مناجات ٭ خورشید رضوی

مناجات
٭
کبریائی کی ردا عرشِ بریں پر رکھ کر
بے نیازی کی ادا صرفِ کرم کرتے ہوئے
زینہ زینہ کبھی لاہوت کی رفعت سے اتر

وسعتِ عرصۂ کونین سے کتراتے ہوئے
یوں مرے دل کی جراحت میں سمٹ آ جیسے
جیسے خوشبو کسی غنچے میں سمٹ آتی ہے

ہے مرے ظرف سے باہر تری عظمت کا تضاد
چھوڑ دے میرے لیے اپنے تنوع کا جلال
ایک ہی رنگ میں کچھ دیر مرے پاس ٹھہر

بے زبانوں کے لیے دل میں بھرے پیار کا رنگ
سنگ میں محوِ نمو سبزۂ و کہسار کا رنگ
دل پہ مرہم کی طرح پرسشِ غم خوار کا رنگ

یوں تو تُو کون سے منظر میں نہیں ہے لیکن
میری در مانده سی، محدود سی، محجوب سی آنکھ
بس اسی ایک دریچے میں تجھے مانگتی ہے

٭٭٭
خورشید رضوی
 
Top