منڈی اور مجاز، محمد حسن معراج

تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ریل پنجاب کے آخری شہر کو ملنے آتی ہے۔ دربار صاحب سے اگلا اسٹیشن شکر گڑھ کا ہے۔ انگریز راج میں یہ علاقہ گورداسپور کا حصہ تھا۔ پاکستان بنا تو اسے سیالکوٹ کی تحویل میں دے دیا گیا اور نارووال ڈسٹرکٹ بنا تو شکر گڑھ اس کے حوالے ہو گیا۔
شہر کے ایک طرف بئیں نالہ بہتا ہے۔ ریت کی تہہ پہ پانی کی یہ لکیر سرحد سے شروع ہوتی ہے اور کچھ دیر ریڈکلف کی لکیر کا ساتھ دینے کے بعد راوی کی گود میں اتر جاتی ہے۔
بئیں کے اس پار مسرور بڑا بھائی کا قصبہ ہے۔ یہاں حضرت خواجہ عبدالسلام چشتی کا مزار ہے، جنہیں عقیدت اور محبت سے بڑا بھائی کہا جاتا ہے اور انہی کی مناسبت سے اس علاقے کا نام مسرور بڑا بھائی ہے۔
حضرت چشتی نے اس علاقے کو لوگوں کو ایمان کی دولت سے تو خیر سیراب کیا ہی مگر معجزے کے طور پہ بہت سے چشمے جاری کئے اور زمیں بھی سیراب کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان چشموں پہ ٹیوب ویل لگ گئے ہیں جو ان مانے جی کے ساتھ زمین سے پانی کھینچتے ہیں ۔
شکر گڑھ ایک مصروف تجارتی منڈی ہے۔ سرحدی علاقہ ہونے کے سبب جب جنگ چھڑتی ہے اور باقی ملک میں لوگ گھروں کا رخ کرتے ہیں، یہاں کے لوگ گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
کچھ سو سال پہلے یہاں ایک وکیل پشوری مل ہوا کرتے تھے جن کی پریکٹس خوب چلتی تھی۔ وکیل صاحب کے ہاں تیسرا بیٹا ہوا تو انہوں نے اس کا نام دھرم دیو پشوری مل آنند رکھا۔ ڈلہوزی کے سکول سے ہوتا ہوا جب یہ لڑکا گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا تو اس نے اپنا نام تھوڑا مختصر کر لیا۔ بمبئی میں فوج کی نوکری شروع کی تو نام اور سکڑ گیا ۔ بعد میں جب وکیل صاحب کا یہ لڑکا بہت مشہور ہو گیا تو اس کا نام اور بھی مختصر ہو گیا۔
لکیر کے دونوں طرف چونکہ زندگی کی پٹی اور فلم کا فیتہ ایک دوسرے کے آسرے پہ چلتے ہیں، سو لوگ ساری عمر دھرم دیو پشوری مل آنند کو دیو آنند ہی پکارتے رہے ۔
پٹڑی کے دوسری طرف لوہٹیاں کا قصبہ ہے۔ یہاں جاوید اقبال اس گھر میں رہتا ہے جو اس کے ابا کو پاکستان آنے پہ ملا تھا۔ لکڑی کے تختوں والے دروازے پہ ابھی بھی زنجیر موجود ہے، تختوں میں البتہ درزیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دروازے کے اوپر دیوار میں کچھ لکھا ہے جو اب ٹھیک سے پڑھا نہیں جا سکتا۔
آنگن میں سلاخوں والی کھڑکیاں ہیں اور ہلکے نیلے رنگ کی دیواروں میں طاقچے اور محراب دار الماریاں بنی ہیں۔ ان الماریوں میں عموما وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جن کے گم ہونے کا ڈر بھی ہو مگر وہ اتنی قیمتی بھی نہ ہوں کہ انہیں سنبھالا جائے۔
اندر شہتیروں کی چھت ہے اور بہت سے طاقچوں میں بہت سے برتن سجے ہیں۔ طاقچوں، برتنوں اور چارپایؤں کے بیچ ٹیلی ویژن رکھا ہے۔ جہاں نصرت فتح علی خان کا گیت گونجتا ہے؛
’’مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وچ برہوں دی رڑک پوے‘‘
مگر جاوید نہیں جانتا کہ اس گیت کا خالق شیو کمار بٹالوی اسی کمرے میں پیدا ہوا تھا اور انہی تختوں پہ زنجیر بجا کر اس کے دوست اس کو گھر سے بلایا کرتے تھے۔
شیو کمار کے والد براہمن بھی تھے اور تحصیلدار بھی۔ وہ گیارہ سال کا تھا جب ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے سے آزاد ہو گئے اور یہ لوگ بٹالہ آگئے۔ اس عمر میں جب بچے شیرینی ڈھونڈھتے ہیں، یہ آزاد منش، سپیروں اور جوگیوں کو تلاش کرتا۔ سکول کا میلہ اسے پسند نہیں تھا سو اس کا زیادہ وقت مندر کے پاس یا دریا کے کنارے گزرتا۔
شائد اسی لئے شیو کمار کسی تعلیمی ادارے سے باقاعدہ فارغ التحصیل نہیں ہو سکا۔ شاعر کی کہانی بہت عام سی ہے۔ محبت میں ناکامی نے اس کے اندر کے آوارہ گرد کو آزاد کیا تو اس کا درد شعروں کے زریعے دنیا بھر کے پنجابیوں کی جاگیر بن گیا۔ شیو کمار اپنے غم کی بھٹی کو وجود کا ایندھن دے کر کندن جیسے شعر کہتا کہتا سینتیس سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔
نظم کی دنیا کے بہت سے لوگ جوانمرگی کے سبب شیو کمار بٹالوی کو پنجابی کا مجاز کہتے ہیں۔ ہندوستان کا سب سے کم عمر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ یہ شا عر، وجدان کی رمز میں اپنی جوان مرگی کا تذکرہ بہت پہلے کر چکا تھا۔
اسان تے جوبن رتے مرناں ٹر جانا ں اسیں بھرے بھرائے ہجر ترے دی کر پرکرما اساں تے جوبن رتے مرنا (مینوں وداع کرو -- شیو کمار بٹالوی)
چک امرو پاکستان کا آخری ریلوے اسٹیشن ہے۔ ٹکٹ گھر کی کھڑکی اینٹوں سے چن دی گئی ہے گویا سرکار نے مفاہمت کے تمام راستے مسدود کر دئے ہیں۔ کرائے نامے کے مدھم حروف البتہ پڑھے جا سکتے ہیں۔
کوئی ٹرین ہو گی جو بستیاں افغاناں سے سواریاں لے کر جسڑ اور شاہدرہ اتارتی ہو گی مگر یہ بات بھی بہت پرانی لگتی ہے۔ ٹکٹ گھر کی کھڑکی پہ لکھا ہے، ’’واپسی پہ ریزگاری کی پڑتال کریں۔‘‘ لکھنے والے کو کیا خبر تھی کہ ایک وقت آئے گا جب روپے ریزگاری میں شامل ہو ں گے اور سکوں کا وجود بھی نہیں رہے گا۔
اسٹیشن کے درودیوار پہ گزرا ہوا وقت کائی کی سیاہی سے دستخط کر گیا ہے۔ پٹڑیوں کے درمیان اگی ہوئی گھاس بتا رہی ہے کہ سوائے گدڑیوں کے اس لکیر کو کوئی پار نہیں کرتا۔ واپسی کے راستے ٹرین جسڑ سے ہوتی ہوئی نارووال پہنچتی ہے۔
نارووال کے دوسری طرف بدوملہی کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ شہر کی تاریخ بھی ضرورت کی تاریخ ہے۔ چاول کے آڑھتیوں کے لئے منڈی کے طور بسایا جانے والا یہ شہر 1894 میں ریل کی ڈوری سے بندھ گیا اور ایک ایک سرا، لاہور اور پٹھان کوٹ کے ہاتھ آ گیا۔
آزادی کے بعد پٹھان کوٹ کی پٹڑی ختم کر دی گئی۔ لگ بھگ سوا صدی پرانا یہ اسٹیشن اب بھی کافی آباد ہے۔ راوی کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں یوں تو بہت طرح کا چاول ہوتا ہے مگر جس کی باس سے مت ماری جائے، وہی باسمتی کہلاتا ہے۔
1947 میں یہاں ایک گرودوارہ، ایک مندر اور ایک درگاہ تھی۔ درگاہ کے متولی کاظمی صاحب، مشہد کے سید ہونے کے ساتھ ساتھ دل کے بھی سید تھے۔
جب اردگرد فسادات کی آگ بھڑکی تو درگاہ سے ایک عجیب فتویٰ جاری ہوا۔ فتویٰ کے مطابق کسی بے گناہ اور نہتے ہندو کو قتل کرنے والا مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ اسلام سے خارج کرنے کے اختیار نے لوگوں کی جانیں بچائیں۔
بدوملہی کے لوگ آخری وقت تک ایک دوسرے کی حفاظت کرتے رہے۔ جب حالات زیادہ بگڑ گئے تو مسلمانوں نے ایک جتھہ بنایا اور تمام ہندوؤں اور سکھوں کو خود اپنی حفاظت میں بیڑیوں پہ راوی پار کروا دیا۔
بدوملہی کی منڈی سے ریل نارنگ منڈی کا رخ کرتی ہے۔ منڈی میں یوں تو زندگی کے سب رنگ نظر آتے ہیں مگر معلوم نہیں اسے نارنگ کیوں کہا جاتا ہے۔ اگلے اسٹیشن سے شاہدرہ کے رنگ دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں مگر دوسرے راستے پہ گوجرانوالہ، کامونکی اور مریدکے جیسے مقام ہیں جن کے بغیر ریل کی کہانی نامکمل ہے۔
رنگی کو نارنگی کہے، کہے دودھ کو کھویا چلتی کو گاڑی کہے، دیکھ کبیرا رویا -- سنت کبیر
ربط
http://www.dawnnews.tv/news/35749
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب ہم بھی محمد حسن معراج کے شیدائی ہیں۔ محفل کے ایک رُکن ہو ا کرتے تھے ’محسن وقار علی‘ ۔ ان کی وساطت سے ہمیں محمد حسن معراج کے مضامین پڑھنے کو ملا کرتے تھے ،لیکن جب سے وہ (دیگر متعدد ارکان کی طرح) محفل کو داغ مفارقت دے گئے ہیں، ہم ایسے مضامین سے محروم ہو گئے ہیں۔ آج آپ کی عنایت سے یہ مضمون پڑھ کر پھر وہی لُطف آیا ہے۔
جزاک اللہ، محترم شاہ صاحب۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ شاہ جی۔ جزاک اللہ۔ بہت ہی پرلطف مضمون ہے۔ اور جب تک آخری لفظ بھی نگل نہیں لیا۔ نظریں نہیں ہٹا سکا۔ کیسے سب کچھ گزر گیا ہے۔ بس چند سطور میں زندہ اس مضمون میں کتنا کچھ چھپا ہے۔
 
Top