موت وفات ہے فوت؟

حسینی

محفلین
قرآن کریم میں موت کے لیے "توفی " کہا ہے جو وفات سے ہے، فوت سےنہیں۔ کیافرق ہے وفات اور فوت میں؟

فوت یعنی کسی چیز کا ہاتھ سے چلے جانا "فلاں چیز مجھ سے فوت ہوگئی" یعنی چلی گئی۔ عربی میں کہا جاتا ہےفاتت منی محاضرۃ : یعنی وہ درس مجھ سے رہ گیا۔

پس اگر ہم موت کو "فوت" کہیں گے تو اس وجہ سے ہوگا کہ وہ مردہ شخص ہمارے ہاں سے چلا گیا، ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔

وفات فوت کے بالکل برعکس معنی دیتاہے۔ جس کا معنی کسی چیز کوپورے کا پورا تحویل میں لینا، قبضے میں لینا۔ قرآن نے اسی لفظ سے "توفی" کو موت کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی سے لفظ "استیفاء" بھی ہے۔

پس نتیجہ یہ کہ فوت یعنی کسی چیز کا ہاتھ سے چلے جانا جبکہ وفات یعنی کسی چیز کا ہاتھ میں آجانا

قرآن کریم نے موت کو وفات کہا ہے [توفی سے]

اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَاوَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى


یعنی خداوند موت کے وقت نفوس کو اپنے قبضے میں لیتا ہے۔ اور وہ جو مردے نہیں ہیں ان کے نفوس کو بھی نیند کے وقت اپنے قبضے میں لیتا ہے۔پھر جس کے لیے موت حتمی ہو اس کی روح کو اپنے پاس[پکڑکر] رکھتا ہے اور دوسری ارواح کو اک معین مدت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

خلاصہ: موت ہماری نسبت فوت ہے ، چونکہ ہم اپنے اس عزیز کو اپنے ہاتھوں سے کھوں رہے ہیں۔

جبکہ اس مردہ شخص کی نسبت موت وفات یا توفی ہے، کہ اس کی روح کو کامل تحویل میں لی جاتی ہے اور اک دوسرے عالم میں منتقل کی جاتی ہے۔

قرآن نے اک اور جگہ پر کہا ہے:

قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ

یعنی کہہ دیجیے کہ موت کا فرشتہ جو تم پر موکل ہے تمہیں اپنے قبضہ میں لیتاہے، اور پھر تم اپنے پروردگا کی طرف لوٹائے جاو گے۔

[استفادہ از تفسیر سورہ انفال آیت ۵۰ ، شہید مرتضی مطہری، مجموعہ آثار جلد ۲۶]
 
Top