منتشر خیالیاں

رباب واسطی

محفلین
حیرت انگیزطورپر چیف جسٹس آبادی کنٹرول کروانا چاہتا ہے اورحکومت عوام کو "دیسی مرغ "کھلانےکاسوچ رہی ہے
کیسے ہوگی آبادی کنٹرول؟
آج ایک مرغےکو بہت غصےکی حالت میں دیکھا،کلغی تنی ہوئی تھی،غصے سےکہہ رہا تھاہماری عورتوں پرکسی نے معیشت کا بوجھ ڈالا تو حکومت کے لئے ٹھیک نہیں ہو گا
پچھلی سے پچھلی پی پی حکومت نے غریب عوام کے لئے بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام شروع کیا،یہ اچھا پروگرام تھا جس سے غریب کی مدد ہورہی تھی لیکن غریب دیہاتی کا ہاتھ اس اسکیم کے باوجود ہمیشہ مانگنے والا رہے گا
موجودہ حکومت کی انڈہ اور مرغی پالیسی سے غریب دیہاتی کی مددتو ہورہی ہے لیکن وہی مانگنے والا ہاتھ کمانے والے ہاتھ میں بدل بھی سکتا ہے کمانے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے افضل ہے
ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہےکہ اگرکوئی اچھا کام کرنےکی کوشش کرتاہےتو سب ملکر اس کا مذاق اڑاتے ہیں، جیسے ڈیم فنڈ شروع کیاگیا توکہاجانے لگا کہ بھیک سے ڈیم کیسے بنے گا؟؟
بنیادی طور پر مادہ پرستی اورمصنوعی رشتوں واسطوں میں جکڑی قوم کا مذاق کرنا کوئی نئی بات نہیں
مجموعی طور پر ہم لوگ شارٹ کٹ والے ہوگئے ہیں، چاہتے ہیں پیسہ بھی آئے اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔۔ بے صبری اور بے ضمیر قوم جب بند دماغ سے سوچتی ہے تو پھر اسے اپنے سامنے کچھ نظر نہیں آتا ، جس کے بعد وہ ہر چیز کا مذاق اڑانا شروع کردیتی ہے
وزیراعظم نے مرغی اور انڈوں کا اپنی تقریر میں جیسے ہی ذکر کیا ، قوم کے دانش ”وروں“ نے سوشل میڈیا پر اپنی جگتوں کے ہتھیار کے تیز کرنا شروع کردیئے۔۔طرح طرح کے اسٹیٹس ڈالے جانے لگے۔۔ ایک صاحب نے تو شاعری کی آڑ میں مرغی اور انڈوں کا قصیدہ پڑھ ڈالا

ہم لائے ہیں پنجرے سے مرغی نکال کر
انکے انڈوں کو رکھنا میرے بچو ںسنبھال کر
کھلتا کسی پہ کیوں میری نا اہلی کا معاملہ
انڈوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
ایک انڈا جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار قرضوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مرغی کے ہاتھوں میں ہے اب قوم کی تقدیر
ہر انڈہ ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دیار معیشیت میں اپنا مقام پیدا کر
نئی مرغیاں نئے انڈے صبح و شام پیدا کر
ایک ہوں مرغیاں انڈوں کی پاسبانی کیلئے
بھائی خلیل کے دڑبے سے لیکر تایا اخلاق کا شجر

اب چلتے چلتےآخری بات
ہرنی شیر سےزیادہ تیزرفتارہوتی ہے۔ لیکن شکار ہو جاتی ہے کیونکہ بار بار وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہے کہ شیر کہاں تک پہنچا۔ ایسا کرنے سے اسکی رفتار کم ہو جاتی ہے
بالکل اسی طرح جب ہم زندگی کے سفر پر رواں دواں ہوں تو بار بار ماضی میں جھانکنے سے ہمارا صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

طاہر تنولی (ٹویٹر ڈاٹ کوم)
 

جان

محفلین
یہ قوم غلامی سے آزادی چاہتی ہی نہیں۔ اس کو اپنی زنجیروں سے محبت ہو گئی ہے یا غلامی کے نشہ میں مزہ آنے لگا ہے۔
 
Top