منافقت

نوید ناظم

محفلین
کسی بھی انسان کا عقیدہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ و ہ انسان اپنی زندگی اس عقیدے کے مطابق گزارے۔ کوئی بھی آدمی کسی عقیدے کو اپنانے سے پہلے اس کے ضابطوں سے آزاد ہوتا ہے مگر ایک عقیدہ اختیارکرنے کے بعد اس کے تقاضوں کو نہ نبھانا ایک انتہائی کمزور عمل ہے۔ بقول حضرت واصف علی واصفؒ "عقیدے اور عمل کے درمیان فرق رکھنے والا انسان منافق ہوتا ہے"۔ اگر اس لحاظ سے ہم دیکھیں تو آج ہماری زندگی منافقت کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ عقیدے اور عمل کے تضاد نے جو فساد برپا کر رکھا ہے اس سے آزاد ہونا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ انسان اپنی مرضی سے ایک ایسا عقیدہ اپناتا ہے کہ جس میں جھوٹ بولنا منع ہے مگر پھر وہی انسان جھوٹ بولنا چھوڑتا ہے اور نہ ہی اپنے عقیدے سے بیزار ہوتا ہے۔ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے اور حکمران عقیدے یا کم از کم دعوے کے لحاظ سے مسلمان ہی ہیں۔ مگر اس مسلمانوں کی حکومت میں ایک سچ بولنے والا انسان سروائیو نہیں کر سکتا یا کم از کم اپنی ذمہ داری بغیر ریزسٹنس کے انجام نہیں دے سکتا۔ اصل میں آج کے انسان کا عقیدہ 'مفاد' ہے اور معبود 'فائدہ'۔ اس دور کا انسان شیطان سے پناہ نہیں مانگتا بلکہ نقصان سے پناہ مانگتا ہے۔ حالانکہ یہ بات اس کے عقیدے کا حصہ ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے ایک بات انسان کے لیے بظاہر نقصان دہ ہو مگر اس کے دروں فائدہ ہو۔
آج دودھ کی دکان پر اگر چلیں جائیں تو ایک ہی دودھ کے تین مختلف نرخ لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ فرق دودھ کے لحاظ سے نہیں' بلکہ ملاوٹ کے لحاظ سے ہے۔ جس رسول ِرحمتؐ پر ایمان ہے انھوں نے فرمایا کہ"ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں" مگر رسولؐ کی ذات پر عقیدہ رکھنے والا آپؐ کی بات کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہے۔ کیا ملاوٹ کرنے والے کا رشتہ اسلام سے ویسا ہی ہے جیسا ملاوٹ کرنے سے پہلے تھا؟ اگرہاں تو کیا رسولؐ کی بات نعوذ بااللہ محض فارمیلٹی ہے۔ بات کسی فتوے کی نہیں بلکہ سوچنےکی بات ہے۔ قبلہ واصف صاحب کا ارشاد ہے کہ " وہ انسان اللہ کو نہیں مانتا جو اللہ کا حکم نہیں مانتا" انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی اپنے عقیدے کےمطابق ڈھال لے یا پھر اپنا عقیدہ اپنی زندگی کے مطابق ڈھال لے۔ ممکن ہے اس طرح اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔ کیونکہ جھوٹ کو صرف اسی وقت سچ کی راہ مل سکتی جب اس نے سچ کا لبادہ نہ اوڑھ رکھا ہو۔
 
آخری تدوین:
Top