منزل پر پہنچ گئے، مگر مقصود پیچھے بُھلاآئے

منزل پر پہنچ گئے، مگر مقصود پیچھے بُھلاآئے

لبِ صحرا بہ چشمِ تر کھڑا ہوں
سراپا بے صدا بے گھر کھڑا ہوں

یہ کوئی ۱۹۷۳ء کی بات ہے، لطیفہ نہیں حقیقت ہے، پاکستان میں یعنی نئے پاکستان میں، پیپلزپارٹی کے جناب ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ حج بیت اللہ کے لئے اکثر لوگ ہوائی جہاز کی بجائے سفینہٴ عرب اور سفینہٴ حُجاج بحری جہازوں سے جایا کرتے تھے، اس لئے کہ بحری جہاز کا کرایہ کم تھا، پہلے یہ کرایہ ۱۴۰۰ روپے فی کَس ہوا کرتا تھا، جسے حکومت نے اب ۳۷۰۰ روپے فی کس کردیا تھا، اس میں زرمبادلہ بھی شامل تھا، مگر اس زمانے میں اتنا کرایہ بھی بہت زیادہ تھا، تاہم ہوائی جہاز کا کرایہ تو اس سے بھی دوگنا تھا، بہت سے لوگ ان حجازی قافلوں میں شامل ہوگئے، پنجاب سے بھی لوگ ہزاروں کی تعداد میں بذریعہٴ ریل کراچی اور وہاں سے عازمِ حرم ہوئے۔

روہڑی (سندھ) ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی کم وبیش نصف گھنٹہ رکتی ہے، مسافر لوگ وہاں اتر کر کھانا پینا کرتے ہیں، نماز کا وقت ہو تو نماز بھی ادا کرتے ہیں۔ پنجاب سے ایک حاجی صاحب ”محمد اسلام“ بھی مبارک سفر پر جارہے تھے، وہ بھی کسی تقاضے سے اترے، گاڑی کی روانگی کا وقت ہوگیا، مگر ”حاجی محمد اسلام“ واپس اپنی سیٹ پر نہیں پہنچے، گاڑی نے سیٹی بجائی ، پھر آہستہ آہستہ سرکنے لگی۔” محمد اسلام“ کے ہمراہیوں کو فکر ہوئی، انہوں نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر زور سے پکارا ”اسلام!“ ریل گاڑی حاجیو ں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، لوگوں نے کھڑکیوں سے سرباہر نکال کر اور بعض نے اندر ہی سے جواب دیا ”زندہ باد“۔محمد اسلام کے ساتھی بہت پریشان ہوئے، انہوں نے پھر زور سے اپنے ساتھی کو پکارا ”اسلام!“ دوسری طرف سے پہلے سے بھی اونچی گونج سنائی دی ”زندہ باد“۔سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ ساری گاڑی حاجیوں سے بھری ہوئی ہے، لہذا لوگ خوشی سے ”اسلام“ کے نعرے لگارہے ہیں اور اس کا جواب بھی دینی جذبات کے ساتھ خوب چلاّکر”زندہ باد“ کہہ کر دینا ضروری ہے۔پھر یہ ہوا کہ ”اسلام“ تو روہڑی میں رہ گیا، اس کی ٹرین بھی ِمس ہوگئی اور سفینہٴ عرب بھی اس سے چھوٹ گیا، جس میں اس کی سیٹ بُک تھی، ”اسلام“ روہڑی میں رہ گیا اور” زندہ باد“ کراچی ہوتا ہوا حجازِ مقدّس پہنچ گیا ۔

۱۹۴۷ء میں بھی ہمارے بڑوں کی خواہش پر ایک مبارک سفر شروع ہوا تھا، نعرے بھی خوب لگے تھے کہ”بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان“،”پاکستان کا معنی کیا لا الہ الا اللہ“ طویل وعریض ہندوستان سے ہم عازمِ پاکستان ہوئے تھے۔لا الہ الا اللہ، شریعتِ محمدی، قرآنی آئین اور نظامِ مصطفی کی بہاریں ہمارا عزم تھا۔ تحریک آزادی کی گاڑی چل پڑی، وسط اگست ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی مقصودی منزل بھی آگئی، لیکن آج ۶۴ سال گزر چکے، کیا ہم غلطی سے یا کسی سازشی دشمنِ اسلام کی سازش سے ”حاجی محمد اسلام“ کو روہڑی میں تو نہیں چھوڑ آئے؟! توحید وسنت ، شرعِ محمدی اور نظامِ مصطفی کے غلغلے ہم بھول تو نہیں گئے؟۔ بزرگوں کی دعائیں لے کر ہمارے باہمت نوجوانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جس ”محمد اسلام“ کو ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اسے باز یافت کریں، وطن عزیز میں نظامِ مصطفی کے غلغلے بلند کریں، روشنیاں لائیں، بے دینی کی تاریکیوں سے جان چھڑائیں۔

کبھی اے نوجوانِ مسلم! تدبر بھی کیا تونے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تار
 
Top