ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم (معین اختر کا انٹرویو)


میرا خیال تھا کہ معین اختر سے رابطہ کرنا ایک تھکا دینے والا کام ہوگا کیونکہ سننے میں آیا تھا کہ وہ مصروف انسان ہونے کے علاوہ کافی بد اخلاق بھی ہیں۔

لیکن ان کے ناقدین کے یہ دعوے غلط ثابت ہوئے۔

مجھے کہا گیا تھا کہ ان سے رات بارہ بجے تک رابطہ کروں اور یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی کہ انہوں نے میرے فون کا جواب خود دیا۔

معین کے لہجے میں کہیں بھی بداخلاقی کا عنصر نہیں تھا اور انہوں نے اپنے مسحور کن اندازِ گفتگو میں مجھے پانچ دن بعد کا وقت دے دیا۔

ملاقات کے لیے رات دس بجے کا وقت طے ہوا جو معمول سے ہٹ کر تھا لیکن میں نے اس پر اتنا دھیان نہیں دیا کیوں کہ انہوں نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ دن میں وقت ملنا ممکن نہیں۔

جب میں مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچی تو ان کو اس وقت بھی کام میں مصروف ہی پایا۔ ویٹنگ روم میں پہلے ہی تین افراد براجمان تھے۔

یہاں ان کے مخصوص ویٹنگ روم کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

کمرہ میں ہر طرف آئینے ہی آئینے لگے ہوئے تھے دیواروں، صوفوں اور سائیڈ ٹیبل غرض کوئی جگہ آئینوں سے خالی نہ تھی، اور جو جگہیں بچ گئی تھیں وہاں سیاہ اور ڈارک گرے رنگ نمایاں تھا۔

مجھے اس گھر کے رہائشی حصّے کی طرف جانے والی چکّر دار سیڑھیوں کا سفر نہیں بھولتا، جہاں میرا سامنا ایک بڑے سائز کے پنجرے میں بند انتہائی غصّے دار بندر سے ہوا۔

اس کی غیر مانوس چیخ اور پنجرے کے دروازے کی طرف لپکنے کی وجہ سے میں ان چکّر دار سیڑھیوں سے گرتے گرتے بچی، شکر ہے کہ پنجرے کا دروازہ لاک تھا۔

معین اختر کے ساتھ اس غیر روایتی ملاقات نے مجھے ہمارے ملک کے صف اول فنکار کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

معین اختر نے بحیثیت کمپئر اور کامیڈین اونچا مقام حاصل کیا ہے- مشکل سے مشکل مزاحیہ کردار خوبصورتی کے ساتھ ادا کرنے میں ان کا جواب نہیں۔

جس نے کتنے ہی انٹرویوز میں لوگوں کو لاجواب کر دیا، جس نے بہت عام موضوعات میں بھی مزاح کا عنصر ڈھونڈ لیا- جس کے نام کو طنز و ظرافت کے ہم معنی لیا جاتا ہے۔

کیا ان کی شوبز میں آمد حادثاتی تھی ؟ مجھے نہیں لگتا ‘حادثہ’ اس شخص کی کار کردگی کے لئے ایک مناسب لفظ ہے- اسے قسمت کا کھیل کہا جا سکتا ہے مگر ایک اتفاق ہرگز نہیں۔

وہ 24 دسمبر 1950 میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے ابتدائی سالوں میں اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ دینا ان کے لئے ایک مشکل سمجھوتہ تھا۔

‘میں ایک قابل طالب علم تھا ، لیکن مجھے اپنی فیملی کو سہارا دینے کے لئے کم عمری میں ہی عملی زندگی میں آنا پڑا، اور اپنی خواہشات کو کچل کر اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی’۔

معین کے لہجے میں افسوس کے آثار صاف محسوس ہورہے تھے جب انہوں نے بتایا کہ:میں اسکول چھوڑنے لگا تو پرنسپل صاحب نے میرے والد کو پیشکش کی کہ میرے اسکول اور کالج کا خرچہ وہ اٹھائیں گے۔

ان کا اصرار تھا کہ میری قابلیت مجھے بہت آگے لے جائے گی، لیکن میرے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا اور میں نے سب چھوڑ دیا’۔

معین میٹروپولیٹن سیکنڈری اسکول کے طالب علم تھے جہاں وہ آرٹس اینڈ کرافٹ سوسائٹی کے سیکرٹری ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی اور مباحثہ سوسائٹی کے صدر بھی تھے۔

انہوں نے ڈرامہ ‘مرچنٹ آف وینس’ میں ‘شائی لاک’ کا کردار کیا تھا۔ جس سکول کا ذکر وہ اتنے شوق سے کر رہے تھے وہ اب نہیں رہا۔

‘کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں پرانی عمارتوں کی قدر نہیں کی جاتی، خاص طور سے اسکولوں کی، ایک بہترین ادارے کی جگہ کئی منزلہ عمارت کھڑی کر دی گئی ہے’۔

زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی تعلیم سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے ان کی زندگی میں خلاء سا پیدا ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے ان کے جذبات بھی کافی شدید تھے۔

اسٹیج سے باہر وہ ایک سنجیدہ سوچ رکھنے والے انسان ہیں- لیکن کچھ موضوعات پر ان کے خیالات خلاف توقع ہیں- اقتصادیات اور کرپشن کے حوالے سے ہماری سوسائٹی کی بگڑتی ہوئی حالت کا ذمہ دار وہ عوام کو ٹھراتے ہیں۔

‘ہم حکومت کو الزام کیوں دیں، ہم خود ایک فرد کی حیثیت سے اس ملک کے لئے کیا کر رہے ہیں؟’

یہ بات تو واضح ہے کہ اپنے ملک کے لیے معین کے جذبات بہت سچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کے لئے ، اپنے چاہنے والوں کے لئے خود کو مثال بنانے کی کوشش کی ہے۔

‘الله کا احسان ہے کہ اس نے مجھے عزت عطا فرمائی لیکن میں نے کبھی اپنی شہرت کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا’

‘میں اپنے تمام ٹیکس ادا کرتا ہوں، تمام بل ادا کرتا ہوں، میرے جو بھی اثاثے ہیں، وہ سب سامنے ہیں۔ میں فقط اپنے آپ کو اس ملک کا ایک قابل شہری بنانا چاہتا ہوں۔’

یقیناً کامیابی معین اختر کے سر پہ نہیں چڑھی- انہوں نے بہت سے سربراہان مملکت کے لئے پرفارم کیا اور ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے لیکن کبھی بھی اپنی شہرت کو استعمال نہیں کیا۔

پرائڈ آف پرفارمنس معین اختر کو ٹیکساس اور ڈیلاس کی اعزازی شہریت بھی ملی۔ ان کا نام امریکن بائیوگرافیکل انسٹیٹیوٹ کے ساتویں ایڈیشن کے لئے بھی منتخب کیا گیا۔

تعلیم چھوڑنے کے بعد انہوں نے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ معراج اینڈ کمپنی کے لئے بطور سرویئر اور ثنا اللہ وولن ملز کے لئے بطور ریسپشنسٹ کام کیا۔

‘مجھے ایک چیز کی تلاش تھی، جس نے مجھے ہمیشہ بے چین کیے رکھا شاید وہ شوبز میں کام کرنے کی خواہش تھی’۔

‘ہاں، میں انگلش فلموں کا شوقین تھا اور جیری لیوس اور اسٹیومک کوئین سے ملنا چاہتا تھا لیکن خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ یہی میرا پیشہ بنے گا’

‘اپنی فیملی کو سہارا دینے کی خواہش اور اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کی خلش نے مجھے میری پہچان کروائی، سب سے بڑی بات یہ کہ میرے الله نے میری پہچان کروائی’۔

معین اختر خود اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ اس میدان میں بہترین ہیں: بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پہلی بار بہترین پرفارمنس دی اور پھر ان سے ہر بار ویسا ہی کردار ادا کرنے کی امید رکھی گئی جس کی وجہ سے وہ کبھی اس کردار کے خول سے باہر نہ آسکے’۔

‘جمشید انصاری کی مثال لے لیں انہوں نے انکل عرفی میں بہترین اداکاری کی اس کے بعد ان سے ایسے ہی کردار کروائے گے یا عرفان کھوسٹ کو لے لیں، وہ کبھی بھی ‘ڈریکٹ حوالدار’ کے کردار سے باہر نہ آ سکے’۔

‘میرے پیارے دوست بمبئی کے امجد خان کو بھی یہی شکایت تھی کہ لوگ انہیں صرف مشہور زمانہ شعلے کے گبّر سنگھ کے حوالے سے یاد کرتے ہیں’

‘یہ سب میرے ساتھ بھی ہوا ہے، میرے نقادوں کے خیال سے روزی میرا بہترین کردار تھا’۔

دو سال تک سلور سکرین پر پابندی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: یہ ایک متعصبانہ فیصلہ تھا، پی ٹی وی کی سابق ایم ڈی رانا شیخ کو میں ناپسند تھا۔

‘پابندی کے عرصے میں، میں کبھی بھی ٹی وی سٹیشن نہیں گیا- کچھ عرصے بعد رانا شیخ کو نئی حکومت نے ہٹا دیا اور مجھ پر سے پابندی ختم ہو گئی’- میں ہمیشہ سے حوصلہ مند اور با مقصد انسان رہا ہوں لیکن اپنے مقصد کے حصول کے لئے کبھی بھی اپنی حد سے باہر نہیں گیا’۔

دوستوں کے اصرار پر معین نے اپنی اداکاری کے کچھ نمونے ہالی وڈ کے ایک ایجنٹ کو بھی بھیجے تھے جو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک شخص اتنے سارے کردار بھی ادا کر سکتا ہے-

ایجنٹ نے اسی وقت انہیں ہالی وڈ آنے کی دعوت دی، لیکن اس پورے عمل کا مطلب ان کو اپنے ملک سے کم از کم ایک سال دور رہنا پڑتا، اس لئے انہوں نے معذرت کر لی۔

معین کا کہنا تھا کہ ‘اِس وقت انہیں جو کچھ بھی چاہیے پاکستان میں مل رہا ہے’۔

شاید ہم نے جیری لوئس کی پرفارمنس جیسا موقع کھو دیا۔

معین اختر کو اکیلے رہنا پسند ہے۔ ان کا کہنا ہے جب وہ کام نہیں کر رہے ہوتے تو گھر سے کم ہی باہر نکلتے ہیں۔

شاید ان کے بائی پاس آپریشن نے زندگی کے حوالے سے ان کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔

ایسا نہیں کہ وہ اب اپنی صحت کا بہت خیال رکھنے لگے ہیں۔ جب تک میں وہاں موجود رہی وہ سگریٹ پہ سگریٹ پیتے جا رہے تھے۔

معین کو ایک چیز سے سخت نفرت ہے اور وہ ہے ایک ساتھی فنکارہ کے ساتھ ان کا اسکینڈل۔

‘میں نے ہمیشہ ایمانداری اور خلوص کے ساتھ کام کیا اگر کسی کو میرا کام پسند نہیں تو وہ میرے کام پر نکتہ چینی کریں۔ اس طرح کے جھوٹے بہتان نے میری زندگی تباہ کر دی اور میں اسے کبھی معاف نہیں کر سکتا’۔

میری کوشش تھی کہ میں معین کے بارے میں کچھ اور بھی جان سکوں اور مجھے ان کے بارے میں دو باتیں معلوم ہوئیں۔

‘میں اپنی سوانح عمری لکھ رہا ہوں، ‘میری زندگی، میری کتاب’۔ یہ اردو اور انگلش دونوں میں شائع ہوگی- یہ ایک سستی کتاب ہوگی تاکہ ہر کوئی اسے پڑھ سکے’۔

معین کا دوسرا کارنامہ ان کا میوزک البم ہے جو جلد ریلیز ہوگا۔

اپنے انٹرویو میں پہلی بار ان تھکی ہوئی آنکھوں میں میں نے ایک چمک دیکھی جب انہوں نے اپنی موسیقی کے حوالے سے مجھے بتایا۔

‘آپ پہلی صحافی ہیں جن کو میں یہ بتانے جا رہا ہوں کہ میں نے 78 گانے ریکارڈ کئے ہیں جنہیں میں نے خود لکھا اور موسیقی بھی ترتیب دی۔ اس وقت یہ میرا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ ہے-

مجھے ایک صحافی کی حیثیت سے ان کی موسیقی سننے کا اعزاز حاصل ہوا اور میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اپنا کام کتنا ڈوب کر کررہے ہیں۔

انہوں نے اپنے آپ کو موسیقی میں بالکل گم کر لیا تھا اور یہ ایک مسحور کن منظر تھا۔

جو گانے انھوں نے بنائے ہیں وہ ہلکا پھلکا پاپ اور ٹو ٹیپنگ بیٹس کی ایک قسم ہیں۔

یہ تو ابتدائی ریکارڈنگ تھی، پوری ریلیز کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔

لیکن ایک بات جو بالکل واضح تھی وہ یہ کہ انہوں نے یہ کام پوری لگن کے ساتھ کیا ہے اور اس کی کامیابی ان کے لئے بہت معنی رکھتی ہے۔

‘میں نے پوری زندگی جدوجہد کی ہے، میں آج بھی کر رہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا- مجھے اپنے کام پر کوئی افسوس نہیں ہے کیوں کہ میرے دوستوں نے، میرے چاہنے والوں نے اور میرے مخالفوں نے ہمیشہ میرے ساتھ اچھا سلوک کیا’۔

‘جو لوگ میرے مخالف ہیں انہوں نے بھی مجھے عزت دی ہے اور میرے کام کو سراہا ہے اور میں پھر الله کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اتنی کامیابیاں دی ہیں’۔

اور یہ ایک حقیقت ہے معین اختر کہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا، لوگ صرف اس کا خواب ہی دیکھ پاتے ہیں۔

ترجمہ: ناہید اسرار
بشکریہ ڈان اردو
ربط
http://urdu.dawn.com/pakistani-actor-moin-akhtar-special-sa/
 

معین اختر کو ہم سے بچھرے آج دو سال ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی اپنے شائقین کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ ان کا شمارملک کے ان چند اداکاروں اور پرفارمرز میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ رہ جانے والے کردارادا کر کے پاکستان کا نام قومی اور بین الاقوامی سطح پر روشن کیا۔

معین اختر نے پاکستان میں نقل کے فن کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی پہلی پرفارمنس ڈاؤ میڈیکل کالج میں کی جہاں سے ان کو مزید پرفارمنس کی پیشکش ہوئی۔ یہیں سے ان کو اندازہ ہوا کہ وہ اپنے فن کو اپنا پیشہ بھی بنا سکتے ہیں۔

“میرے والدین اور دوستوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ ان کے خیال میں یہ ایک بہت ہی نایاب فن تھا۔ میں نے تقریباً سب ہی کی نقل اتارنی شروع کردی اورمیں جلد ہی اسے کام کی طرح کرنے لگا۔”

اپنی نجی زندگی میں درپیش مالی مسائل کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ ان کے والد نے اپنے بیٹے کے شوق کو دیکھتے ہوئے اپنے دوست اور فلم میکر ایس ایم یوسف سے فلم ‘ہونہار’ میں ان کا تعارف کرایا۔



اس کے بعد ٹیلیویژن میں ان کا تعارف 1968 میں خاتون اداکار سنتوش رسیل نے پی ٹی وی کے سید امیر امام سے کروایا۔

اس تجربے پر معین اختر کہتے ہیں “میں مسلسل محمد علی، وحید مراد اور لہری کو کاپی کرتا رہا اور امام صاحب مجھے ڈانٹتے رہے کہ تم خود کیا ہو بس وہ دکھاؤ۔ قاضی واجد میری اس ساری شرمندگی کے گواہ تھے اور مجھے یقین تھا کہ میں دوبارہ کبھی یہاں قدم نہیں رکھوں گا۔”

معین اختر نے اپنی فنی قابلیت کا کریڈٹ ضیا محی الدین کو دیا۔ ان کے مطابق، ضیا محی الدین نے اس فن میں ان کی کافی تربیت کی اور اس کے لئے وہ ان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔



معین اختر کی یاد گار پرفارمنس میں سٹوڈیو ڈھائی، سٹوڈیو پونے تین، چار بیس، سچ مچ، ہاف پلیٹ، آنگن ٹیڑھا، فیملی نائنٹی تھری، اور غیر معمولی پزیرائی حاصل کرنے والا ڈرامہ روزی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے انور مقصود کے ساتھ کام کو بھی بہت سراہا گیا اور ‘لوز ٹاک’ جیسے شوز کافی عرصے تک شائقین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

سادہ اور شائستہ طبیعت کے مالک، معین اختر لکھنے کے بھی شوقین تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنا اچھا امیج دکھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی طرف سے ان کے فن کی پزیرائی اور معاشرے میں ایسے نہ بھلائے جانے والے کردار ادا کرنے پرانہیں 1992 میں پرائڈ آف پر فارمنس اور2004 میں ستارہ امتیاز سے اور2013 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

نوٹ: یہ مواد ہیرلڈ کے دسمبر 1971 شمارے اور دی ریویو (دسمبر 27- 21، 2006) میں شائع ہو چکا ہے۔

ترجمہ: ہانیہ جاوید
ربط
http://urdu.dawn.com/pakistani-actor-moin-akhtar-special-sa/
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی ذات میں ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا یہ بندہ۔ بہت ہی منفرد قسم کا انسان تھا۔ حق مغفرت کرے۔

بہت شکریہ شاہ جی شریک محفل کرنے کا۔
 
اپنی ذات میں ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا یہ بندہ۔ بہت ہی منفرد قسم کا انسان تھا۔ حق مغفرت کرے۔

بہت شکریہ شاہ جی شریک محفل کرنے کا۔
آمین
بلاشبہ معین اختر جیسے فنکار ملک اور قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں
 
Top