"ملنگ"

ہاتھوں سے کشکول نے پوچھا
کتنے در باقی ہیں
اس بستی میں کتنے گھر باقی ہیں
کب وہ دروازہ آئے گا
اور درشن دیتی ہوئی آواز کھلے گی
کب پانی کو آگ لگے گی
کب وہ اپنے سرخ لبوں کو کھولے گی
اور بولے گی
’’دیکھ ملنگا‘‘
اور ملنگ کی فطرت ہے جب یار کو دیکھنے لگتا ہے
تو ہاتھوں سے کشکول اچانک گر جاتا ہے
اور آنکھوں میں آجاتا ہے
آنکھوں کو کشکول بنائے دیکھ ملنگا کی آواز کو دیکھنے والا کیا بولے گا
خاموشی کو بھیک ملے گی
اس کے ماتھے کے درشن سے آنکھوں کا کشکول بھرے گا
اور ان قدموں کی خیرات سے حکم ملے گا
دھرتی میں کب سیر کرو گے
آسمان پر چلنے کی دھن میں تم یکسر بھول چکے ہو
دھرتی جو قالین کی صورت بچھی ہوئی ہے
اس میں اترو ، پاؤں دھرو اور تازہ رستے آپ بناؤ
یہ سننا تھا اور ملنگ نے مٹی کی اک دوری لی
دوری میں کچھ کوٹا، رگڑا اور علی کا نعرہ مارا
تھوڑی دیر میں دھرتی کے اندر کے سارے روگ
ملنگ کے اندر تھے
اور ملنگ نے ہریالے نشے کی سرخی آنکھ میں رکھی
کاندھے پر وہ بوری لادی
جس میں اس کے بھید اور بھاؤ رکھے تھے
سر پر اُس پگڑی کو گھمایا
جس میں گھومتی دنیا کے بل پڑے ہوئے تھے
کپڑے جھاڑے
تھوڑے اور زیادہ پھاڑے
چیخ کہیں سینے کے اندر دفنائی
اور مصرع گایا
’’شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں توں بھارے ھو‘‘
 

شمشاد

لائبریرین
اور ملنگ کی فطرت ہے جب یار کو دیکھنے لگتا ہے
تو ہاتھوں سے کشکول اچانک گر جاتا ہے

کیا بات ہے۔ یار کو دیکھنے کے بعد ہوش ہی کسے رہتا ہے۔

خوبصورت شراکت۔
 
Top