منافقین کی علامات

Muhammad Naeem

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
قرآن کریم جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا۔ ۔ ۔ جو سرچشمہ ہدایت اور جادۂ جنت ہے ۔ ۔ ۔ کہ جس پر عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پستی میں گری ۔ ۔ ۔ ذلیل،حقیر اورکمتر۔ ۔ ۔اقوام ،پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کی قیادتیں اور سیادتیں ان کے حوالے کردیتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بدنصیب بھی ۔ ۔ ۔ جو محروم عمل رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ انہیں اٹھا کر بلندیوں سے ۔ ۔ ۔ پستیوں کی گہری ،عمیق اور دلدوز کھائیوں میں جا پھینکتا ہے ۔ ۔ ۔ جو صرف قرآن کو محض پڑھنے پڑھانے،فوت شدگان کے لئے ایصال ثواب پہنچانے، چھپوا کر تقسیم کر دینے ۔ ۔ ۔ یا پھر۔ ۔ ۔ کچھ بد نصیب لڑائی جھگڑے کے حل کیلئے قسمیں کھا نے کیلئے ہاتھوں پر اٹھا نے ۔ ۔ ۔ کو کافی و شافی سمجھ لیتے تھے ۔ذلت و رسوائی بالآخر انہی کا مقدر ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ اسی وجہ سے ۔ ۔ ۔
’’اور(قیامت کے دن) رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کہے گا اے اللہ ! میری قوم نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (القرآن)
آئیے! دیکھ لیں ۔ ۔ ۔ کہ کہیں ہم ان لوگوں کی فہرست میں داخل تو نہیں ہو رہے ۔ ۔ ۔ جنہیں قرآن ۔ ۔ ۔ منافق کے نام سے یاد کرکے ۔ ۔ ۔ ان کے دلوں میں نفاق کا مرض تشخیص کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر ان لوگوں کے لئے ۔ ۔ ۔ جہنم کی سب سے گہری کھائی میں گرائے جانے کی ۔ ۔ ۔ وعید سنا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور جسے قرآن منافق کہہ دے ۔ ۔ ۔ پھر اسے اپنے آپ کو ڈنکے کی چوٹ پر مسلماں نہیں سمجھنا چاہئے ۔ ۔ ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔ کیونکہ ۔ ۔ ۔
’’ (لوگو!) اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں ۔ ۔ ۔ (القرآن)‘‘
۔ ۔ ۔ توبہ کرنی چاہیے اس راستے سے ۔ ۔ ۔ اور اس راستے پر آجا نا چاہئے ۔ ۔ ۔ جو پسندیدہ ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )
کا۔ ۔ ۔ اور وہ بدنصیب جنہیں قرآن ۔ ۔ ۔ دین اسلام کے لئے بدنما داغ سمجھتے ہوئے ۔ ۔ ۔ کفار و مشرکین کا ہمدم سمجھتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ کون ہیں ۔ ۔ ۔ کہیں یہ لوگ ہم یا ہمارے ارد گرد تو نہیں پائے جاتے ۔ ۔ ۔
منافق کی علامات
٭ اہل ایمان کی فتح و کامیابی پر ان کے منہ لٹک جاتے ہیں
٭ اہل ایمان پر آنے والی تکلیف پر خوشیاں منا تے ہیں (التوبہ 50)
٭ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور اہل ایماں کو دھوکا دیتے ہیں (التوبہ2)
٭جہاد سے پیچھے رہنے کیلئے جھوٹے عذر بہانے بناتے ہیں (التوبہ 49)
٭ دوسرے لوگوں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں (الاحزاب 18/33)
٭ میدان جہاد میں شہید ہونے والوں پر تبصرے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری بات مان لیتے تو اس طرح نہ کٹ مرتے (آل عمران 168/3)
٭ راہ جہاد میں مال خرچ کرنے سے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں (التوبہ 65/9)
٭ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں (المنافقون2)
٭ میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے وعدوں کو دھوکا قرار دیتے ہیں (الاحزاب12)
٭ خود تو جہاد سے باز رہتے ہی ہیں ،مجاہدین کو بھی پلٹنے کی ترغیب دیتے ہیں (الاحزاب 18 )
٭ ان کے دلوں میں کفر کی بیماری ہے (البقرہ10/2)
٭ برائی کا حکم دیتے اور نیکی سے روکتے ہیں (التوبہ67/9)
٭منافق لوگ اللہ تعالیٰ کو بھولے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھلا دیا (التوبہ 25/9)
٭ مجاہدین کی حوصلہ شکنی کیلئے پریشان کن افواہیں پھیلاتے ہیں (الاحزاب60)
٭سخت بزدل اور ڈرپوک ہیں (التوبہ 56)
٭ کہتے ہیں اگر ہم لڑائی کرنا جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے (آل عمران 157/4)
٭ جھوٹے عذر بہانے بنا کر رسول اللہ سے کہتے ہیں ہمارے گھروں کو خطرہ ہے اس لئے واپس جانے کی اجازت دیں (الاحزاب 13/33)
٭ اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں (التوبہ 5/9)
٭ جہاد فنڈ میں حصہ لینے والوں پر طنز اور مذاق کرتے ہیں (التوبہ 79/9)
٭ دل کی ناگواری اور بوجھل طبیعت سے مال خرچ کرتے ہیں
٭ اسلام کے خلاف ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں ، بڑے چرب زبان اور باتونی ہیں (الاحزاب19)
٭ دنیاوی مال سے اگر کچھ مل جائے تو خوش اور نہ ملے تو منہ لٹکا لیتے ہیں (التوبہ59/9)
٭بالکل بودے ،دیوار کے ساتھ نصب لکڑی کے تراشے ہوئے بت ہیں (المنافقون 4)
٭بے شعور ، خطرے کے وقت ایسے آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو (الاحزاب 19/33)
٭بھلائی کے کاموں میںبخل کرنے والے ہیں (الاحزاب19/33)
٭سخت جھگڑالو ہیں (البقرہ 204/2)
٭گونگے ،بہرے اور اندھے ہیں (البقرہ 18/2)
٭ سخت جھوٹے ہیں (المنافقون 1)
٭جہاد میں جو لوگ مال دیتے ہیں ان کو منع کرتے ہوئے کہتے ہیں :رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )کے سا تھیوں پر مال خرچ نہ کرو (المنافقون )
٭ راتوں کو چھپ کر اسلام کے خلاف مشورے کرتے ہیں (النساء 108/4)
٭شیطان ان کے دلوں پر مسلط ہے جس نے ان کے دلوں سے اللہ کی یاد کو بھلا دیا (المجادلہ 19/58 )
٭جہاد میں شریک ہونے والوں کو فتنہ میں مبتلا قرار دیتے ہیں (التوبہ39)
٭اپنے فسادی عمل کو اصلاح کا نام دیتے ہیں (البقرہ11)
٭نماز کے لئے سست آتے ہیں (النساء 142)
٭لوگوں کو دکھانے کیلئے نماز پڑھتے ہیں (النساء 142)
٭ نماز با جماعت سے پیچھے رہتے ہیں (مسلم ،کتاب المساجدباب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدی 654)
٭ نماز میں ٹھونگے مار کر جلدی بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں (مسلم ،کتاب المساجد ، باب استحباب التکبیر بالعصر 666)
٭وعدہ کرکے پورا نہیں کرتے ۔۔ ۔ ۔ اور
٭ جھگڑے میں گالیاں بکتے ہیں (مسلم ، کتاب الایمان ، باب خصال المنافق 58 )
٭٭٭٭٭
٭٭٭​

قرآن کے مطابق ۔ ۔ ۔ ہمیں۔ ۔ ۔ ہدایت کی طرف لوگوں کو کھینچ کے نہیں لانا ۔ ۔ ۔ بلکہ۔ ۔ ۔
"وما علینا الا البلغ المبین"(القرآن)
اور ہماری ذمہ داری تو صاف (واضح ) بات پہچا دینا ہے۔​

تاکہ عقل و شعور ۔ ۔ ۔ اور سمجھ رکھنے والے۔ ۔ ۔ ہدایت کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اور ان پر حجت تمام ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ ۔ ۔ روز جزا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ کہہ سکیں کہ:
لو کنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحب السعیر (القرآن)
کاش ہم اس وقت سن لیتے اور سمجھ لیتے تو آج جہنم میں نہ پڑے ہوتے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں سمجھنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آمین)
 

خرم

محفلین
سبحان اللہ۔ قرآن کا ہی اعجاز ہے کہ سچ کو لاکھ چھپاؤ باہر نکل ہی آتا ہے۔ لاریب ماھٰذا کلام البشر۔
 
Top