ملک میں بے روزگاری سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہونے کا انکشاف

جاسم محمد

محفلین

ملک میں بے روزگاری سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہونے کا انکشاف

ویب ڈیسک پير 27 ستمبر 2021

حکومت کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد ہے لیکن درحقیقت یہ 16 فیصد ہے، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس

حکومت کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد ہے لیکن درحقیقت یہ 16 فیصد ہے، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس

اسلام آباد: سینیٹ کی کمیٹی برائے منصوبہ بندی وترقی کے اجلاس کے دوران ملک میں سرکاری اعداد و شمار سے ڈھائی گنا زیادہ بے روزگاری کا انکشاف ہوا ہے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کا اجلاس ہوا، جس میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس کی جانب سے ملک میں بے روزگاری سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں حکام نے بتایا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد ساڑھے 6 فیصد ہے لیکن ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 16 فیصد ہے، ملک میں 24 فیصد پڑھے لکھے افراد بے روزگار ہیں، ملک میں 40 فیصد پڑھی لکھی خواتین بے روزگار ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ بعض لوگ نوکری نہ ملنے کے باعث ایم فل وغیرہ میں داخلہ لیتے ہیں، ان افراد کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوتا اس لئے وہ مزید پڑھتے رہتے ہیں، ہائی کورٹ میں ایک چپڑاسی کی نوکری آئی جس کے لئے ڈیڑھ لاکھ افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، ان میں ایم فل کرنے والے افراد بھی تھے۔
حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کوئی تحقیق نہیں کر رہی، ملک میں تحقیق کے لئے بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئی ہیں لیکن اندر کچھ نہیں ہو رہا، ساری ریسرچ باہر بیٹھا گورا کر رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے ملک میں بیروزگار افراد کے حوالے سے حکام سے مزید تفصیلات مانگ لیں۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے ملک میں ریلوے کی خراب صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی ارکان کا کہنا تھا کہ ملک میں ریلوے کی خراب صورتحال ہے، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ریلوے اپنے ادارے کو خود تنخواہ نہیں دیتا، ریلوے ملازمین کی تنخواہیں وزارت خزانہ دیتی ہے، جس پر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس کے حکام نے کہا کہ ریلوے کو کمرشل انداز میں نہیں چلایاجارہا، ملک میں ریلوے کو سول سروس کی طرح چلایا جا رہا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
اعداد و شمار کی بنیاد پر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور اگر حساب کتاب ہی غلط ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچیے۔ پڑھے لکھے افراد کو محض سرکاری نوکری کے حصول کی دوڑ سے باہر نکلنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں نوابی کلچر ہے۔ رفتہ رفتہ اسے ترک کرنا ہو گا۔
 

زیک

مسافر
بے روزگاری کو ماپنے کے کئی طریقے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں labor force participation rate شاید بہتر شمار یہ ہو
 
Top