منافق مسلمان وعظ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعظ
منافق مسلمان
(21 رمضان 1417 ھ )​
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونئومن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیات اعمالنا من یہدہ للہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی الہ و اصحبہ اجمعین ۔
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ،

[arabic]وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ [/arabic]۔ ( 1 ۔ 8 تا 10 )

وقال : [arabic]الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ [/arabic](29 ۔۔ 1 تا 3 )

وقال : [arabic]وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ[/arabic] ( 29 ۔۔ 10 ، 11 )

بیان کی وجہ :

پہلے اس بیان کی وجہ سن لیجئے میں نماز کے لئے جب یہاں مسجد آتا ہوں اور پہلی صف میں کھڑا ہو کر مقتدیوں کی طرف ایک ایک کو دیکھتا ہوں ان میں سے کوئی داڑھی منڈانے یا کٹانے والا ہو تو اسے ایک طرف کردیا جاتا ہے البتہ جمعہ کے دن کچھ رعایت کر دیتا ہوں یہ امید ہوتی ہے کہ انہوں نے توبہ کرلی ہوگی کہ آیندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے اتنے سارے داڑھی والوں میں کوئی ایک آلو ہو تو اسے کچھ تو شرم آئے گی ۔ جمعہ کے سوا دوسرے دنوں میں یہ معمول ہے کہ ایک طرف ہوجائیں درمیان میں ان لوگوں کو رہنے دیں جن کی صورتیں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کے موافق ہیں ان کا احترام کریں مگر رمضان میں معمول بدل کر یوں کر دیا کہ کسی بھی صف میں اگر کوئی برخوردار نظر آتا ہے ، بر خوردار کا مطلب سمجھتے ہی ہوں گے ، خواہ نوے یا سو سال کا ہو مگر داڑھی منڈانے یا کٹائے وہ خود کو بر خوردار سمجھتا ہے اس لئے میں نے ان کے کئی نام رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ خوش ہوجائیں ، بچے ہیں نا ان کی عقل ابھی بالغ نہیں ہوئی انہیں میں کبھی بر خوردار کہتا ہوں ، کبھی بچے کہتا ہوں ، کبھی پٹھا کہتا ہوں اور کبھی صاحبزادہ کہتا ہوں تاکہ خوش ہوجائیں ، یہ بڈھا خود کو بچہ سمجھتا ہے تو چلئے ہم بھی اس کا دل خوش کرنے کے لئے اسے صاحبزادہ کہہ دیتے ہیں ۔ رمضان میں یہ معمول ہو گیا ہے کہ نماز سے پہلے کھڑے ہو کر توجہ سے ایک ایک شخص کو دیکھتا ہوں اللہ تعالی نے قد لمبا دیا ہے تو اس کا بھی فائدہ ہے آخر تک پوری مسجد میں سب کو دیکھتا ہوں اگر کوئی پٹھا نظر آجائے تو عام دنوں کے مطابق اسے ایک طرف نہیں ہٹاتا بلکہ عادت کے مطابق کوئی اسے ایک طرف کرنے لگتا ہے تو میں اسے منع کر دیتا ہوں کہ مت ہٹاؤ پھر اس سے کہتا ہوں کہ آپ کے لئے دعاء کراؤں؟ کہتا ہے ہاں ہاں ضرور کروائیں ۔ پھر بھری مسجد میں اس کے لئے یوں دعاء کروائی جاتی ہے : یا اللہ ! جو لوگ داڑھی منڈاتے یا کٹاتے ہیں ان کے دلوں میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارکہ سے نفرت ہے یا اللہ ! رمضان کی برکت سے ان کے دلوں سے اس نفرت کو نکال دے اور ان کے دلوں میں ایمان کا نور بھر دے اور اتی سے عقل دے دے اتنی سی نہیں اتی سی تھوڑی سی بال کی نوک کا ایک بٹا کروڑ کا حصہ اتی ذراسی عقل دے دے ، کیا عقل دے دے کہ نفرت اور ایمان دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ۔ یہ بات بھی کسی کی عقل میں آسکتی ہے کہ دل میں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارکہ سے نفرت بھی ہو اور پھر اس دل میں ایمان بھی ہو نافرمانی کرتے کرتے نافرمانیوں کا وبال ایسا پڑا کہ اتنی موٹی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ میرے اللہ کی قدرت دیکھئے کہ ہر نماز میں کوئی نہ کوئی سامنے آجاتا ہے جس نے ایک بار سن لیا وہ تو پھر کہیں ادھر ادھر کھسک جاتا ہوگا اللہ تعالی پھر کسی نئے شخص کو سامنے کھڑا کر دیتے ہیں ہر نماز کے بعد بہت دعائیں ہو رہی ہیں ۔اس بارے میں مجھے یہ خیال آیا کہ باغیوں پر تو بہت بیان ہوتے ہیں ہر وقت انہی کی رگڑائی ہر وقت انہی کی رگڑائی جب بھی بولتا ہوں تواسی بارے میں ۔
آج ایک مولانا صاحب نے ایک دوسرے مولانا صاحب کے بارے مجھے بتایا کہ وہ یہ فرما رہے تھے کہ میں افغانستان کا دورہ کر کے آرہا ہوں ، تین دن تک وہاں کی گلیوں بازاروں میں گھوما مجھے کوئی ایک شخص بھی داڑھی کٹانے والا نہ ملا ، منڈانا تو دور کوئی کٹانے والے بھی نہ ملا ، داڑھی کی بات تو الگ رہی کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہیں آیا جو ننگے سر ہو ، تین دن میں کوئی ایک عورت بھی بے پردہ نظر نہیں آئی ۔ قندھار سے فیکس آیا ہے جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عید گاہ میں چھ لاکھ کا مجمع تھا اس میں ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جس کی داڑھی کٹی ہوئی ہو ، یہ اسلامی حکومت کی برکات ہیں ، اللہ تعالی کی رحمت ہے ۔
میں اللہ تعالی کے باغیوں کو درست کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں اگر میں نہ کرسکا تو ان شاء اللہ طالبان آکر سب کو صحیح کر دیں گے ۔ یہ دعاء کر لیں کہ یا اللہ ! طالبان جلدی سے جلدی پہنچ جائیں ۔ بعض لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بہت سخت ہے بہت تشدد کرتا ہے ۔ میں ایک بات پوچھتا ہوں کہ میں نے کسی کو ڈنڈا لگایا کبھی کسی کو مارا، میں نے تو کبھی نہیں مارا نہ ہی کسی کو ڈانٹا ہے یہ جو باغی لوگ مسجد میں سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں انہیں بھی بر خوردار کہتا ہوں بیٹا کہتا ہوں ، بچہ کہتا ہوں ، صاحبزادہ کہتا ہوں ، ڈنڈا مارنا تو الگ رہا ڈانٹتا بھی نہیں ۔ یہاں جو علماء میرے بچے ہیں کئی کئی سال یہاں پڑھتے ہیں ان سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو انہیں جب ذرا تیز لہجے میں تنبیہ کرتا ہوں تو ڈانٹتے وقت مسکرا رہا ہوتا ہوں بعد میں ان سے پوچھتا ہوں کہئے یہ ڈانٹ میٹھی ہے نا اور ایک مصراع بھی چست کر دیتا ہوں ع

ڈانٹ بھی پلاتا ہوں تو میٹھی میرے بیٹے

یہ کہہ کر پوچھتا ہوں میٹھی ہے نا تو وہ کہتے ہیں ہاں میٹھی ہے ۔ میں تو کبھی کسی کو ڈانٹتا بھی نہیں ، یہ لوگ کتنا جھوٹ بولتے ہیں جھوٹ ہے نا یہ جو میرے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بڑا سخت ہے ۔ سختی تو یہ ہے کہ ڈانٹوں برا بھلا کہوں ماروں پیٹوں باہر پہرے داروں سے کہہ دوں کہ جو بھی داڑھی منڈا کٹا باغی مسجد کے قریب آنے لگے اسے اللہ کے گھر میں اللہ کے دربار میں مت آنے دو بھگا دو ، یہ باغی باہر ہی رہیں اللہ کے دربار میں کیوں آتے ہیں ۔ کبھی سنا کہ یہاں اسی کو مسجد سے بھگا دیا ہو اب خود فیصلہ کیجئے کہ جو لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ سخت ہے ، سخت ہے بڑا متشدد ہے ، یہ جھوٹ بولتے ہیں یا نہیں ، میں نے تو کبھی بھی تشدد نہیں کیا کبھی بھی سختی نہیں کی ۔ طالبان کے بارے میں اگر کہیں کہ وہ سختی کرتے ہیں تو بظاہر بات صحیح بن جائے بظاہر کہہ رہا ہوں اس لئے کہ سختی تو وہ بھی نہیں کرتے وہ تو اللہ کے قانون پر عمل کرتے ہیں مجھے اس پر قدرت ہوتی تو میں بھی ایسے ہی کرتا ، انہیں سخت کہنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ سختی کرتا ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ ظلم کرتا ہے تو اس کا ایمان کہاں رہا ؟ طالبان اگر بے پردہ عورت کو دو چار کوڑے لگا دیتے ہیں اور داڑھی منڈانے والے کو ایک دو تھپڑ لگا دیتے ہیں ، کسی نے چوری کی اور جرم پورے طور پر شہادت شرعیہ سے ثابت ہو جائے تو چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اگر شرائط نہیں پائی گئیں تو اس کے ہاتھ میں ٹین اور ایک ڈنڈا دے کر پورے شہر میں گشت کراتے ہیں کہ بجائے جاؤ اور کہتے جاؤ میں نے چوری کی ، میں نے چوری کی ، جو آیندہ چوری کرے گا اسے ایسے ذلیل ہونا پڑے گا ، طالبان جو منکرات و فواحش کی روک تھام کے لئے ایسے کر رہے ہیں تو وہ اللہ کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں ، بے دینوں کو یہ سختی اور تشدد لگتا ہے ۔ ارے ! انہوں نے امریکہ کی نائب وزیر خارجہ کو بھی ٹوپی والا برقعہ پہنا دیا کافر تو کافر مسلمان حکومتوں نے بھی طالبان ان سے بہت ہی لجاجت سے درخواست کی کہ اسے برقع نہ اڑھائیں انہوں نے کہا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اسے جہاز اترنے سے پہلے ہی برقع اڑ دیا اس کے بعد نیچے اتری ہے ۔ مغربی ممالک کے سفارت خانے سے تعلق رکھنے والے فوٹو لینے کے لئے کیمرے لے کر باہر پھر رہے تھے طالبان نے ان کے کیمرے چھین لئے ، یہ جو قصے بتا رہا ہوں یہ بظاہر سختی ہے بظاہر ہے حقیقت میں نہیں ، بات کو سمجھیں اگر کوئی اسے سختی سمجھتا ہے تو وہ اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کرے کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ سختی کر رہا ہے ، اللہ تعالی تو بار بار قرآن مجید میں اعلان فرما رہے ہیں :
[arabic] وَمَا أَنَا بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ[/arabic] (50 ۔ 29 )
میں تو بندوں پر رحیم و کریم ہوں میں بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ طالبان سختی نہیں کرتے یہ رحمت ہی رحمت ہے ، اللہ کا قانون جاری ہوجائے تو یہ رحمت ہی رحمت ہے مگر بے دینوں کی نظر میں یہ سختی ہے ۔ جرمنی کی ایک ریڈیو کی ایک بات مجھے یاد رہتی ہے ، اس میں ایک سوال و جواب آیا ، کسی نے ان کے نمایندے سے پوچھا کہ طالبان کون ہیں؟ جواب دینے والے نے کہا کہ یہ کلاشنکوف کے زور سے اللہ کا قانون نافذ کرنے والی جماعت ہے ۔

نافرمانوں کی دو قسمیں :

بات یہ ہو رہی تھی کہ تقریبا پورا رمضان تو گزر گیا باغیوں کے لئے دعائیں کرتے کراتے اس درمیان میں خیال آگیا کہ باغیوں پر تو بہت کہا جاتا ہے مگر مسلمانوں کی ایک قسم اور بھی ہے وہ ہیں منافقین ، اس طرح مسلمانوں کی دو قسمیں ہوگئیں :

1 ۔۔ مجاہرین :

جنہوں نے حیا کا پردہ چاک کر ڈالا ، حیا کی چادر کو ہٹا کر ایک طرف رکھ دیا وہ ہیں اللہ کے باغی مجاہرین کھلے نافرمان ، جنہیں اللہ سے شرم نہیں انہیں مخلوق سے کیا شرم آئے گی ، وہ لوگ کون ہیں ، داڑھی منڈانے کٹانے والے ، ٹخنے ڈھاکنے والے تصویریں کھینچنے کھنچوانے اور رکھنے والے ، گانے باجے سننے والے ٹی وی دیکھنے والے اور بے حیا عورتیں جو پردہ نہیں کرتیں اور ان کے دیوث مرد جو پردہ نہیں کرواتے ، وہ لوگ جو سودی لین دین اور حرم ذرائع آمدن اختیار کرتے ہیں ، ان لوگوں کو کہا جاتا ہے مجاہرین ۔ ان لوگوں کو شیطان نے بڑی عجیب تدبیر سمجھائی ہے کہ گناہوں سے روکنے والی سب سے بڑی چیز جہاد ہے ،اگر کوئی داڑھی رکھ کر گناہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں ارے ! تیرے منہ پر داڑھی پھر بھی ایسے کام کر رہا ہے ، تو شیطان نے انہیں یہ تدبیر سمجھائی کہ دیکھو یہ داڑھی ایسی چیز ہے جو ہر گناہ سے روکتی ہے یہ شرم دلانے والی چیز ہے تو تم شرم کا اڈا اڑا دو :
[arabic]﴿ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ ۔﴾[/arabic]
جب شرم کا اڈا ہی اڑا دیا تو اب ننگے ناچتے رہو جو جی میں آئے کرتے رہو ، یہ ہیں اللہ کے کھلے نافرمان باغی ، ان کے بارے میں ایک حدیث بتاتا رہتا ہوں :
[arabic]﴿ كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ ۔﴾[/arabic] (متفق علیہ )
اللہ تعالی کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ پوری امت مسلمہ کو معاف فرما دیں اگرچہ یہ قاعدہ نہیں لیکن اگر اللہ تعالی معاف فرما دیں تو کون پوچھنے والا ہے لیکن اللہ مجاہرین کو کھلے نافرمانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا یہ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعہ اپنا فیصلہ سنادیا ۔ یہ تو ہو گیا پہلی قسم کا بیان ، اس پر تو یہاں اکثر بیان ہوتے ہی رہتے ہیں اور ایک وعظ کو پڑھ کر بحمد اللہ تعالی بہت لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے اللہ تعالی اور بھی زیادہ نافع بنائیں ۔

2 ۔۔ منافقین :

دوسری قسم ہے منافقین ان پر بیان بہت کم ہوتا ہے اور زیادہ تفصیل سے بھی نہیں ہوتا ۔
منافقین کی دو قسمیں :

1 ۔۔ اعتقادی منافق :

ایک تو وہ جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن دل سے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے انہیں ''اعتقادی منافق '' کہا جاتا ہے ، یہ کافر ہیں ۔

2 ۔۔ عملی منافق :

آج کل کے نافرمان مسلمان جو باغی مسلمانوں کے مد مقابل ہیں ، یہ کافر نہیں ہیں فاسق ہیں ، یہ ایمان ظاہر بھی کرتے ہیں اور دل سے تصدیق بھی کرتے ہیں اللہ تعالی کے سب احکام کو مانتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے صورت سے ظاہر کرتے ہیں کہ بڑے پکے مسلمان ہیں ، ظاہری حلیہ اور ظاہری اعمال پکے مسلمانوں والے اختیار کر لیتے ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ اعمال ظاہرہ کا اہتمام کرتے ہیں مگر شریعت کے جو احکام عوام کو نظر نہیں آتے ان پر عمل نہیں کرتے پوشیدہ گناہ کرتے رہتے ہیں اس لحاظ سے یہ بھی منافق ٹھرے انہیں '' عملی منافق '' کہا جاتا ہے ۔ منافقین کی اس قسم کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں ، مجاہرین کی رگڑائی تو ہمیشہ کرتا رہتا ہوں اب یہ خیال آیا کہ کہیں یہ منافقین مجاہرین ہی کو نہ دیکھتے رہیں کہ ہم تو ہیں بہت بڑے ولی اللہ اور یہ باغی ہیں ، انہیں کچھ اپنی اصلاح کی بھی فکر ہو اپنے حالات کو سوچیں اس لئے بیان کرنے کا داعیہ پیدا ہوا ۔

عملی منافقین :

ایسے گناہ تو کسی کے سامنے نہیں کرتے جو دیندار لوگوں کی نظر میں گناہ سمجھے جاتے ہیں مگر ایسے گناہ کر لیتے ہیں جنہیں دیندار لوگ نہیں دیکھتے انہیں پتا نہیں چلتا کہ یہ گناہ کرتا ہے یا نہیں ان گناہوں کی دو قسمیں ہیں ۔

مخفی گناہوں کی دو قسمیں :
1 ۔۔ قالب کے گناہ :

ایسے گناہ جن کا تعلق ظاہری جسم سے مثلا اگر کہیں بد نظری کا موقع ہوا تو پہلے ذرا ادھر ادھر دیکھ لیا کہ کوئی داڑھی والا تو نہیں دیکھ رہا اگر کوئی داڑھی والا یا کوئی اپنا جاننے والا موجود ہوا تو نظریں جھکا لیتے ہیں تاکہ لوگ کہیں کہ یہ تو بڑا مقدس ہے بڑا ولی اللہ ہے اور اگر کوئی نہیں یا یہ سارے ہی بے حیا ہیں تو یہ بھی دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ چلو شکار مل گیا کر لو ، اسی طریقے جہاں کوئی نہیں دیکھ رہا تو نماز ہی چھوڑ دیتے ہیں اور فجر کی نماز تو چھوڑتے ہی ہیں ، جہاں جھوٹ چھپا رہنے کی توقع ہو وہاں جھوٹ بھی بول لیتے ہیں ، چوری جہاں چھپی رہنے کی توقع ہو وہاں چوری بھی کر لیں گے، غیبت اگرچہ لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے مگر چونکہ لوگ اسے گناہ سمجھتے ہی نہیں اس لئے غیبت تو رات دن کا مشغلہ ہے حالانکہ غیبت کرنا اور سننا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اس میں ہر وہ گناہ آگیا جو جسم سے اداء کیا جاتا ہے مگر لوگوں سے یا مخفی رہتا ہے یا لوگ اسے گناہ سمجھتے ہی نہیں ۔

2 ۔۔ قلب کے گناہ :

مخفی گناہوں کی دوسری قسم کا تعلق قلب سے ہے جیسے حسد ، ریاء حب مال ، حب جاہ ، کبر ، عجب ، عجب کے معنی ہیں خود کو مقدس سمجھنا اس سے قطع نظر کہ کوئی کیسا ہے خود کو یہ سمجھنا کہ ہم بہت بڑے ولی اللہ بن گئے اسے عجب کہا جاتا ہے ، کبر کے معنی ہیں دوسروں کو کمتر سمجھنا ، اللہ تعالی فرماتے ہیں :
[arabic]﴿ وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ ﴾[/arabic] (45 ۔ 37 )
کبریائی صرف اللہ کے لئے ہے صرف اللہ کے لئے ، جو شخص خود کو یہ سمجھتا ہے کہ پاک دامن ہے گناہوں سے بچا ہوا ہے یہ خود کو بڑا سمجھتا ہے جب کہ بڑائی تو صرف اللہ کے لئے ہے جس کے دل میں بڑائی آئی وہ خود کو اللہ کا شریک سمجھتا ہے اسے اللہ تعالی کیسے معاف فرمائیں گے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ اللہ کا شریک بنے اور اللہ اسے معاف فرما دے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
،، جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی کبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ،، (مسلم)
رائی بہت چھوٹی سی ہوتی ہے ، رائی کے دانے کے برابر اگر کبر ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔ ایسی ایسی بیماریاں دلوں میں ہیں مگر یہ بیماریاں لوگوں سے مخفی ہیں کہیں کہیں اپنے موقع پر ظاہر ہوتی ہیں یا پھر طبیب باطن دیکھ کر پہچان لیتا ہے عام لوگ نہیں پہچان پاتے اس لئے ایسے گناہوں سے بچنے کی یہ لوگ کوشش نہیں کرتے سوچتے ہیں کوئی دیکھ نہیں رہا ، اللہ دیکھ رہا ہے تو کیا ہوا لوگ تو نہیں دیکھ رہے مقدس کے مقدس بھی بنے رہو اور گناہوں کے مزے بھی لیتے رہو دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے رہیں ؂

حج بھی کعبہ کا کیا اور گنگا کا اشنان بھی
خوش رہے رحمن بھی راضی رہے شیطان بھی​

دونوں کو خوش رکھو ، اعمال ظاہرہ اختیار کر کے رحمن کو خوش کر دیا اور باطن میں شیطان کو خوش کرتے رہتے ہیں ۔

مخفی گناہوں کی ایک مثال :
آج باب العبر میں جو قصہ سنایا گیا ہے اس میں مخفی گناہوں کی دونوں قسموں کا بیان ہے ۔ یہ ایک نابالغ لڑکے کا قصہ ہے اس نے بتایا ہے جن قاری صاحب نے مجھے اپنے پیچھے سامع بنایا تھا وہ ایسی دعوتوں میں شریک ہو جاتے تھے کہ جہاں تصویریں لی جا رہی ہوں ایسے قاری صاحب تو گئے فاسق ، فاسق کے پیچھے تراویح پڑھنا جائز نہیں ، محلے کی مسجد کا امام اگر فاسق ہو تو بہتر تو یہ ہے کہ کسی صالح کے پیچھے فرض پڑھیں اور اگر قریب میں کوئی صالح امام نہیں ملتا تو مسجد کی جماعت نہ چھوڑیں فاسق کے پیچھے بھی فرض پڑھ لیں مگر تراویح کا مسئلہ یہ ہے کہ فاسق کے پیچھے نہ پڑھیں ۔ اس بچے نے کہا کہ میں نے اپنے قاری صاحب کو بتایا کہ آپ تو ایسی دعوتوں میں چلے جاتے ہیں جہاں تصویریں لی جا رہی ہوتی ہیں اس لئے میں آپ کے پیچھے سامع نہیں رہوں گا آپ کے پیچھے تراویح پڑھنا جائز نہیں ۔ قاری صاحب نے فرمایا کہ جب تصویر کھینچتے ہیں تو میں سامنے رومال کر لیتا ہوں اس لئے میرے لئے جائز ہے ۔ اس بچے کا کسی ایسی جگہ سے تعلق ہے جو حقیقت کو سمجھنے والے ہیں اللہ تعالی نے انہیں بصیرت دینیہ عطاء فرمائی ہے ۔ اب دیکھئے کہ ایک بچہ اتنے بڑے قاری صاحب کو مسئلہ بتا رہا ہے ، بچے نے کہا کہ سامنے ہاتھ یا کپڑا وغیرہ کرنے سے آپ تصویر کی لعنت سے نہیں بچ سکتے مسئلہ یہ ہے کہ جس مجلس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو رہی ہو وہاں بیٹھنا جائز نہیں ، پہلے پتا چل جائے تو جانا جائز نہیں ، جانے کے بعد پتا چلے تو بیٹھنا جائز نہیں روکنے کی قدرت ہو تو روکے ورنہ وہاں سے اٹھ جائے ۔ قاری صاحب دعوت کیسے چھوڑیں دعوت سبحان اللہ ! لقمہ تر قاری صاحب کے منہ میں جانے سے بچ جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اس لئے انہوں نے بچے کی بات نہیں مانی دعوتوں میں جاتے رہے ، قاری صاحب بھی بچے پر ناراض ہوئے اور بچے کے والدین بھی اس پر ناراض ہوئے کہ تم سامع بنے رہو اگر استاد کے ساتھ جہنم میں چلے گئے تو کوئی بات نہیں وہاں بھی آپس میں باتیں کرتے رہنا ذرا دل لگا رہے گا ۔ بچے کو مصالحہ لگا ہوا تھا ان مولوی صاحب کا جنہوں نے گدھے کو مصالحہ لگا کر جونپور کا قاضی بنا دیتے ہیں ۔ اس بچے نے کہا کہ کچھ بھی ہو جائے میں سامع نہیں بنوں گا ۔ یہ قصہ جہاں تک بتایا وہ تو ہیں منافقین جسمانی ، قاری صاحب بھی ایک قسم کے منافق تھے کہ جس چیز کو لوگ برا نہیں سمجھتے وہ کرلو ، بظاہر صالح ہیں صورت بھی مسلمانوں کی نماز بھی پڑھتے ہیں تراویح بھی پڑھاتے ہیں لیکن لوگوں کی نظر میں جو چیز عیب ہے اس سے تو قاری صاحب بچتے تھے اور جو چیز لوگوں کی نظر میں عیب نہیں وہ کر لیتے تھے ۔ یہ تو مخفی گناہوں میں ایک قسم ہے ۔
بچے نے ان کا قصہ لکھنے کے بعد آگے لکھا ہے کہ اللہ تعالی مجھے مرض عجب سے محفوظ رکھیں ۔ وہ گناہ جو دوسری قسم میں بتائے گئے ہیں ان سے محفوظ رہنے کی دعاء کی اور کروائی ہے ۔ ایک چھوٹا سا بچہ اتنے بڑے قاری صاحب کو سمجھا رہا ہے ، ایک تو وہ قاری ، دوسرے عمر میں بہت بڑے ، تیسرے استاد ، چوتھے تراویح کے امام بچہ انہیں سمجھا رہا ہے پھر جب وہ سمجھا نے پر بھی گناہ سے باز نہ آئے تو یہ کیسے اللہ کی اطاعت چھوڑ دے ۔ جو لوگ گناہ نہیں چھوڑتے ان سے ایک سبق حاصل کیا کریں کہ یہ اللہ کی نافرمانی نہیں چھوڑتے تو ہم اللہ کی اطاعت کیسے چھوڑ دیں کیوں چھوڑ دیں ان سے استقامت کا سبق حاصل کیا کریں ، انہیں جہنم میں جانے پر استقامت ہے تو ہم جہنم سے بچنے پر استقامت کا مظاہرہ کیوں نہ کریں ۔ اگر خاندان میں ایک بھائی کو اللہ نے ہدایت عطاء فرما دی وہ بن گیا رحمن کا بندہ دوسرا ہے شیطان کا بندہ ، جو شیطان کا بندہ ہے اس کے ہاں شادی وغیرہ کی کوئی تقریب ہو رہی ہو اس میں وہ سارے ہی شیطانی کام کرتا ہے تصویر کھینچنا ، بے پردگی اور جو کچھ بھی شادیوں میں لعنتیں ہوتی ہیں وہ سب کام کرتا ہے ، یہ جو رحمن کا بندہ ہے یہ کہتا ہے کہ میں ان منکرات میں شریک نہیں ہو سکتا تیری خاطر اپنی آخرت کو برباد نہیں کر سکتا تو ایسے موقع پر شیطان کے بندے کہتے ہیں کہ ارے ! بھائی کی خاطر کر لے ورنہ بھائی کا رشتہ ٹوٹ جائے گا ، وہ بھائی بھی کہتا ہے کہ میری خاطر کر لو تو کبھی کبھی شیطان اس کے دل میں بھی وسوسے ڈالتا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں بھائی ہے بھائی کی خاطر کر لو ۔ اس موقع پر ایک سبق خوب یاد رکھیں خوب یاد رکھیں خوب یاد رکھیں اللہ تعالی یاد رکھنے کی توفیق عطاء فرمائیں ، استقامت عطاء فرمائیں، وہ سبق جو ابھی بتایا ہے کہ یہ سوچیں کہ شیطان کا بندہ تو شیطان کی عبادت میں اتنا پکا اتنا پکا کہ اسے بھائی کے راضی یا ناراض ہونے کی کوئی فکر نہیں وہ بھائی جو نیک ہے وہ راضی رہے یا ناراض یہ شیطان کی عبادت نہیں چھوڑتا ، اس کا بھائی دعوت میں اس کے ہاں آئے یا نہ آئے اسے کوئی پروہ نہیں تو جو رحمن کا بندہ کہلاتا ہے وہ اتنا کم ہمت کیوں ہے اسے تو زیادہ ہمت والا ہونا چاہئے اسے بھائی سے کہنا چاہئے کہ صرف میں ہی تیرا بھائی نہیں ہوں تو بھی میرا بھائی ہے اگر مجھ پر تیرا حق ہے تو تجھ پر بھی میرا حق ہے جب تو میری خاطر جہنم میں جانے سے نہیں رکتا تو میں تیری خاطر جہنم میں کیوں چلا جاؤں ، یہ تو ہو گئی مساوات کی بات ، اصل بات اللہ تعالی کی رضا ہے ارے بھائی ! تو اللہ سے نہیں ڈرتا جہنم میں جانے پر تیار ہے ، دنیا کی جہنم میں بھی اور آخرت کی جہنم بھی تجھے قبول ہے تو میں تیری خاطر جہنم میں کیسے چلا جاؤں ، جتنا تو جہنم پر بہادر ہے اتنا ہی میں جہنم سے ڈرتا ہوں تو اپنی بات نہیں چھوڑتا تو میں اپنی بات کیسے چھوڑ دوں ؂
تو اپنی روش نہ بدلے میں اپنی روش کیوں بدلوں

جن لوگوں کے رشتے دار بے دین ہیں اور انہیں بھی کھینچ کھینچ کر اپنے ساتھ جہنم میں لے جانا چاہتے ہیں ان سے یہ کہا کریں ؂
تو اپنی روش نہ بدلے میں اپنی روش کیوں بدلوں

تجھے شیطان کی راہ پر استقامت ہے تو مجھے رحمن کی راہ پر تجھ سے زیادہ استقامت ہے میں کبھی بھی تیری بات نہیں مانوں گا ۔
بات ہو رہی تھی مخفی گناہوں کی جن لوگوں کو اللہ تعالی نے صورت بنانے کی توفیق عطاء فرمادی ۔ احکام ظاہرہ عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمادی وہ اپنے حالات سے غافل نہ ہوں دلوں میں کہیں عجب اور کبر پیدا نہ ہو جائے ، ہر وقت اللہ تعالی کے سامنے اس طریقے سے رہیں کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے وہ جسمانی گناہ جنہیں لوگ نہیں دیکھ رہے لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے اور وہ دل کے گناہ جو لوگوں سے پوشیدہ ہیں اللہ انہیں بھی دیکھ رہا ہے وہ تو دلوں کی سب باتیں جانتا ہے اس لئے ظاہری و باطنی سب گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں اور دعاء بھی کرتے رہیں اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائیں ۔

منافقت پر دلائل اور نفاق کا علاج :

اب اس بارے میں کچھ دلائل سن لیں کہ یہ لوگ منافق ہیں یا نہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتاؤں گا کہ ان کے اس نفاق کا علاج کیا ہے ۔


1 ۔۔ عالم ارواح میں شہادت :

سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب اللہ تعالی نے تمام ارواح کو پیدا فرمایا :
[arabic]﴿ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا ﴾[/arabic] ( 7 ۔۔ 172 )
اللہ تعالی نے ازل میں تمام ارواح سے پوچھا : [arabic]أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [/arabic]کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے فورا بلا سوچے سمجھے فورا کہا بَلَى ۔ ہاں ہاں بالکل تو ہمارا رب ہے ، پھر بلی پر خاموش نہیں ہوئے مزید کہا : [arabic]شَهِدْنَا[/arabic] لفظ شہادت بہت تاکید کے لئے ہوتا ہے ، صرف یہ نہیں کہ ہم آپ کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں بلکہ اس پر شاہد ہیں پکی بات ہے پکی بات کہ تو ہمارا رب ہے ۔ اب یہاں سوچئے کہ جو لوگ عمل نہیں کرتے چھپے ہوئے گناہ نہیں چھوڑتے وہ اس عہد کے مطابق منافق ہیں یا نہیں ، اللہ سے تو کہہ دیا کہ ہم تیری حکومت مانتے ہیں تو پھر مانتے کیوں نہیں ، کسی کی حکومت کو ماننے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دو چار باتیں تو مانوں گا باقی نہیں مانوں گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرا حکم مانوں گا۔ اللہ نے پوچھا کہ تو مجھے رب مانتا ہے یا نہیں ؟ تو کہتا ہے ہاں ہاں تو میرا رب ہے بلکہ شہادت بھی دیتا ہوں لیکن اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کرتا ہے کہ اس نے اللہ کی حکومت کی تسلیم نہیں کیا سوچئے منافق ہے یا نہیں ؟ کہہ تو یہ دیا کہ مانتا ہوں لیکن اطاعت نہیں کرتا یہ عملی منافق ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے نفس سے خطاب کیا کریں ارے خبیث ! تو نے اللہ تعالی سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے رب مانتا ہوں تو یہ چھپے ہوئے گناہ کیوں کرتا ہے ؟ جب اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ تیرا حکم مانوں گا کبھی بھی نافرمانی نہیں کروں گا تو آخر یہ کیا بات ہے کہ کبھی نماز چھوٹ جاتی ہے کبھی جماعت چھوٹ جاتی ہے ، کبھی بد نظری ہو جاتی ہے ، کبھی جھوٹ بول لیتے ہیں ، کبھی کسی کا حق غصب کر لیتے ہیں ، عورتیں پردہ کے صریح حکم کے خلاف ننگی بے پردہ پھرتی رہتی ہیں یا جب چاہا پردہ کر لیا اور جہاں موقع مل گیا پردہ اتار پھینکا ۔ ایسے ایسے گناہ کیوں کرتے ہیں اپنے نفس کو خطاب کیا کریں اپنے نفس سے پوچھا کریں ارے شریر ! ارے خبیث ! تو نے جب اللہ سے وعدہ کیا تھا تو اس وعدے کو پورا کیوں نہیں کرتا کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ وعدے کو بھول گیا ، اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ اللہ نے وعدہ تو لیا مگر چونکہ وہ بھول گیا ہے اس لئے میں ایسے کرتا ہوں وہ تو ویسے ہی کافر ہو گیا ۔ اپنے نفس کو ڈانٹ پلایا کریں کہ اللہ نے جو وعدہ لیا تھا وہ اسے بھولا نہیں اسے یاد ہے پھر اس کے خلاف کیوں کرتا ہے ۔ یہ سوچا کریں کہ کوئی انسان دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تو دیکھ رہا ہے اس لئے کسی بھی حال میں اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف نہ ہونے پائے ۔ اللہ تعالی فرما رہے ہیں :
[arabic]﴿ وَذَرُوا ظَاهِرَ الإثْمِ وَبَاطِنَهُ ﴾[/arabic] ( 6 ۔ 120 )
"" ظاہری گناہوں کو چھوڑ دو اور باطنی گناہوں کو بھی ۔""
اور فرمایا :
[arabic]﴿ وَلا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ﴾[/arabic] ( 6 ۔۔ 151 )
،،ظاہری منکرات کے قریب بھی نہ پھٹکو اور باطنی منکرات کے قریب بھی ۔ ،،
اور فرمایا :
[arabic]﴿ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ﴾[/arabic] ( 7 ۔۔ 33 )
،، کہہ دیجئے کہ میرے رب نے دونوں قسم کے گناہ حرام فرما دئے ہیں ظاہری گناہ بھی اور باطنی گناہ بھی ۔،،
ان آیات میں صاف صاف فرما دیا کہ ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہوں سے بچو نہ صرف بچو بلکہ ان کے قریب بھی نہ جاؤ بہت دور رہو ، جو بھی ان کے قریب گیا وہ پھنسا ۔ وہی بات سوچیں کہ اللہ تعالی سے مکمل اطاعت کا وعدہ کیا تھا اور وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے وہ سب جانتا ہے کہ کون وعدہ پورا کر رہا ہے اور کون پورا نہیں کر رہا :
[arabic]﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ﴾[/arabic] (50 ۔۔ 16 )
وہ تو دل کی باتیں جانتا ہے ، زبان کی باتیں الگ ، کان کے اعمال الگ ، ہاتھ پاؤں کے اعمال الگ وہ تو دل میں آنے والے خیال کو بھی جانتے ہیں ۔ اپنے نفس سے کہیں خبیث ! شریر ! کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ تیرے حالات کو نہیں جانتا ؟ وہ جانتا ہے پھر اسے کہیں کہ ارے خبیث تو تو منافق ہے منافق ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کیا شان تھی اللہ تعالی کی طرف توجہ میں ذرا سی کمی آجاتی ذرا سی کمی تو لرز اٹھتے کہ ہم تو منافق ہو گئے ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر روتے کہ یا رسول اللہ ! ہم تو منافق ہو گئے ۔ کوئی گناہ نہیں بلکہ توجہ الی اللہ میں ذرا سی کمی پر اس قدر پریشان ہو جاتے ؂

بر دل سالک ہزاران غم بود
گزر باغ دل خلالے کم بود​

اور آج کا مسلمان جو خود کو صالح اور نیک سمجھتا ہے اور ولی اللہ سمجھتا ہے وہ چھپے ہوئے گناہ اور دل کے گناہ کرتا رہتا ہے اسے اپنے بارے میں منافق ہونے کا کبھی خیال نہیں آتا ۔ اپنے نفس سے خطاب کیا کریں کہ ارے خبیث تو تو منافق ہے پھر اللہ سے دعاء کریں کہ یا اللہ ! مجھے اس نفاق سے بچا لے ، مجھے صحیح معنی میں مسلمان بنا لے، تیرے سامنے جو تیرے رب ہونے کا اقرار کیا تھا شہادت دی تھی اس پر قائم رہنے کی توفیق عطاء فرما دے اور ساتھ ساتھ ایک استعاذہ بھی کر لیا کریں :
[arabic]اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ [/arabic]﴾
،، یا اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں شقاق یعنی ضدا ضدی اور بلا وجہ کی ہٹ دھرمی کر نے سے اور نفاق سے اور بے اخلاق سے ۔ ،،

وعدہ یاد نہیں :

کسی کو یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ازل میں ہم سے جو وعدہ لیا تھا وہ تو ہمیں یاد ہی نہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا اصل مقصود ہوتا ہے اس کی تفصیل کا یاد رہنا مقصود نہیں ہوتا ۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو پیدا ہونے سے پہلے وہ بطن مادر میں ہوتا ہے وہیں اس کے اعضاء بنتے ہیں اور وہیں اللہ تعالی اسے رزق عطاء فرماتے ہیں تو کیا انسان کو اپنی حیات کا وہ زمانہ یاد ہے ؟ وہ کسی کو بھی یاد نہیں لیکن اس کے باوجود اس بات کا پکا یقین ہے کہ ہمیں یاد ہو یا نہ ہو لیکن ایسا ہوا ہے۔ اسی طرح اگرچہ یہ یاد نہیں کہ وعدہ کیسے لیا گیا تھا ، کب لیا گیا تھا ، ہم کن حالات میں تھے ، کون سا وقت یہ ساری تفصیل تو یاد نہیں مگر ہر انسان کو یہ یقین ہے کہ یہ کام ہوا ضرور ہے یقیناً ہوا ہے اللہ نے وعدہ لیا ہے، یہ سب کو یقین ہے ۔ یہ یقین اس طریقے سے ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اگر اس کے والدین اسے گمراہ نہیں کرتے اسے جہنم کی طرف نہیں گھسیٹتے تو وہ بڑا ہو کر اللہ کا نافرمان نہیں بنے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اس کے قلب میں اپنی محبت کا تخم ڈال کر دنیا میں بھیجا ہے اور ازل میں اللہ سے جو عہد کیا تھا اس کا اثر اس کے دل و دماغ پر ہوتا ہے اس لئے وہ نافرمانی نہیں کرے گا ۔ بچے کو نافرمان بناتے ہیں اس کے والدین ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[arabic] مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ[/arabic] (متفق علیہ )
،، ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یعنی پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے لیکن گھر کا ماحول اسے بگاڑ تا ہے والدین اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ ،،
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی کسی بچے کو بالکل نو عمری میں بچپن میں غیر شعوری حالت میں کسی غار میں یا کسی جنگل وغیرہ میں چھوڑ آیا پھر یہ انسان وہاں اس بچے کو کسی طریقے سے خوراک پہنچاتا رہا یا اللہ تعالی نے کسی طریقے سے خوراک کا انتظام فرما دیا ، جیسے موسی ؑ کے لئے اللہ تعالی نے خوراک کا انتظام فرمادیا اور سامری کے لئے بھی اللہ تعالی نے خوراک کا انتظام فرمایا تھا ، حضرت موسی ؑ کو اللہ تعالی نے اسباب غیبیہ سے فرعون کے گھر پہنچا دیا ، فرعون سے موسی علیہ السلام کی تربیت کروائی ۔ پالا فرعون نے پھر اسی کے سر پر جوتا پڑا ، اسی طرح سامری کی پرورش بھی بڑے عجیب طریقے سے ہوئی ، اسی زمانے میں فرعون سے ڈر کر سامری کی ماں نے اسے کہیں پہاڑ پر کسی غار میں پھینک دیا تھا کہ مرے گا تو آنکھوں سے دور تو مرے گا ورنہ یہاں گھر میں تو فرعونی آنکھوں کے سامنے قتل کریں گے، اللہ کی عجیب قدرت دیکھئے کہ سامری کی پرورش اور تربیت حضرت جبریل علیہ السلام نے کی ؂
موسی الذی رباہ فرعون مرسل
وموسی الذی رباہ جبریل کافر
سامری کا نام بھی موسی ہی تھا ، اللہ تعالی کی قدرت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ موسی جن کی پرورش اللہ کے دشمن فرعون نے کی انہیں تو اللہ نے رسول بنا دیا اور وہ موسی جس کی پرورش اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ کروائی وہ کافر بنا یہ اللہ تعالی کی قدرت ہے اللہ تعالی سب کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائیں ۔ جیسے سامری کی پرورش کہیں پہاڑ کے غار میں ہوئی ایسے ہی کوئی انسان تنہا کسی غار میں جزیرے میں رہتا ہو لوگوں سے اس کا کوئی تعلق کوئی واسطہ نہ ہو تو بالغ ہونے کے بعد اس کے لئے بھی کائنات میں غور فکر کر کے یہ ماننا فرض ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ، اس شخص کے لئے بھی اللہ تعالی کے وجود پر ایمان لانا فرض ہے ۔
(یہ وعظ مکمل نہ ہو سکا چنانچہ دلائل نفاق میں سے صرف ایک کا بیان ہوا دوسرے رہ گئے ۔ جامع )

٭٭٭٭٭
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
مقابلہ بحوالہ القلم
rnold_147.gif
 
Top