غالب ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں -غالبؔ

سعدی غالب

محفلین
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں

ہوں درد مند ، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالہ کشیدہ، گہ اشک چکیدہ ہوں

جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخی غم ِ ہجراں چشیدہ ہوں

نے سبحہ سے علاقہ، نہ ساغر سے واسطہ
میں معرض مثال میں دست بریدہ ہوں

ہوں خاکسار، پر نہ کسی سے ہے مجھ کو لاگ
نے دانہ فتادہ ہوں ، نے دام چیدہ ہوں

جو چاہیے ، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسف بہ قیمت اول خریدہ ہوں

ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلام ِ نغز، ولے ناشنیدہ ہوں

اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے میں ، میں برگزیدہ ہوں

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہوں میں کلام ِ تعز، ولے ناشنیدہ ہوں اس مصرع کو درست کر لیں۔ تعز نہیں نغز ہے۔ آپ کے پیج پر بھی اسی غلطی کی نشاندہی کی تھی میں نے۔
 
Top