق لینے کے لیے خلیفہ اور حاکم وقت سے بغاوت نہ کرنا ) ۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-3603)
( صحیح مسلم : حدیث 1843)

عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہاور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسولﷺ کیا ایسے موقع پر ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے اور ہرگز اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1855)

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا اس کے لئے قیامت کے دن کوئی حجت نہیں ہوگی، اور جو اس حال میں مراکہ وہ جماعت سے الگ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا
(السنۃ/ابن ابی عاصم 1075، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)

حارث ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کو لازم پکڑنے کا، سننے اور اطاعت کرنے کا ، ہجرت کا، اللہ کی راہ میں جہاد کا، اور جو جماعت سے ایک بالشت بھی باہر ہوا تو اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
(سنن ترمذی:2863، البانی نے حدیث کو صحیح کہاہے)

عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو ، اور سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہارے اوپر ایک حبشی غلام امیر بنا دیا جائے ،تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ سخت اختلافات دیکھے گا، اس لئے تم میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو او اس سے تمسک اختیار کرو،
(اخرجہ ابن ابی عاصم السنۃ 54، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)

عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے بلایا ، ہم نے آپ ﷺ کی بیعت کی آپ نے ہم سے جن امور پر بیعت لی وہ یہ تھے کہ ہم سنیں اور اطاعت کریں چاہیں وہ کام ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ اور ہمیں اس میں مشکل پیش آئے یا آسانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم امراء سے بغاوت نہ کریں اور آپ نے فرمایا: سوائے اس کے کہ تم ان میں واضح کفر پاؤ جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح وصاف دلیل ہو،
(صحیح مسلم، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، وتحر یمھافی المعصیۃ)

[عن أنس بن مالك:]
نهانا كُبَراؤُنا مِنْ أصحابِ رسولِ اللهِ قال: لا تَسُبُّوا أُمَراءَكم ولا تَغُشُّوهم ولا تَبْغَضوهم واتقوا اللهَ واصبِروا فإنَّ الأمرَ قريبٌ
(الألباني تخريج كتاب السنة ١٠١٥)
• إسناده جيد
انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اصحاب رسول اللہﷺ میں سے کبارصحابہ نے ہمیں سختی سے منع کیا: فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: نہ تو اپنے امراء کو گالی دو اور نہ ان کے پاس زیادہ جاؤ اور نہ ان سے بغض رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو؛ کیونکہ وقت بہت قریب ہے۔

تمیم داریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً، دین خیر خواہی کا نام ہے“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن کے لیے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4944)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-55)

وضاحت:
اللہ کے لئے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کے لئے ہو،
کتاب اللہ کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے،
رسول کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ رسول کی نبوت کی تصدیق کرنے کے ساتھ وہ جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، مسلمانوں کے حاکموں کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور حقیقی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے، اور عام مسلمانوں کے لئے خیرخواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ) کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلایا ، ہم نے آپ کےساتھ بیعت کی ، آپ نے ہم سے جن چیزوں پر بیعت لی وہ یہ تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خوشی اور ناخوشی میں اور مشکل اور آسانی میں اور ہم پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں ، سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی اور اس پر کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اس کی اہلیت رکھنے والوں سے تنازع نہیں کریں گے ۔ کہا : ہاں ، اگر تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو جس کے ( کفر ہونے پر ) تمہارے پاس ( قرآن اور سنت سے ) واضح آثار موجود ہوں۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1709)

_____&_____

*خلیفہ کی بیعت توڑنے،مسلمانوں کی اجتماعیت میں خلل ڈالنے اور جماعت سے نکلنے کے بارے کچھ روایات*

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہوا اور اسی حال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر- 1848)

عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جسے اپنے امیر کی کوئی بات بری لگے تو اس کو چاہئے کہ اس پر صبر کرے ؛ کیونکہ جو بھی امیر کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر نکلا اور پھر اسی حال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئی
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-7053)
( صحیح مسلم: حدیث نمبر- 1849)
(یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

عرفجہ اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو تمہارے پاس اس حال میں آئے جبکہ تم پر ایک امیر قائم ہے اور تمہاری اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کرے یا اس میں انتشار وتفرق پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو۔
اور ایک روایت میں ہے : تو اس تلوار سے اس کی گردن ماردو جو بھی ہو۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1852)

نیز عبد اللہ بن عمر وبن عاص کی طویل مرفوع حدیث میں ہے: جو کسی امیر کی بیعت کرے اور اسے اپنی وفاداری سونپ دے ، دل سے اس کی اطاعت پر راضی ہو جائے تو اسے چاہئے کہ حتی المقدور اس کی اطاعت کرے پھر اگر کوئی دوسرا آکر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ماردو۔
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-1844)

_________&&_________

*حکام وقت کی اطاعت و فرمانبرداری پر اقوال صحابہ*

سوید ابن غفلہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے عمر نے کہا: اے ابو امیہ ہوسکتا ہے کہ میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل سکوں ، اگر تمہارے اوپر ایک نک کٹا حبشی غلام بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگر وہ تمہیں مارے تو صبر کرو، اور تمہیں محروم کر دے تو صبر کرو، اور اگر تم سے کوئی ایسا کام چاہے جو تمہارے دین کو ختم کر رہا ہو تو اسے کہو: لبیک اے امیر بس میرا خون لے لو لیکن میں اپنے دین کو نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور کسی بھی حال میں جماعت سے الگ مت ہو۔
(السنۃ للخلال 1/111 ، دار الرایہ)

جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خادموں اور لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص ( یزید ) کی بیعت، اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی غدر اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کسی شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس سے جنگ کی جائے اور دیکھو مدینہ والو! تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت کو توڑے اور دوسرے کسی سے بیعت کرے تو مجھ میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں رہا، میں اس سے الگ ہوں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_ 7111)

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب لوگوں نے عبد الملک کی بیعت کی ، توعبد اللہ بن عمرؓ نے اس کی طرف خط لکھا: اللہ کے بندے امیر المومنین عبد الملک کی طرف : میں اللہ کے بندے امیر المومنین عبد الملک کی بیعت کا اقرار کرتا ہو ں کہ میں اللہ اور رسول کے طریقے پر جس قدر ہوسکا اس کی اطاعت کروں گا اور میرے بیٹے بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-7205)

__________&______

*حکام وقت کی اطاعت میں ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے اقوال:*

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اے شعیب تمہارا لکھا ہوا تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا جب تک تم ہر نیک و بد حاکم کے پیچھے نماز صحیح نہ سمجھو، شعیب اس وقت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ کے کچھ اجزاء لکھ رہے تھے۔
(شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ، ط۔ دار طیبہ(1/173)

نیز امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور سننا اور اطاعت کرنا ہر امیر کی، وہ نیک ہو یا بد ، یا وہ اپنے باپ کےبعد خلافت سنبھالے اور اس پر لوگوں کا اتفاق ہوجائے اور وہ اس سے راضی ہوجائیں ، یا وہ جوبذریعہ قوت امیر بنے یہاں تک کہ وہ خلیفہ بن جائے اور امیر المومنین کہلانے لگے۔
(شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ، ط۔ دار طیبہ 1/180)

نیز انہیں امام ممدوح نے امیر کے ظلم و جور پر صبر کی ، نیز اس کی خیر خواہی چاہنے اور اس کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی وہ عملی مثالیں دی ہیں جو سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں؛

چانچہ خلال نے اپنی کتاب السنۃ میں حنبل سے صحیح سند سے روایت کیا ہے(1/132-134ط: دارالرایہ) کہ:
واثق کے دور حکومت میں بغداد کے فقہاء ابوعبداللہ (یعنی احمد بن حنبل) کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! اب یہ معاملہ بہت بڑھ گیا ہے اور پھیل گیا ہے(یعنی آپ کا خلق قرآن کے مسئلے کو بیان کرنا وغیرہ) امام احمد نے فرمایا: آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اس امارت کے بارے میں مشورہ چاہتے ہیں ہم اس (واثق) کی امارت اور حکومت سے راضی نہیں ہیں، امام احمد نے ان لوگوں سے ایک گھنٹہ مناظرہ کیا اور انہیں کہا: تمہیں چاہیئے کہ تم دل سے برا جانو اور اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو، مسلمانوں کے کلمے کو متفرق مت کرو اور اپنے اور اپنے ساتھ دوسروں کے خون مت بہاؤ، اپنے امر کے انجام پر غور کرو، اور صبر کرو یہان تک کہ نیک کو آرام آجائے یا پھر بد کے شر سے لوگ پر امن ہوجائیں،

امام سھل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے بہتر ہلاک ہوں گے، جو سب کےسب حاکم وقت سے بغض رکھتے ہوں گے، اور نجات وہ ایک فرقہ پایئگا جوحاکم وقت کے ساتھ ہوگا،
(قوت القلوب/ابوطالب مکی 2/242 ط : دار صادر)

امام حسن بن علی بربہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر تم کسی کو حاکم وقت پر بددعا کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ اہل بدعت میں سے ہے اور اگر کسی کو حاکم وقت کے لئے دعا کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ صاحب سنت ہے( ان شاء اللہ تعالی)
(قوت القلوب/ابوطالب مکی 2/107 ط : دار صادر)

دوسری جگہ پر آپ فرماتے ہیں: کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایک رات بھی اس حال میں گزارے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نیک یا بد امام کی امارت سے آزاد سمجھتا ہو۔(اقوت القلوب/ابوطالب مکی 2/70 ط : دار صادر)

عقیدہ طحاویہ میں امام اطحاوی فرماتے ہیں: اور ہم اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حکام وقت واہل حل وعقد کے خلاف بغاوت کرے اگر چہ وہ کتنا ہی ظلم کیوں نہ کریں، اور نہ ہی ہم ان پر بددعا کرتے ہین اور نہ ہی ان کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچے ہیں اور ہم ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کے ضمن میں داخل سمجھتے ہیں جو کہ فرض ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی گناہ کا حکم دیں، نیز ہم ان کے سدھرنے کی اور ان کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں
( شرح الطحاویہ لابن ابی العز، بتخر یج الالبانی ، ص: 379،ط: مکتب اسلامی)

اور ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس کی امامت ثابت ہوگئی اس کی اطاعت کی فرضیت بھی ثابت ہوگئی اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہوگئی؛
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۔۔۔۔))
(المغنی 12/273 ط: دار ہجر)

نیز امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: اسی بناء پر اہل السنۃ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ ائمہ کے خلاف بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کے خلاف قتال بالسیف کو حرام سمجھتے ہیں، اگرچہ یہ ائمہ کتنے ہی ظالم کیوں نہ ہوں، جیسا کہ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے؛ کیونکہ قتال وبغاوت سے پیدا ہونے والا فتنہ ان کے ظلم کے فتنے سے کہیں زیادہ ہے اس لئے چھوٹے فساد کے ذریعے بڑے فساد کو دفع کرنا دانشمندانہ فعل نہیں اور شائد ہی کوئی فرقہ ایسا ہو جس نے کسی حاکم کے خلاف بغاوت کی ہو اور پھر اس کے خروج سے پیدا ہونے والا فساد اس ظلم کے فساد سے زیادہ نہ ہوا ہو جسے اس خروج نے مٹایا۔
(منہاج السنۃ 2/391،ط: مکتبۃ المعارف)

نیز شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کمال اجتماعیت میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم حاکم وقت کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں اگرچہ وہ ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے آپﷺ نے اس بارے میں کافی شافی بیان فرمایا اور اس ضمن میں شرعی ودنیوی لحاظ سے بیان کے تمام طرق وآداب استعمال فرمائے پھر حال یہ ہوا کہ یہ عظیم اصول اکثر مدعیان علم اذہاں سےبھی غائب ہوگیاچہ جائیکہ اس پر عمل ہو!!
(الجامع الفرید ، ص: 324)

*عصر حاضر کے علماء کرام کے اقوال*

شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لیکن جہاں تک ائمہ مسلمین کی خیر خواہی کا تعلق ہے جوکہ حاکم وقت سے لے کر شہر کے امیر اور قاضی تک سبھی ہوسکتے ہیں، نیز ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی چھوٹے صوبے یا علاقے پر حکمران ہیں ؛ چونکہ ان کو سونپے جانے والی ذمہ داری بھی عظیم ہے اس لئے ان کے مرتبے اور مقام کی مناسبت سے ان کی خیر خواہی بھی فرض ہوئی؛ اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان کی امامت کو مانا جائے، ولایت کو مانا جائے اچھے وجائز کاموں میں ان کی اطاعت فرض سمجھی جائے، ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے نیز عوام الناس کو ان کی بات سننے وماننے کی ترغیب دی جائے، اور ان کا حکم ماننے کو کہا جائے بشرطیکہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی نافرمانی نہ لازم آتی ہو۔
(الریاض الناضرۃ:ص: 49)

مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی نے اہل حل وعقد کی اطاعت کا حکم دیا ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ان میں ان کی اطاعت فرض کی ہے اور امور خیریہ میں ان کے ساتھ تعاون کو، باہمی تناصح اور پھر صبر کو واجب قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّ۔هِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّ۔هِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
(مجموع فتاوی الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ۔ جمع محمد سعد شویعر ط: الافتاء(9-93)۔

علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رعایا پر واجب امراء کے منجملہ حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ رعایا حاکم کی بات سنے اور اطاعت کرے ان کا کسی کام کو کرنے کا کہنا یا منع کرنا سنے جب تک وہ خلاف شریعت بات کا حکم نہ دیں، اگر حکم ماننے سے شریعت کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسی صورت میں کوئی سننا یا ماننانہیں: لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
(رسالہ: حقوق الراعی والراعیۃ)

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ولی امر کا حق ہے کہ جائز کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر امیر کی بات ماننا اور سننا فرض ہے اور فرمایا : چنانچہ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ ایک حبشی غلام ہی تم پر امیر بنادیا جائے اور جس نے مسلمان امیر کی اطاعت نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
(المتقی من فتاوی الشیخ صالح الفوزان ، جمع عادل الفریدان، ط: موسسۃ الرسالۃ(1/390)

*جس امام/حاکم کی اطاعت کا احادیث میں حکم ہے وہ یہی موجودہ حکمران ہیں*

فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریمرحمہ اللہ المتوفی سن 1425ھ
( سابق مساعد استاد المعھد العالي للقضاء، الریاض)

وہ آئمہ یا خلیفہ جن کی اطاعت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے وہ یہی موجودہ ومعروف حکمران ہیں کہ جن کے پاس حکومت واختیارات ہیں لیکن جو معدوم ہو یا اس کو اصلاً ہی کسی چیز پر اختیار یا اقتدار ہہ نہ ہو تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولاۃ امور (حکمرانوں) کی اطاعت والے حکم میں داخل نہیں ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أمر بطاعة الأئمة الموجودين المعلومين، الذين لهم سلطان يقدرون به على سياسة الناس، لا بطاعة معدوم ولا مجهول ولا من ليس له سلطان ولا قدرة على شيء أصلاً‘‘
(منھاج السنۃ النبویۃ: (1/115)
ط۔ رشاد سالم۔)
ترجمہ:
(بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آئمہ کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے جو موجود و معروف ہیں کہ جن کے پاس اقتدار ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں کے سیاسی امور کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ نا کہ معدوم و مجہول کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے، اور نہ ہی ان کی کہ جن کا کسی چیز پر اصلاً ہی کوئی اختیار واقتدار نہیں)

اس کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جو امامت کے مقاصد بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں: لوگوں میں عدل وانصاف قائم کرنا، شعائر اللہ کا اظہار کرنا اوراقامت حدود وغیرہ کہ جن کو کوئی معدوم جو موجود ہی نہ ہو یا مجہول جسے کوئی جانتا ہی نہ ہو ادا نہیں کرسکتا۔ بلکہ یہ باتیں تووہی کرسکتا ہے جو موجود ہواور تمام مسلمانوں خواہ علماء ہوں یا عوام، نوجوان ہوں یا بوڑھے، مرد ہوں یا عورتوں میں معروف ہو۔ ایسا امام وحاکم کہ جسے مقاصد امامت کے نفاذ کی قدرت حاصل ہو۔ جب کسی مظلوم کو اس کا حق لوٹانے کا حکم دے تو لوٹا دیا جائے، جب کسی حد کو نافذ کرنے کا حکم دے تو وہ نافذ کردی جائے، جب وہ رعایا پر کوئی تعزیری حکم جاری کرے تو وہ جاری کردیا جائے اور اس جیسے دیگر مظاہر جو سلطنت، ولایت وحکومت پر دلالت کرتے ہیں۔ تو یہ وہ امام ہے کہ جس کے ہاتھوں اللہ تعالی مسلمانوں کے مصالح جاری کرواتا ہے۔ پس راستے محفوظ ہوجاتے ہیں، مسلمانوں کا کلمہ اس پر جمع ہوجاتا ہے یعنی یکجہتی ہوجاتی ہے، اور اسلامی سلطنت کی بنیادوں کی حفاظت ہوتی ہے،

(مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب و السنۃ)

_________&_________

*اوپر بیان کردہ تمام آیات و احادیث، سلف صالحین اور علماء کرام کے فتاویٰ جات اس بات کی دلیل ہیں کہ تمام مسلمانوں کے لیے اپنے مسلمان حاکم کی اطاعت ہر معروف کام میں واجب اور ضروری ہے، پھر چاہے حکمران فاسق و فاجر ہی کیوں نا ہوں، لیکن اگر یہ حاکم کسی غیر شرعی کام کا حکم دیں تو اس امر میں انکی اطاعت جائز نہیں،اور نا ہی کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ حاکم وقت کو گالی دے یا اسکے بارے فتنہ و فساد پھیلائے اگر حاکم برا ہے تو دعوت سے اسکی اصلاح کرے یا پھر خاموش رہے*

لنک
 

جاسم محمد

محفلین
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-254"
سوال_ مسلمان حاکم کی اطاعت کرنا کس قدر ضروری ہے؟ اگر حکمران ظالم،جابر اور عیاش ہوں تو کیا پھر بھی انکی اطاعت واجب ہے؟ نیز موجودہ حکمرانوں کی اطاعت کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟

Published Date: 20-6-2019

جواب:
الحمدللہ:

*شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کو ہر مسئلہ میں مکمل رہنمائی دی ہے اور دنیا میں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ و سلیقہ سکھایا ہے، اسلام مسلمانوں کو جہاں اخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے وہیں اتفاق و اتحاد کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے،اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شریعت مسلمانوں کے اتحاد کو قائم رکھنے کا حکم دے اور اس کے لیے کوئی اصول و ضوابط ہی نا بتائے،اور ان اصولوں میں سب سے اہم بات ہے اپنے حاکم کی اطاعت کرنا،آپ دیکھتے ہیں کہ کسی بھی گھر ،محلہ ، شہر، یا ملک کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے وہاں کے وڈیرے/ حاکم/لیڈر کی اطاعت کرناضروری ہوتی ہے،اگر اپنے لیڈر /حاکم وقت کی اطاعت ہی نا کی جائے تو اتفاق و اتحاد کی بجائے اختلافات جنم لیتے ہیں، جو کسی بھی گھر ، محلہ، شہر یا ملک کو برباد کر دیتے ہیں،جیسے کہ آج اختلاف و انتشار کی وجہ سے کئی مسلم ممالک ذلیل و رسواء ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔*

*ہمارے پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتی ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت و فرمانبرداری والی تمام آیات اور احادیث صرف پہلے گزر جانے والے خلفاء اور امراء کے لیے ہی تھیں،اور موجودہ وقت میں جو مسلمانوں کے حاکم ہیں چونکہ وہ جمہوری ہیں اور جمہوریت کفر ہے اس لیےانکی اطاعت واجب نہیں بلکہ اکثر مسلمان تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور کفر کے فتوےٰ داغنے شروع کر دیتے ہیں، جب کہ شریعت ہمیں مسلمان حاکم کی اطاعت کا درس دیتی ہے، بھلے وہ حاکم ظالم جابر اور عیاش ہی کیوں نا ہو،وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری ، ہمارے لیے ہر حال میں انکی ہر معروف کام میں اطاعت ضروری اور واجب ہے اور اگر وہ خلاف شریعت کام کہیں تو انکی اطاعت نہیں کریں گے، بلکہ شریعت کی رو سے انہیں سمجھائیں گے، اور اگر پھر بھی وہ غلطی پر قائم رہیں تو ہم دل میں برا جانیں گے، لیکن شریعت کے احکامات کے مطابق حاکم وقت کے کسی بھی غلط فیصلے یا ظلم و جبر پر نا ہی اسکے خلاف بغاوت کی جائے گی اور نا ہی کفر کے فتوے لگائیں جائیں گے،اور نا ہی منبر و محراب میں بیٹھ کر انکی غلطیوں کے اعلان کیے جائیں گے، بلکہ تنہائی میں انکو نصیحت کی جائے گی ، اور یہ اطاعت تب تک رہے گی جب تک کہ وہ واضح کفر کا ارتکاب نہیں کرتے اور جب تک وہ نماز کو قائم کرنے والے ہیں*

*موجودہ حالات کے پیش نظر اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے قرآن و حدیث اور سلف صالحین سے چند دلائل پیش خدمت ہیں،جن میں ایک مسلم حکمران کی اطاعت و فرماں برداری کی اہمیت خوب واضح کی گئی ہے،ہماری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اسے قارئین کے لئے فائدہ مند بنائے، اور اسے اپنی رضا کے لئے خالص کرے*

*قرآن کریم سے دلائل*

أَع۔وذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْ۔طانِ الرَّجي۔م
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


يٰۤ۔اَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡ۔عُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡ۔عُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡ۔تُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَ۔وۡمِ الۡاٰخِرِ‌ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔
(سورۃ : النساء، آیت نمبر 59)

تفسیر مودودی
یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے ۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:
( 1) اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے ۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندہ خدا ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے ۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام ، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے ۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مد مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں ۔ ورنہ ہر وہ حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے ۔

( 2 ) اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے ۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت خدا کی واحد عملی صورت ہے ۔ رسول اس لیے مطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں ۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں ۔ کوئی اطاعت خدا رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ۔ ” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ “ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے ۔

( 3 ) مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں ۔ ”اولی الامر “ کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں ، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر ، یا ملکی انتظام کرنے والے حکام ، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج ، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔۔۔۔

تفسیر القرآن الکریم،
استاذ العلماء حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب حفظہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ،
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو، چاہے فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انھیں اپنی، اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور حکام و امراء کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی،
شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ) لکھتے ہیں : ” اختیار والے بادشاہ، قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے، جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف حکم نہ کرے، اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانیے۔ “
(موضح)

علامہ شیخ عبد الرحمٰن سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ تعالی نے اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اولو الامر سے مراد اہل حل و عقد علماء و حکام وقت ہیں، کیونکہ لوگوں کے دینی و دنیوی معاملات اللہ کی اطاعت میں ، اور ان کی پیروی فرمانبرداری سے ہی سدھر سکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ کسی گناہ یامعصیت کے کام کا حکم نہ دیں، اور اگر وہ کوئی ایسا حکم دیتے ہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہے تو ایسی صورت میں حاکم کی کوئی اطاعت نہیں ہے، اور شائد یہی بات ہے کہ جب حکام وقت کی اطاعت کا ذکر کیا گیا تو فعل اطیعوا حذف کر دیا گیا جبکہ رسولﷺ کے ساتھ یہ فعل ذکر کیا گیا: اس کی وجہ یہی ہے کہ رسولﷺ تو اللہ کی اطاعت کے سوائے کسی چیز کا حکم نہیں دیتے ،اور جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی ، لیکن جہاں تک اہل حل و عقد کا تعلق ہے تو ان کی اطاعت کو مشروط کیا گیا کہ یہ اطاعت اللہ کی معصیت میں نہ ہو۔
(تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان ص: 183، ط: الرسالۃ)

اس آیت میں حکام وقت کی اطاعت کی فرضیت کا بیان ہے، اور یہ مطلق ہے، اس کی تقیید سنت میں یوں آئی ہے کہ اطاعت صرف جائز کاموں میں ہے نہ کہ اللہ کی معصیت میں۔

اس کی دلیل آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ:
اطاعت تو صرف جائز کاموں میں ہے۔
(صحیح بخاری:7257)
( صحیح مسلم: 1840)

______&_________

*سنت نبویہ سے حاکم وقت کی اطاعت کی فرضیت کے دلائل*

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی، (صحیح بخاری: حدیث نمبر_2957 )
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1835)

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر (حکام کی) سمع و اطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نا تو اس پر سننا ہے اور نا ماننا ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 7144)
( صحیح مسلم: حدیث نمبر-1839)

حذیفۃ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہا آپ ﷺ نے فرمایاؒ میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نا تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: حاکم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹ پر مارے اور تمہارا سارا مال لے لے،
سنو اور اطاعت کرو۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1847)

علقمۃ ابن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
سلمۃ بن یزید جعفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا: اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو، ان کا کام وہ ہے جو انہیں سونپا گیا ہے اور تمہارا کام وہ ہے جو تمہیں سونپا گیا ہے۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر_1846)

عیاض بن غنم ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی کسی صاحب منصب کو نصیحت کا ارادہ کرے تو اسے علانیۃ ظاہر نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ تھامے او اسے اکیلے میں لے جائے، اگر وہ اس کی بات سن لے تو ٹھیک ورنہ اس نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔
(السنۃ لابن ابی عاصم 1096، )
نیز البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔

ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا: عنقریب ایسے حاکم ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جو کوئی ان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، اور جس نے ان پر انکار کیا اس کا ذمہ بری ہوگیا لیکن جو راضی ہو گیا اور اسی صورت کے پیچھے چل پڑا ، صحابہ نے فرمایا : کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1854)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4760)

حذیفۃ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : لوگ رسول اللہﷺ سے بھلائی کے بارے میں سوال کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے شر(برائی) کے بارے میں سوال کرتا تھا کہ کہیں مجھ تک نہ پہنچ جائے چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر کی دلدلوں میں پھنسے ہوئے تھے پھر اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عطا فرمائی تو کیا اب اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں لیکن اس میں دھواں ہوگا، میں نے کہا : دھواں کیسا؟ فرمایا : ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کو چھوڑ کر دوسری سنتیں اختیار کریں گے، اور میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار کریں گے ، تم ان کی بعض باتوں کو پہچانو گے اور بعض کا انکار کرو گے، میں نے کہا : تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں جنہم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے، جوان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جنہم میں پھینک دیں گے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ مجھے ان کے اوصاف ونشانیاں بتادیں (کہ وہ کیسے ہوں گے) آپﷺ نے فرمایا: ہاں وہ ہماری طرح کے ہی ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر مجھے یہ زمانہ مل جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ تم مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امیر کو لازم پکڑنا ، میں نے کہا : اور اگر ان کی نہ کوئی جماعت ہو اور نہ امام؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سےا لگ ہوجانا اگرچہ تمہیں درخت کی ٹہنی سے ہی لٹکنا پڑے ، یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے اور تم اسی طریقے پر ہو۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-7084)
(صحیح مسلم:847 الفاظ مسلم کے ہیں)

امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث حذیفہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امام کو لازم پکڑنا چاہئے ، اس کی اطاعت کرنی چاہئے اگرچہ وہ فسق وفجور یا دیگر معصیت میں مبتلا ہو لوگوں کا مال غصب کرتا ہو یا دیگر گناہوں میں ملوث ہو ایسی صورت میں اگر وہ گناہ کا حکم نہ دے تو اس کی اطاعت فرض ہے۔
(شرح مسلم 12/237) ط۔دالفکر بیروت۔

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بنواسرائیل کے امور کی تدبیر انبیاء کے ذمے تھی، جب بھی کوئی نبی وفات پاتا اس کے بعد ایک اور نبی آجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن خلفا، بکثرت ہوں گے ، صحابہ کرام نے فرمایا : اے اللہ کے رسول پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: جو پہلے امیر بنے اس کی بیعت نبھاؤ اور وفا کرو، ان کو ان کا حق دو: کیونکہ اللہ نے ان کے سپرد جو کیا ہے اللہ ان سے اس (رعایا) بارے میں پوچھے گا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 3455)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-،1842)

ابن مسعود سے روایت ہے کہ”میرے بعد تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں تم پر دوسروں کو مقدم کیا جائے گا اور ایسی باتیں سامنے آئیں گی جن کو تم برا سمجھو گے۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت ہمیں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو حقوق تم پر دوسروں کے واجب ہوں انہیں ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق اللہ ہی سے مانگنا۔ ( یعنی صبر کرنا اور اپنا حق لینے کے لیے خلیفہ اور حاکم وقت سے بغاوت نہ کرنا ) ۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-3603)
( صحیح مسلم : حدیث 1843)

عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہاور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسولﷺ کیا ایسے موقع پر ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے اور ہرگز اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1855)

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا اس کے لئے قیامت کے دن کوئی حجت نہیں ہوگی، اور جو اس حال میں مراکہ وہ جماعت سے الگ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا
(السنۃ/ابن ابی عاصم 1075، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)

حارث ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کو لازم پکڑنے کا، سننے اور اطاعت کرنے کا ، ہجرت کا، اللہ کی راہ میں جہاد کا، اور جو جماعت سے ایک بالشت بھی باہر ہوا تو اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
(سنن ترمذی:2863، البانی نے حدیث کو صحیح کہاہے)

عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو ، اور سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہارے اوپر ایک حبشی غلام امیر بنا دیا جائے ،تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ سخت اختلافات دیکھے گا، اس لئے تم میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو او اس سے تمسک اختیار کرو،
(اخرجہ ابن ابی عاصم السنۃ 54، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)

عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے بلایا ، ہم نے آپ ﷺ کی بیعت کی آپ نے ہم سے جن امور پر بیعت لی وہ یہ تھے کہ ہم سنیں اور اطاعت کریں چاہیں وہ کام ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ اور ہمیں اس میں مشکل پیش آئے یا آسانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم امراء سے بغاوت نہ کریں اور آپ نے فرمایا: سوائے اس کے کہ تم ان میں واضح کفر پاؤ جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح وصاف دلیل ہو،
(صحیح مسلم، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، وتحر یمھافی المعصیۃ)

[عن أنس بن مالك:]
نهانا كُبَراؤُنا مِنْ أصحابِ رسولِ اللهِ قال: لا تَسُبُّوا أُمَراءَكم ولا تَغُشُّوهم ولا تَبْغَضوهم واتقوا اللهَ واصبِروا فإنَّ الأمرَ قريبٌ
(الألباني تخريج كتاب السنة ١٠١٥)
• إسناده جيد
انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اصحاب رسول اللہﷺ میں سے کبارصحابہ نے ہمیں سختی سے منع کیا: فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: نہ تو اپنے امراء کو گالی دو اور نہ ان کے پاس زیادہ جاؤ اور نہ ان سے بغض رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو؛ کیونکہ وقت بہت قریب ہے۔

تمیم داریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً، دین خیر خواہی کا نام ہے“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن کے لیے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4944)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-55)

وضاحت:
اللہ کے لئے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کے لئے ہو،
کتاب اللہ کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے،
رسول کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ رسول کی نبوت کی تصدیق کرنے کے ساتھ وہ جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، مسلمانوں کے حاکموں کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور حقیقی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے، اور عام مسلمانوں کے لئے خیرخواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ) کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلایا ، ہم نے آپ کےساتھ بیعت کی ، آپ نے ہم سے جن چیزوں پر بیعت لی وہ یہ تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خوشی اور ناخوشی میں اور مشکل اور آسانی میں اور ہم پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں ، سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی اور اس پر کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اس کی اہلیت رکھنے والوں سے تنازع نہیں کریں گے ۔ کہا : ہاں ، اگر تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو جس کے ( کفر ہونے پر ) تمہارے پاس ( قرآن اور سنت سے ) واضح آثار موجود ہوں۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1709)

_____&_____

*خلیفہ کی بیعت توڑنے،مسلمانوں کی اجتماعیت میں خلل ڈالنے اور جماعت سے نکلنے کے بارے کچھ روایات*

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہوا اور اسی حال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر- 1848)

عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جسے اپنے امیر کی کوئی بات بری لگے تو اس کو چاہئے کہ اس پر صبر کرے ؛ کیونکہ جو بھی امیر کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر نکلا اور پھر اسی حال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئی
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-7053)
( صحیح مسلم: حدیث نمبر- 1849)
(یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

عرفجہ اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو تمہارے پاس اس حال میں آئے جبکہ تم پر ایک امیر قائم ہے اور تمہاری اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کرے یا اس میں انتشار وتفرق پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو۔
اور ایک روایت میں ہے : تو اس تلوار سے اس کی گردن ماردو جو بھی ہو۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1852)

نیز عبد اللہ بن عمر وبن عاص کی طویل مرفوع حدیث میں ہے: جو کسی امیر کی بیعت کرے اور اسے اپنی وفاداری سونپ دے ، دل سے اس کی اطاعت پر راضی ہو جائے تو اسے چاہئے کہ حتی المقدور اس کی اطاعت کرے پھر اگر کوئی دوسرا آکر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ماردو۔
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-1844)

_________&&_________

*حکام وقت کی اطاعت و فرمانبرداری پر اقوال صحابہ*

سوید ابن غفلہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے عمر نے کہا: اے ابو امیہ ہوسکتا ہے کہ میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل سکوں ، اگر تمہارے اوپر ایک نک کٹا حبشی غلام بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگر وہ تمہیں مارے تو صبر کرو، اور تمہیں محروم کر دے تو صبر کرو، اور اگر تم سے کوئی ایسا کام چاہے جو تمہارے دین کو ختم کر رہا ہو تو اسے کہو: لبیک اے امیر بس میرا خون لے لو لیکن میں اپنے دین کو نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور کسی بھی حال میں جماعت سے الگ مت ہو۔
(السنۃ للخلال 1/111 ، دار الرایہ)

جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خادموں اور لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص ( یزید ) کی بیعت، اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی غدر اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کسی شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس سے جنگ کی جائے اور دیکھو مدینہ والو! تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت کو توڑے اور دوسرے کسی سے بیعت کرے تو مجھ میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں رہا، میں اس سے الگ ہوں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_ 7111)

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب لوگوں نے عبد الملک کی بیعت کی ، توعبد اللہ بن عمرؓ نے اس کی طرف خط لکھا: اللہ کے بندے امیر المومنین عبد الملک کی طرف : میں اللہ کے بندے امیر المومنین عبد الملک کی بیعت کا اقرار کرتا ہو ں کہ میں اللہ اور رسول کے طریقے پر جس قدر ہوسکا اس کی اطاعت کروں گا اور میرے بیٹے بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-7205)

__________&______

*حکام وقت کی اطاعت میں ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے اقوال:*

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اے شعیب تمہارا لکھا ہوا تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا جب تک تم ہر نیک و بد حاکم کے پیچھے نماز صحیح نہ سمجھو، شعیب اس وقت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ کے کچھ اجزاء لکھ رہے تھے۔
(شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ، ط۔ دار طیبہ(1/173)

نیز امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور سننا اور اطاعت کرنا ہر امیر کی، وہ نیک ہو یا بد ، یا وہ اپنے باپ کےبعد خلافت سنبھالے اور اس پر لوگوں کا اتفاق ہوجائے اور وہ اس سے راضی ہوجائیں ، یا وہ جوبذریعہ قوت امیر بنے یہاں تک کہ وہ خلیفہ بن جائے اور امیر المومنین کہلانے لگے۔
(شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ، ط۔ دار طیبہ 1/180)

نیز انہیں امام ممدوح نے امیر کے ظلم و جور پر صبر کی ، نیز اس کی خیر خواہی چاہنے اور اس کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی وہ عملی مثالیں دی ہیں جو سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں؛

چانچہ خلال نے اپنی کتاب السنۃ میں حنبل سے صحیح سند سے روایت کیا ہے(1/132-134ط: دارالرایہ) کہ:
واثق کے دور حکومت میں بغداد کے فقہاء ابوعبداللہ (یعنی احمد بن حنبل) کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! اب یہ معاملہ بہت بڑھ گیا ہے اور پھیل گیا ہے(یعنی آپ کا خلق قرآن کے مسئلے کو بیان کرنا وغیرہ) امام احمد نے فرمایا: آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اس امارت کے بارے میں مشورہ چاہتے ہیں ہم اس (واثق) کی امارت اور حکومت سے راضی نہیں ہیں، امام احمد نے ان لوگوں سے ایک گھنٹہ مناظرہ کیا اور انہیں کہا: تمہیں چاہیئے کہ تم دل سے برا جانو اور اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو، مسلمانوں کے کلمے کو متفرق مت کرو اور اپنے اور اپنے ساتھ دوسروں کے خون مت بہاؤ، اپنے امر کے انجام پر غور کرو، اور صبر کرو یہان تک کہ نیک کو آرام آجائے یا پھر بد کے شر سے لوگ پر امن ہوجائیں،

امام سھل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے بہتر ہلاک ہوں گے، جو سب کےسب حاکم وقت سے بغض رکھتے ہوں گے، اور نجات وہ ایک فرقہ پایئگا جوحاکم وقت کے ساتھ ہوگا،
(قوت القلوب/ابوطالب مکی 2/242 ط : دار صادر)

امام حسن بن علی بربہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر تم کسی کو حاکم وقت پر بددعا کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ اہل بدعت میں سے ہے اور اگر کسی کو حاکم وقت کے لئے دعا کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ صاحب سنت ہے( ان شاء اللہ تعالی)
(قوت القلوب/ابوطالب مکی 2/107 ط : دار صادر)

دوسری جگہ پر آپ فرماتے ہیں: کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایک رات بھی اس حال میں گزارے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نیک یا بد امام کی امارت سے آزاد سمجھتا ہو۔(اقوت القلوب/ابوطالب مکی 2/70 ط : دار صادر)

عقیدہ طحاویہ میں امام اطحاوی فرماتے ہیں: اور ہم اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حکام وقت واہل حل وعقد کے خلاف بغاوت کرے اگر چہ وہ کتنا ہی ظلم کیوں نہ کریں، اور نہ ہی ہم ان پر بددعا کرتے ہین اور نہ ہی ان کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچے ہیں اور ہم ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کے ضمن میں داخل سمجھتے ہیں جو کہ فرض ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی گناہ کا حکم دیں، نیز ہم ان کے سدھرنے کی اور ان کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں
( شرح الطحاویہ لابن ابی العز، بتخر یج الالبانی ، ص: 379،ط: مکتب اسلامی)

اور ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس کی امامت ثابت ہوگئی اس کی اطاعت کی فرضیت بھی ثابت ہوگئی اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہوگئی؛
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۔۔۔۔))
(المغنی 12/273 ط: دار ہجر)

نیز امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: اسی بناء پر اہل السنۃ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ ائمہ کے خلاف بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کے خلاف قتال بالسیف کو حرام سمجھتے ہیں، اگرچہ یہ ائمہ کتنے ہی ظالم کیوں نہ ہوں، جیسا کہ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے؛ کیونکہ قتال وبغاوت سے پیدا ہونے والا فتنہ ان کے ظلم کے فتنے سے کہیں زیادہ ہے اس لئے چھوٹے فساد کے ذریعے بڑے فساد کو دفع کرنا دانشمندانہ فعل نہیں اور شائد ہی کوئی فرقہ ایسا ہو جس نے کسی حاکم کے خلاف بغاوت کی ہو اور پھر اس کے خروج سے پیدا ہونے والا فساد اس ظلم کے فساد سے زیادہ نہ ہوا ہو جسے اس خروج نے مٹایا۔
(منہاج السنۃ 2/391،ط: مکتبۃ المعارف)

نیز شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کمال اجتماعیت میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم حاکم وقت کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں اگرچہ وہ ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے آپﷺ نے اس بارے میں کافی شافی بیان فرمایا اور اس ضمن میں شرعی ودنیوی لحاظ سے بیان کے تمام طرق وآداب استعمال فرمائے پھر حال یہ ہوا کہ یہ عظیم اصول اکثر مدعیان علم اذہاں سےبھی غائب ہوگیاچہ جائیکہ اس پر عمل ہو!!
(الجامع الفرید ، ص: 324)

*عصر حاضر کے علماء کرام کے اقوال*

شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لیکن جہاں تک ائمہ مسلمین کی خیر خواہی کا تعلق ہے جوکہ حاکم وقت سے لے کر شہر کے امیر اور قاضی تک سبھی ہوسکتے ہیں، نیز ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی چھوٹے صوبے یا علاقے پر حکمران ہیں ؛ چونکہ ان کو سونپے جانے والی ذمہ داری بھی عظیم ہے اس لئے ان کے مرتبے اور مقام کی مناسبت سے ان کی خیر خواہی بھی فرض ہوئی؛ اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان کی امامت کو مانا جائے، ولایت کو مانا جائے اچھے وجائز کاموں میں ان کی اطاعت فرض سمجھی جائے، ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے نیز عوام الناس کو ان کی بات سننے وماننے کی ترغیب دی جائے، اور ان کا حکم ماننے کو کہا جائے بشرطیکہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی نافرمانی نہ لازم آتی ہو۔
(الریاض الناضرۃ:ص: 49)

مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی نے اہل حل وعقد کی اطاعت کا حکم دیا ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ان میں ان کی اطاعت فرض کی ہے اور امور خیریہ میں ان کے ساتھ تعاون کو، باہمی تناصح اور پھر صبر کو واجب قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّ۔هِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّ۔هِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
(مجموع فتاوی الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ۔ جمع محمد سعد شویعر ط: الافتاء(9-93)۔

علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رعایا پر واجب امراء کے منجملہ حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ رعایا حاکم کی بات سنے اور اطاعت کرے ان کا کسی کام کو کرنے کا کہنا یا منع کرنا سنے جب تک وہ خلاف شریعت بات کا حکم نہ دیں، اگر حکم ماننے سے شریعت کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسی صورت میں کوئی سننا یا ماننانہیں: لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
(رسالہ: حقوق الراعی والراعیۃ)

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ولی امر کا حق ہے کہ جائز کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر امیر کی بات ماننا اور سننا فرض ہے اور فرمایا : چنانچہ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ ایک حبشی غلام ہی تم پر امیر بنادیا جائے اور جس نے مسلمان امیر کی اطاعت نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
(المتقی من فتاوی الشیخ صالح الفوزان ، جمع عادل الفریدان، ط: موسسۃ الرسالۃ(1/390)

*جس امام/حاکم کی اطاعت کا احادیث میں حکم ہے وہ یہی موجودہ حکمران ہیں*

فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریمرحمہ اللہ المتوفی سن 1425ھ
( سابق مساعد استاد المعھد العالي للقضاء، الریاض)

وہ آئمہ یا خلیفہ جن کی اطاعت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے وہ یہی موجودہ ومعروف حکمران ہیں کہ جن کے پاس حکومت واختیارات ہیں لیکن جو معدوم ہو یا اس کو اصلاً ہی کسی چیز پر اختیار یا اقتدار ہہ نہ ہو تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولاۃ امور (حکمرانوں) کی اطاعت والے حکم میں داخل نہیں ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أمر بطاعة الأئمة الموجودين المعلومين، الذين لهم سلطان يقدرون به على سياسة الناس، لا بطاعة معدوم ولا مجهول ولا من ليس له سلطان ولا قدرة على شيء أصلاً‘‘
(منھاج السنۃ النبویۃ: (1/115)
ط۔ رشاد سالم۔)
ترجمہ:
(بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آئمہ کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے جو موجود و معروف ہیں کہ جن کے پاس اقتدار ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں کے سیاسی امور کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ نا کہ معدوم و مجہول کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے، اور نہ ہی ان کی کہ جن کا کسی چیز پر اصلاً ہی کوئی اختیار واقتدار نہیں)

اس کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جو امامت کے مقاصد بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں: لوگوں میں عدل وانصاف قائم کرنا، شعائر اللہ کا اظہار کرنا اوراقامت حدود وغیرہ کہ جن کو کوئی معدوم جو موجود ہی نہ ہو یا مجہول جسے کوئی جانتا ہی نہ ہو ادا نہیں کرسکتا۔ بلکہ یہ باتیں تووہی کرسکتا ہے جو موجود ہواور تمام مسلمانوں خواہ علماء ہوں یا عوام، نوجوان ہوں یا بوڑھے، مرد ہوں یا عورتوں میں معروف ہو۔ ایسا امام وحاکم کہ جسے مقاصد امامت کے نفاذ کی قدرت حاصل ہو۔ جب کسی مظلوم کو اس کا حق لوٹانے کا حکم دے تو لوٹا دیا جائے، جب کسی حد کو نافذ کرنے کا حکم دے تو وہ نافذ کردی جائے، جب وہ رعایا پر کوئی تعزیری حکم جاری کرے تو وہ جاری کردیا جائے اور اس جیسے دیگر مظاہر جو سلطنت، ولایت وحکومت پر دلالت کرتے ہیں۔ تو یہ وہ امام ہے کہ جس کے ہاتھوں اللہ تعالی مسلمانوں کے مصالح جاری کرواتا ہے۔ پس راستے محفوظ ہوجاتے ہیں، مسلمانوں کا کلمہ اس پر جمع ہوجاتا ہے یعنی یکجہتی ہوجاتی ہے، اور اسلامی سلطنت کی بنیادوں کی حفاظت ہوتی ہے،

(مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب و السنۃ)

_________&_________

*اوپر بیان کردہ تمام آیات و احادیث، سلف صالحین اور علماء کرام کے فتاویٰ جات اس بات کی دلیل ہیں کہ تمام مسلمانوں کے لیے اپنے مسلمان حاکم کی اطاعت ہر معروف کام میں واجب اور ضروری ہے، پھر چاہے حکمران فاسق و فاجر ہی کیوں نا ہوں، لیکن اگر یہ حاکم کسی غیر شرعی کام کا حکم دیں تو اس امر میں انکی اطاعت جائز نہیں،اور نا ہی کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ حاکم وقت کو گالی دے یا اسکے بارے فتنہ و فساد پھیلائے اگر حاکم برا ہے تو دعوت سے اسکی اصلاح کرے یا پھر خاموش رہے*

لنک
مسلمان مدرسہ پاس مولوی کی اطاعت کرنے کے بارہ میں کیا اسلامی حکم ہے؟
 
حکمران کی اطاعت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دی ہیں: ایک یہ کہ حکمران اپنی ظاہری شکل و صورت اور اپنے معاشرتی رتبے کے اعتبار سے، خواہ ہمیں کتنا ہی ناپسند ہو، ہمیں بہرحال اس کی اطاعت پر قائم رہنا چاہیے۔ آپ نے فرمایا:

إسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشی کأن رأسہ زبیبۃ.(بخاری،رقم ۶۶۰۹)

''تم (اپنے حکمران کی بات) سنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے جیسا ہو۔''

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

علیک السمع والطاعۃ فی عسرک ویسرک ومنشطک ومکرہک و أثرۃ علیک.(مسلم،رقم ۳۴۱۹)

''تم پر لازم ہے کہ حکمران کے معاملے میں سمع و طاعت پر قائم رہو، خواہ تنگی ہو یا کشادگی، پسند ہو یا نا پسند اور خواہ (عدل کے خلاف) دوسروں کو تم پر ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے۔''

دوسرے یہ کہ حکمران اگر ظلم و عدوان پر اتر آئے اور اپنی رعایا کے حقوق کے معاملے میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرے، تب بھی اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یا أبا ذر کیف أنت و ولاۃ یستأثرون علیک بہذا الفیء؟ قال: والذی بعثک بالحق، أضع سیفی علی عأتقی فأضرب بہ حتی ألحقک قال: أفلا أدلک علی خیر لک من ذلک تصبر حتی تلقانی.(الفتح الربانی ۱/ ۳۷)

''اے ابوذر، تم ایسے حکمرانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے جو اس مالِ غنیمت کی تقسیم میں دوسروں کو تم پر ترجیح دیں (یعنی تمھاری حق تلفی کریں) گے؟ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ کر ان کا مقابلہ کروں گا، یہاں تک کہ آپ سے آن ملوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اس سے بہتر بات کی طرف تمھاری رہنمائی نہ کروں؟ تم ان حالات میں صبر کرنا، یہاں تک کہ اسی حال میں مجھ سے آ ملو۔''

اسی طرح ایک مرتبہ سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا:

یا نبی اللّٰہ أرأیت إن قامت علینا أمراء یسئلونا حقہم و یمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟

''اے اللہ کے نبی، اگر کہیں ایسے لوگ ہمارے حکمران بن جائیں جو اپنے حقوق تو ہم سے لے لیں، مگر ہمارے حقوق روکے رکھیں تو ان کے معاملے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟''

اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إسمعوا وأطیعوا فإنما علیہم ما حملوا و علیکم ما حملتم.(مسلم،رقم ۳۴۳۳)

''ان کے احکام کو سننا اور ان کی اطاعت کرنا، کیونکہ ان کے گناہ کا بار ان پر اور تمھارے گناہ کا بار تم پر ہو گا۔''

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إن السلطان ظل اللّٰہ فی الأرض یأوی إلیہ کل مظلوم من عبادہ فإذا عدل کان لہ الأجر وعلی الرعیۃ الشکر وإذا جار کان علیہ الإصر وعلی الرعیۃ الصبر.(مشکوٰۃ،رقم ۳۷۱۸)

''بے شک، حکمران زمین پر اللہ کا سایہ ہے۔ اللہ کے مظلوم بندے اسی کی پناہ لیتے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ عدل کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کی رعیت پر لازم ہے کہ وہ شکر گزار ہو۔ اور اگر وہ ظلم کرے تو اسی کو اس کا بوجھ اٹھانا ہو گا اور اس کی رعیت پر لازم ہے کہ وہ صبر کرے۔''

یہ واضح رہے کہ قرآن مجید میں اکل اموال بالباطل، حق تلفی، بے انصافی اور ظلم و جور کے خلاف واضح احکام موجود ہیں، مگر حکمرانوں کی طرف سے قرآن مجید کے اس حکم کی خلاف ورزی کے باوجود،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے جائیں اور اس صورت میں بھی ''الجماعۃ'' سے جڑ کر رہا جائے۔

حکمران کی اطاعت کے بارے میں تیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمائی کہ وہ اگر فاجر و فاسق ہوں، تب بھی ''الجماعۃ'' سے جڑے رہنے کا تقاضا ہے کہ ان کی اطاعت سے انکار نہ کیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:

سیلیکم ولاۃ بعدی فیلیکم البر ببرہ والفاجر بفجورہ، فاسمعوا لھم وأطیعوا فی کل ما وافق الحق و صلوا وراء ھم فإن أحسنوا فلکم ولھم وإن أساء وا فلکم وعلیھم.(تفسیرالقرآن العظیم ۱/ ۵۱۷)

''میرے بعد تم پر مختلف قسم کے لوگ حکومت کریں گے۔ نیک لوگ اپنی نیکی کے ساتھ اور نافرمان اپنی نافرمانی کے ساتھ تم پر حکومت کریں گے۔ تم بہرحال ان کی ایسی ہر بات کے معاملے میں سمع و طاعت پر قائم رہنا جو حق کے موافق ہو اور ان کے پیچھے نماز بھی پڑھتے رہنا۔ اگر وہ خوب کار ہوئے تو تمھیں بھی اجر مل جائے گا اور انھیں بھی۔ اور اگر وہ گناہ گار ہوئے تو تمھیں اجر مل جائے گا اور گناہ ان کے حصے میں آئے گا۔''

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنکم سترون بعدی أثرۃ وأمورًا تنکرونھا قالوا: فما تأمرنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: أدوا إلیہم حقہم وسلوا اللّٰہ حقکم.(بخاری،رقم ۶۵۲۹)

''میرے بعد تم یقیناً جانب داری (کرنے والے حکمران) اور ایسے معاملات دیکھو گے جو تمھارے لیے بالکل اجنبی ہوں گے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ایسے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم ان (حکمرانوں) کے حقوق ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق اللہ سے مانگنا۔''

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی بات بیان کرتے ہوئے کہا:

إنما الإمام جنۃ یقاتل من وراۂ و یتقی بہ فإن أمر بتقوی اللّٰہ عزوجل و عدل کان لہ بذلک أجر وإن یأمر بغیرہ کان علیہ منہ.(مسلم،رقم ۳۴۲۸)

''حکمران ایک ایسی ڈھال ہوتا ہے جس کے پیچھے قتال کیا جاتا ہے اور جس کے ذریعے سے فتنوں سے بچا جاتا ہے، اس وجہ سے وہ اگر خدا خوفی کی تلقین کرے اور اپنی رعیت میں عدل کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا۔ اور اگر وہ اس کے برعکس کرے تو اسی پر اس کی ذمہ داری آئے گی۔''

اسی طرح حضرت عاصم بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنہا ستکون من بعدی أمراء یصلون الصلٰوۃ لوقتہا ویؤخرونہا عن وقتہا فصلوہا معہم فإن صلوہا لوقتہا و صلیتموہا معہم فلکم و لہم وإن أخروہا عن وقتہا فصلیتموہا معہم فلکم و علیہم من فارق الجماعۃ مات میتۃ جاہلیۃ.( احمد، رقم ۱۵۱۲۷)

''میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو نماز (کے بارے میں غیر محتاط ہوں گے۔ وہ اس کو) کبھی صحیح وقت پر پڑھیں گے اور کبھی مؤخر کر کے پڑھیں گے۔ تم لوگ بہرحال ان کے ساتھ نماز پڑھنا۔ اگر وہ وقت پر نماز پڑھیں اور تم ان کے ساتھ پڑھو تو تمھیں بھی اس کا اجر مل جائے گا اور انھیں بھی۔ اور اگر وہ اسے مؤخر کرکے پڑھیں اور تم ان کے ساتھ پڑھو تو تمھیں اس کا اجر مل جائے گا اور گناہ ان کے سر آئے گا۔ یاد رکھو، جو ''الجماعۃ'' سے الگ ہوا اور اسی حال میں مر گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔''

یہاں یہ واضح رہے کہ نماز دین کا سب سے اہم اور بنیادی ستون ہے۔ اس کے معاملے میں بے پروائی پورے دین سے بے پروائی کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ نماز کے حوالے سے اوقات کی پابندی کے بارے میں قرآن مجید نے یہ واضح حکم دیا ہے کہ 'اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۔' ۱؂ اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حکمرانوں کی اطاعت پر قائم رہنے اور ان کے پیچھے نماز ادا کرنے کو لازم قرار دیا ہے اور اسے ''الجماعۃ'' کے ساتھ منسلک رہنے کا تقاضا قرار دیا ہے۔

حکمرانوں کی اطاعت کے بارے میں چوتھی بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ مسلمان رعایا کو ہر حال میں ان کا خیر خواہ اور ناصح ہونا چاہیے۔ ۲؂ چنانچہ امام بخاری کی ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:

الدین النصیحۃ للّٰہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم.(کتاب الایمان، رقم باب ۴۰)

''دین خیر خواہی ہے۔ اللہ کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کے عوام کے لیے۔''

اسی خیر خواہی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر معاملے میں آدمی اپنے حکمران کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجاے وہی بات کہے جسے وہ فی الواقع حق سمجھتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر.(ابن ماجہ،رقم ۴۰۰۱)

''انصاف کی بات ایک بڑا جہاد ہے جب وہ ظالم حکمران کے سامنے کہی جائے۔''

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ حکمرانوں کی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ موقع بے موقع ان کے خلاف تنقید کی جاتی رہے۔ حکمرانوں کی خیر خواہی خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے لیے ایسے مواقع، ایسے اسالیب اور ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جن کے ذریعے سے ان لوگوں کے لیے قبول حق کی گھاٹی طے کرنی آسان ہو جائے۔ استاذ گرامی اپنی کتاب ''میزان'' میں لکھتے ہیں:

''دعوت کے مخاطبین میں جو لوگ اپنی قوم کے لیڈر اور پیشوا ہوں، اُن کے بارے میں یہ بات خاص طور پر ملحوظ رہنی چاہیے کہ اِس طرح کے لوگ چونکہ دوسروں کی عزت و تکریم کے خوگر ہوتے ہیں، اِس وجہ سے داعی کے لب و لہجے اور مخاطبت کے اسلوب سے اُن کے پندار نفس پر چوٹ نہ پڑے کہ مبادا یہی چیز اُن کے لیے قبول حق میں رکاوٹ بن جائے۔...

یہاں تک کہ اگر کسی وقت اِن لوگوں کے اخلاق و کردار کی پستی پر تنقید خود دعوت کی ضرورت بن جائے تو اِس کے لیے بھی بالواسطہ اسلوب ہی اختیار کرنا چاہیے۔''( ۵۶۶)

یہی بات حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہشام بن حکیم بن حزام کو سمجھاتے ہوئے بتائی۔ ''مسند احمد بن حنبل'' کی ایک روایت کے مطابق، ایک مرتبہ حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ۳؂ نے کسی شخص کو کوڑوں کی سزا دی۔ اس پر ہشام بن حکیم کو غصہ آ گیا اور انھو ں نے عیاض کو بہت برا بھلا کہا۔ ہشام کی باتیں سن کر عیاض کو بھی طیش آ گیا۔ کچھ دنوں کے بعد ہشام، عیاض کے پاس گئے اور ان سے اپنے کیے کی معذرت کی اور اپنے غصے کی وجہ بتاتے ہوئے عیاض سے کہا:

ألم تسمع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن من أشد الناس عذابًا أشدہم عذابًا فی الدنیا للناس.

''کیا آپ نے نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ (قیامت کے دن) سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہو گا جس نے دنیا میں لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی ہو گی۔''

اس بات کے جواب میں عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:

یا ہشام بن حکیم قد سمعنا ما سمعت و رأینا ما رأیت أولم تسمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول من أراد أن ینصح لسلطان بأمر فلا یبدلہ علانیۃ ولکن لیأخذ بیدہ فیخلو بہ فان قبل منہ فذاک وإلا کان قد أدی الذی علیہ لہ وإنک یا ہشام لأنت الجرئ إذ تجترئ علی سلطان اللّٰہ فھلا خشیت أن یقتلک السلطان فتکون قتیل سلطان اللّٰہ تبارک وتعالٰی.(احمد، رقم ۱۴۷۹۲)

''اے ہشام، میں نے بھی وہ بات سن رکھی ہے جو تم نے سنی اور میری بھی وہی راے ہے جو تمھاری ہے، مگر کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ جو شخص کسی معاملے میں کسی صاحب اقتدار کو نصیحت کرنا چاہے، وہ سب کے سامنے ایسا کرنے کے بجاے اس کا ہاتھ پکڑ کر، اسے کسی گوشے میں لے جائے اور اکیلے میں ایسا کرے۔ اگر وہ اس کی بات مان لے گا تو اس کا مقصد پورا ہوا اور اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم اس کی ذمہ داری تو بہرحال ادا ہو گئی، مگر اے ہشام، تم تو بہت جری ہو۔ تم نے خدا کے ٹھہرائے ہوئے حکمران پر جرأت دکھائی اور یہ بھی نہ سوچا کہ وہ حکمران کہیں تمھیں قتل نہ کر دے اور تم خداے بزرگ کے (ٹھہرائے ہوئے) حکمران کے قتیل قرار پاؤ۔''

اسی روایت سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے میں عام حالات میں وہ کون سے حدود ہیں، جن کا خیال رکھنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ 'فإن قبل منہ فذاک وإلا کان قد أدی الذی علیہ لہ ۴؂ ' میں یہ حد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہو گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارا کام حکمرانوں کو سیدھی راہ پر لگا دینا نہیں، بلکہ پور ی دل سوزی اور درد مندی کے ساتھ انھیں وہ بات پہنچا دینا ہے جسے ہم حق سمجھتے ہیں۔ وہ اگر اسے صحیح سمجھتے ہوئے قبول کر لیں، تب بھی اور اگر اسے رد کر دیں، تب بھی اس سے آگے بڑھ کر کسی قسم کا کوئی اقدام کرنا، عام حالات میں، ہمارے لیے صحیح نہیں ہے۔ڈاکٹر محمد قلعہ جی اس معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی راے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''رعایا پر امیر کی خیر خواہی واجب ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ میں اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت گر کی ملامت سے خوف نہیں کھاتا، خواہ صاحب اختیار ہو یا معاملہ میرا اپنا ہو۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی معاملے کا ولی بنایا گیا ہو، اسے اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے، لیکن جس پر کوئی ذمہ داری نہ ہو، اسے چاہیے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دے اور ولئ امر (امیر) کی خیرخواہی کرے۔''(فقہ حضرت عمر، ترجمہ: ساجد الرحمن صدیقی، ۱۱۸)

حکمرانوں کے حوالے سے پانچویں بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ وہ اگر کوئی ایسا حکم دیں جس کی تعمیل سے پروردگار عالم کی معصیت اور نافرمانی لازم آتی ہو تو اس معاملے میں ان کی اطاعت نہ کی جائے:

علی المرء المسلم السمع والطاعۃ فیما أحب وکرہ إلا أن یؤمر بمعصیۃ فإن أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ.(مسلم،رقم ۳۴۲۳)

''مسلمان پر (حکمران کی) سمع و طاعت لازم ہے، خواہ وہ پسند کرے یا نا پسند، الاّ یہ کہ اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے، پھر اگر ایسا کوئی حکم اسے دیا جائے تو اس معاملے میں اس پر سمع و طاعت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔''

یہی بات ایک اور روایت میں ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

لا طاعۃ فی معصیۃ اللّٰہ تبارک و تعالٰی.(الفتح الربانی ۲۳/ ۲۷)

''اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں۔''

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إلا أنہ سیکون بعدی أمراء یکذبون و یظلمون فمن صدقہم بکذبہم ومالأہم علی ظلمہم فلیس منی ولا أنا منہ ومن لم یصدقہم بکذبہم ولم یمالۂم علی ظلمہم فہو منی وأنا منہ.(الفتح الربانی ۲۳/ ۲۷)

''لوگو، اچھی طرح سے سن لو، میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو جھوٹ بولیں گے اور ظلم کریں گے۔ تو جس نے ان کے جھوٹ میں ان کا ساتھ دیا اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کی، اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جس نے نہ ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق کی اور نہ ان کے ظلم میں ان کی مدد کی، وہ میرا ہے اور میں اس کا۔''

بالکل یہی بات حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی نقل ہوئی ہے۔ ۵؂

اسی طرح عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ اپنی ایک گفتگو کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

إنتہیت إلی عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص (رضی اللّٰہ عنہما) وہو جالس فی ظل الکعبۃ فسمعتہ یقول بینا نحن مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی سفر (فذکر حدیثًا طویلًا) وفیہ، من بایع إمامًا فأعطاہ صفقۃ یدہ و ثمرۃ قلبہ فیطعہ ما استطاع فإن جاء آخر ینازعہ فاضربوا عنق الاخر قال فأدخلت رأسی من بین الناس فقلت أتشدک باللّٰہ أنت سمعت ہذا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ قال فأشار بیدہ إلی أذنیہ فقال: سمعتہ أذنای ودعاہ قلبی قال فقلت ہذا ابن عمک معاویۃ یعنی یأمرنا بأکل أموالنا بیننا بالباطل وأن نقتل أنفسنا وقد قال اللّّٰہ تعالٰی: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ قال فجمع یدیہ فوضعہما علی جبہتہ ثم نکس ہنیءۃ ثم رفع رأسہ فقال أطعہ فی طاعۃ اللّٰہ واعصہ فی معصیۃ اللّٰہ عزوجل. (الفتح الربانی ۲۳/ ۵۵)

''میں عبداللہ بن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہما) کے پاس پہنچا۔ وہ کعبہ کے سایے میں بیٹھے تھے۔ میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے سنا۔ اس میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو شخص کسی حکمران کی بیعت کرے، اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے اور سچے دل سے اس کے ساتھ وفاداری کا عہد کرے تو پھر اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت پر قائم رہے۔ اس کے بعد اگر کوئی دوسرا شخص اس سے یہ عہدہ چھیننے کی کوشش کرے تو اس دوسرے شخص کی گردن مار دو۔ عبدالرحمن کہتے ہیں: یہ سن کر میں نے اپنا سر لوگوں کے اندر سے آگے کر کے کہا: آپ کو خدا کی قسم ہے، (سچ سچ بتایئے) کیا آپ نے فی الواقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی؟ انھوں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرکے کہا: میرے ان کانوں نے یہ بات سنی اور میرے دل نے اسے سنبھال کے رکھا۔ میں نے کہا: یہ جو آپ کے چچا زاد، معاویہ ہمیں باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے اور اپنے ہی لوگوں کا خون کرنے کا حکم دے رہے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''ایمان والو، آپس میں باطل طریقے سے مال مت کھاؤ'' (تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں)؟ یہ سن کر انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لیے اور کچھ دیر کے لیے سر جھکا لیا، پھر سراٹھا کر بولے: اللہ عزوجل کی اطاعت کے حکم میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی معصیت کے حکم میں ان کی بات رد کر دو۔''

اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکمران جب پروردگار عالم کی معصیت پر اتر آئیں تو مسلمانوں کے لیے دین کا حکم یہ ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں نہ ان کی معاونت کریں اور نہ اطاعت۔ اس سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی رو سے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی۔

حکمرانوں کی اطاعت کے حوالے سے چھٹی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمائی ہے کہ ان کی اطاعت اس وقت تک لازم ہے، جب تک وہ ''کفر بواح'' کے مجرم نہ ہوں۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

دعانا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعناہ فقال فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا و عسرنا ویسرنا واثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفرًا بواحًا عندکم من اللّٰہ فیہ برہان.(بخاری،رقم ۶۵۳۲)

''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم سے جن باتوں پر بیعت لی، ان میں یہ بھی تھا کہ حالات نرم ہوں یا جابرانہ، تنگی ہو یا فراخی اور دوسروں کو ہم پر ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے، ہم ہر حال میں (اپنے حکمران کی) سمع و طاعت پر قائم رہیں گے اور ان سے اقتدار چھیننے کی کوشش نہ کریں گے، الاّ یہ کہ تم ان کی طرف سے ایسا ''کفر بواح'' دیکھو جس کے خلاف تمھارے پاس اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔''

''کفر بواح'' کے معنی علانیہ یا صریح کفر کے ہیں۔ چنانچہ ابن اثیر رحمہ اللہ ''بواح'' کے معنی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

أی جھارًا، من باح بالشئ یبوح بہ إذا أعلنہ. (النہایہ فی غریب الأثر۱/ ۱۶۱)

''یعنی بلند بانگ، یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص علانیہ کوئی بات کرے۔''

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ''کفربواح'' کی یہی وضاحت فرمائی ہے، یعنی یہ ایسا کفر ہے جس کے خلاف اللہ تعالیٰ کی واضح اور قطعی حجت موجود ہو۔ یہ کوئی ایسا معاملہ ہی ہو سکتا ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجایش، غلط فہمی کا کوئی امکان، لا علمی کا کوئی اندیشہ یا اس پر عمل کرنے میں مجبوری کی کوئی صورت مانع نہ ہو۔ عالم و عامی اس کے کفر ہونے کو یکساں طور پر جانتے ہوں۔ امت کے اندر اس معاملے میں کوئی اختلاف نہ ہو اور لوگ اس کے بارے میں پوری طرح حساس ہوں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان حکمران کی اطاعت ایک دینی حکم ہے، جبکہ غیر مسلم حکمران کی اطاعت کوئی دینی حکم نہیں ہے، تاہم یہاں یہ بات واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کے معنی یہ نہیں ہیں کہ غیر مسلم حکمران کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لینا دین کا کوئی حکم ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی دوسری روایتوں سے اس بات کی مزید تصریح ہوتی ہے کہ حکمران جب تک مسلمان رہیں، اس وقت تک ان کی اطاعت لازم ہے۔ آپ نے اپنے بعد قریش کو حکومتی ذمہ داریاں سونپنے کی ہدایت کی تو فرمایا:

إن ہذا الأمر فی قریش لا یعادیہم أحد إلا کبہ اللّٰہ فی النار علی وجہہ ما أقاموا الدین.(بخاری،رقم ۶۶۰۶)

''یہ معاملہ میرے بعد، اس وقت تک قریش ہی میں رہے گا، جب تک وہ اپنے دین پر قائم رہیں۔ جو (اس معاملے میں) ان کی مخالفت کرے گا، اللہ اسے اوندھے منہ جہنم میں پھینک دے گا۔''

قرآن مجید میں کسی شخص کے مسلمانوں میں شمار ہونے یا دین پر قائم رہنے اور مسلمانوں کے تمام حقوق پانے کے لیے تین لازمی شرائط بیان ہوئے ہیں۔۶؂ ارشاد ہے:

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ.(التوبہ ۹: ۱۱)

''پھر اگر وہ توبہ کر لیں، اورنماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھرو ہ دین میں تمھارے بھائی ہیں۔''

استاذ گرامی اپنی کتاب''میزان'' کے باب ''قانون سیاست'' میں لکھتے ہیں:

''... جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کر دیں ، اِس سے قطع نظر کہ اللہ کے نزدیک اُن کی حیثیت کیا ہے، قانون و سیاست کے لحاظ سے وہ مسلمان قرار پائیں گے اور وہ تمام حقوق اُنھیں حاصل ہو جائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے، اُن کی ریاست میں اُن کو حاصل ہونے چاہییں۔

... قرآن نے اِس مدعا کے لیے 'فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ' کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی وہ دین میں تمھارے بھائی بن جائیں گے ۔ 'الدین' کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہاں اسلام مراد ہے اور 'فاخوانکم' کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو خطاب کر کے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اِن تین شرطوں کے پورا ہو جانے کے بعد ریاست کے نظام میں تمھاری اور اِن نئے ایمان لانے والوں کی حیثیت بالکل برابر ہو گی۔ تمھارے اور اِن کے قانونی حقوق میں کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔'' (۴۹۱۔۴۹۲)

ہمارے نزدیک، ایک مسلمان کی طرف سے کفر بواح اصلاً انھی تین شرائط کو مان لینے کے بعد ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کر دینا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص جب اپنے قول سے دین کی اساسات میں سے کسی کا انکار کر دے، نماز کے اہتمام یا بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دے تو اس کا نام مسلمانوں کے دفتر سے خارج کر دیا جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے بھی ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خیار أئمتکم من تحبونہم و یحبونکم و تصلون علیہم ویصلون علیکم وشرار أئمتکم الذین تبغضونہم ویبغضونکم وتلعنونہم ویلعنونکم قلنا: یا رسول اللّٰہ أفلا ننابذہم عند ذلک قال لا ما أقاموا لکم الصلٰوۃ إلا ومن ولی علیہ أمیر وال فرآہ یاتی شیءًا من معصیۃ اللّٰہ فلینکر ما یاتی من معصیۃ اللّٰہ ولا ینزعن یدًا من طاعۃ. (احمد، رقم ۲۲۸۵۶)

''تمھارے بہترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرو گے اور وہ تم سے محبت کریں گے، اور تم ان کے لیے اور وہ تمھارے لیے دعائیں کریں گے۔ اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہوں گے جنھیں تم ناپسند کرو گے اور جو تمھیں ناپسند کریں گے، جن پر تم لعنت بھیجو گے اور وہ تم پر لعنت بھیجیں گے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ایسے موقع پر کیا ہمیں ان سے الگ نہیں ہو جانا چاہیے؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے اندر نماز کا اہتمام رکھیں اس وقت تک ایسا مت کرنا۔ یاد رکھو، جب کسی پر کوئی امیرمقرر کیا جائے اور وہ یہ دیکھے کہ یہ امیر کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے خدا کی نافرمانی لازم آتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ معصیت والے اس کام کو برا جانے، مگر اس حکمران کی اطاعت سے ہرگز پیچھے نہ ہٹے۔''

_______

۱؂ النساء ۴: ۱۰۳۔ ''بے شک نماز وقت کی پابندی کے ساتھ مومنوں پر فرض ہے۔''

۲؂ استاذ گرامی اپنے رسالے ''دین حق'' میں لکھتے ہیں:

''...دین کو اختیار کر لینے کے بعد آدمی کی سیرت یہ ہونی چاہیے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں وہ سراپا خیر خواہی بن کر رہے۔ اپنا بھلا سوچے، دین و دنیا کے اعتبار سے وہ جن لوگوں سے متعلق ہوتا ہے ،اُن کی بھلائی کے لیے سرگرم عمل رہے،

کسی کے لیے اُس کے دل میں کوئی کدورت نہ ہو، کسی کو اُس سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سورۂ توبہ کی آیت 'اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ' (۹: ۹۱، ''جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں'') میں یہی چیز بیان ہوئی ہے۔ نبیوں کی سیرت میں 'اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ' (الاعراف ۷: ۶۸،'' میں تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں، جس پر تم بھروسا کر سکتے ہو'') اسی رویے کی تعبیر ہے۔'' (۱۳)

۳؂ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جنھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد شام کا والی مقرر کیا۔

۴؂ ''وہ اگر اس کی بات مان لے گا، تو اس کا مقصد پورا ہوا اور اگر ایسا نہ ہو تو کم ازکم اس کی ذمہ داری تو بہرحال ادا ہو گئی۔''

۵؂ الفتح الربانی ۲۳/ ۲۷۔

۶؂ فتح مکہ کے بعد ،جس موقع پر مشرکین بنی اسماعیل کے خلاف دار و گیر کا حکم آیا، اس وقت سورۂ توبہ کی اس آیت میں یہ واضح کر دیا گیا کہ ایک آدمی کے مسلمانوں یا غیر مسلموں میں سے شمار کیے جانے کے لیے امتیاز کی بنیاد کیا ہو گی

ربط
 
إسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشی کأن رأسہ زبیبۃ.(بخاری،رقم ۶۶۰۹)

''تم (اپنے حکمران کی بات) سنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے جیسا ہو۔''
 
آخری تدوین:
Top