ملم جبہ کی سیر

نایاب

لائبریرین
بہت شکریہ شراکت پر اور بہت دعائیں عبداللہ شہزادے کے نام
جس کی ضد نے گھر بیٹھے " وادی جنت نظیر " کر سیر کروائی ۔
1980 کا ان علاقوں میں گزرا زمانہ نگاہوں میں گھوم گیا ۔
بلا شبہ جتنے خوبصورت یہ علاقے ہیں اتنے ہی خوبصورت سادہ دل اخلاص کے پیکر لوگ ہیں یہاں کے ۔
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ نایاب بھیا ۔ یہ تو پہلے آپ آئے تھے۔ اب تو دوسرا چکر بنتا ہے :)
ان شاءاللہ
میری بٹیا نے مجھ سے وعدہ لیا ہوا ہے کہ
جب بھی وہ کسی کلاس میں فرسٹ پوزیشن لے گی ۔
مجھے اس کی پسند کی جگہ دکھانا ہو گی ۔
مری گھوم چکی ہے دو سال پہلے ۔
برف و بادل بہت پسند ہیں اسے ۔
اللہ اسے سدا کامیاب و کامران کرے آمین۔ جب بھی میں پاکستان آیا ان شاءاللہ چکر لگے گا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی لفطی سیر کروائی ہے۔ تصاویر کی کمی کسی حد تک تمہاری تحریر سے پوری ہو گئی لیکن تشنہ ہی رہی۔
 

منصور مکرم

محفلین
لو جی سفر نامے پر تو تبصرہ ہی نہیں کیا،بس ایویں باتیں کرنے لگ گئے۔

کھانا بنانے سے فارغ ہوئی تو نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ عبد اللہ کو نہلا دھلا کر مسجد جمعہ پڑھنے بھیج دیا اور خود جلدی جلدی نماز پڑھی۔ پڑھ کر فارغ ہوئی ہی تھی نانا اور نواسا بھی پہنچ گئے۔

ماشاءاللہ ہمارا پیارا شھد کا ۔۔۔ ۔ کتنی عمر ہوگئی ،عبد اللہ کی۔؟

ملم جبہ جسے عام طور پر مالم جبہ لکھا جاتا ہے، منگورہ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ کالام کے بعد سوات کا سے اونچااور ٹھنڈا ترین مقام ہے ۔ اس کی بلندی 8530 فٹ ہے۔ منگورہ سے فضا گٹ پارک کے راستے بحرین اور کالام جاتے ہوئے منگلور کے تاریخی گاؤں کے مقام پر ملم جبہ کے لئے سڑک جدا ہوجاتی ہے۔ یہاں سے ملم جبہ صرف 32 کلومیٹر ہے مگر اس 32 کلومیٹرکو طے کرنے مین تقریباً سوا گھنٹہ لگتا ہے۔ کیوں کہ سڑک تنگ بھی ہے اور پر پیچ موڑوں کے وجہ سے خطر ناک بھی۔

کھر سے نکلے تو مدین روڈ، شاہدرہ اور حیات آباد سے ہوتے ہوئے فضا گٹ پارک کے ساتھ دریائے سوات کے کنارے سنگوٹہ پہنچے ، سنگوٹہ وہی جگہ ہے جہاں سنگوٹہ پبلک سکول میں ہم نے چند سال پڑھائی کی۔ 2008 میں طالبان نے یہ کانونٹ سکول تباہ کر دیا ۔ اس کا نوحہ میں نے محفل پر کسی جگہ لکھا تھا۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ یہ سکول وہی آئریش انتظامیہ کے زیر انتظام دوبارہ کھل گیا ہے۔

سنگوٹہ سے ایک کلومیٹر آگے منگلور کے تاریخی گاو ں کا پل پار کیا کالام روڈ کو چھوڑ کر ملم جبہ روڈ پر موڑ گئے۔

عجیب اتفاق یہ کہ کل رات صبح کی نماز تک میں نیٹ گردی کرتا رہا ،اور وہ بھی گوگل میپ پر۔

اور یہ تو پوچھیں کہ کونسا نقشہ دیکھ رہے تھے؟

تو جناب میں نے اس سارے راستے کو گوگل میپ میں دیکھ رہا تھا،اور یہ حیات آباد کا علاقہ بھی گوگل میپ میں دیکھا ،تو حیران ہوا کہ یہی نام کا علاقہ پشاور میں بھی پایا جاتا ہے۔

اور نقشہ دیکھتے دیکھتے میں مالم جبہ پی ٹی ڈی سی ہوٹل تک پہنچ گیا تھا، اور گوگل میپ کے پر پیچ موڑ دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ سڑک واقعی پُر پیچ ہے۔

چونکہ میں چند روز قبل منڈا پُل پر گیا ہوا تھا ،اور وہاں کی تصاویر بھی نکالی ہیں لیکن وہاں جو دریا ہے تو اسکے بارئے میں تردد ہوا تھا کہ وہ کونسا دریا ہے، گوگل میپ میں دریائے سوات کا نقشہ دیکھا کہ کہاں سے ہوکر آتا ہے،اور پھر دریاے کابل سے ملتا ہے۔

منڈا میں واقعی دریا سوات کا پانی تھا،اور آگے سڑک ختم تھی جو میں نے بھی آپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

بہر حال یہ سارئے علاقے فضاء گٹ ،مینگورہ بائی پاس ،کانجو ٹاون شپ،ائیر پورٹ اور اسی روڈ پر آگے کے علاقے سب کی انٹر نیٹی سیر کرچکا،بلکہ اسکے علاوہ مردان وغیر بھی بھی ایک انٹرنیٹی جائزہ لیا کہ وہاں گیا تو ہوں ،لیکن سڑکوں کا زیادہ علم نہیں تھا۔

آج دیکھا تو اسی بارئے آپکا سفر نامہ بھی پڑھا۔۔

بہت خوب۔ زبردست
 
آخری تدوین:

منصور مکرم

محفلین
اب آپ نے ذکر چھیڑ دیا ہے تو ہم بھی ماضی کے دریچوں کو کھولتے ہیں ،کہ جس دن اس ہوٹل کو جلا یا گیا تھا،تو میں اسوقت گاؤں میں تھا اور
جیسے ہی عشاء کی نماز کیلئے باہر نکلا تو قریبی ہمسائے نے بتایا کہ آج مالم جبہ والے ہوٹل کو جلایا گیا ہے۔
 
آہا کیا یاد دلادیا جیہ بٹیا آپ نے اس دلچسپ روداد سے۔ بہت مزیدار لکھا ہے ۔ پڑھتے پڑھتے پہلے تو روسٹڈ چکن کے مزے لیے اور پھر ہم خود ملم جبہ ( جسے ہم خود آج تک مالم جبہ لکھتے اور کہتے آئے ہیں) پہنچ گئے۔ یہ واقعہ آج سے پچیس سال پہلے کا ہے جب ہم چاند کو شہد لگا کر چاٹنے گئے تھے اور مری کی سیر سے فارغ ہوکر پنڈی سے سیدھے سوات کے شہر مینگورہ پہنچے اور ایک خوبصورت ہوٹل میں قیام کیا۔ اس تین روزہ قیام کے دوران ہم میاں بیوی نے ایک دن کالام، ایک دن ملم جبہ اور تیسرے دن والئیِ سوات کا سفید محل دیکھنے گئے۔ ایک دن راستے میں فضا گٹ پارک میں بھی کچھ وقت گزارا تھا۔ ہوا یوں کہ پہنچتے ہی ایک ٹیکسی ڈرائیور نذیر سے ملاقات ہوگئی اور تینوں دن اسی کے ساتھ وادیِ سوات کی سیر کرتے رہے۔

خصوصاً ملم جبہ کا سفر تو بہت ہی یادگار سفر ثابت ہوا۔ پہنچتے ہی ایک نہایت عالیشان زیرِ تعمیر عمارت کے سائے میں گاڑی روکی اور اسے غور سے دیکھا کیے ، نذیر نے بتایا کہ یہ ایک ہوٹل بن رہا ہے ۔ اسی ہوٹک کے قریب کئی کھمبوں پر لفٹ چیر لٹکی ہوئی تھیں ۔ یہ سب ابھی زیرِ تعمیر ہی تھا۔ ان نظاروں کو دیکھتے ہوئے نذیر ہمیں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ پر چڑھا لے گیا۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا۔ سوات میں بھی سوائے کالام کے کہیں اور برف نظر نہیں آئی تھی، لیکن یہ پہاڑ پورے کا پورا برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ برف سے ڈھکے اس پہاڑ پر چڑھنا ہمیں بہت مزیدار لگ رہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ ڈر بھی لاحق تھا کہ واپس کیسے اُتریں گے۔ ادھر نذیر ہمیاری ہمت بندھائے ہوئے ہمیں اوپر تک چڑھا لے گیا۔ اوپر پہنچ کر تو ہماری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے ہی رہ گئی۔ اب تو اس ڈھلوان پہاڑ سے نیچے اترنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ کیا نیچے اُترنے کے لیے کوئی اور راستہ ہے؟ ہم نے نذیر سے پوچھا تو وہ ہنسنے لگا۔ اس نے کہا
’’ میں ابھی آپ کو نیچے اُترنے کا ایک آسان راستہ بتا دیتا ہوں۔‘‘
پھر وہ دونوں پاؤں سامنے نیچے کی جانب پھیلاکر برف پر بیٹھ گیا اور ہمیں بھی اسی طرح بیٹھ گئے اور دونوں ہاتھوں کو چپوؤں کی طرح چلاتے ہوئے نیچے کی جانب پھسلنے لگے۔ ہمیں اوپر پہنچنے میں کوئی آدھ گھنٹے سے زیادہ لگ گیا تھا لیکن واپس ہم منٹوں میں اُتر آئے۔

بعد میں خبروں میں پڑھتے کہ ملم جبہ پر اس جگہ پی ٹی ڈی سی کا ایک عالیشان ہوٹل اور اسکی ریسورٹ بن گیا ہے تو پھولے نہ سماتے کہ یہ پہاڑ تو ہم نے زمین پر ہاتھوں پیروں سے اسکی کرتے ہوئے سر کیا ہے۔ دوبارہ ادھر جانا نہ ہوا لیکن یہ علاقہ اپنے حسین ترین نظاروں اور نذیر سمیت بہت یاد آتا ہے۔

پھر طالبان نے اس ہوٹل اور اسکی ریسورٹ کو تباہ کردیا تو ہمیں بہت افسوس ہوا کہ اب کبھی ہم دوبارہ اس جگہ کو نہ دیکھ پائیں گے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
میرا بھائی اینڈس ویلی (اسکول آف ڈئیزائین) کی طرف سے گیا تھا یہاں تو سوات کا قصیدہ جو وہ شروع کرے تو
ختم اس پرہوتا ہے ------ تمھیں وہاں ضرور جانا چاہیے :)
ماشاءاللہ زبردست تصاویراورمعلومات
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب ، بہت عمدہ ۔۔۔ خوبصورت سفر ، عمدہ روئیداد ۔ مابدولت خوش ہوئے ۔ آخری بار میں یہاں 1991 میں آیا تھا ۔ چھوٹا تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ یاد نہ ہو ۔ اس روئیداد میں چونکہ تصاویر نہیں تھیں اس لیئے پڑھتا رہا اور تصور میں وہی مناظر سامنے آتے رہے جو کبھی یہاں دیکھے تھے ۔ خوش رہو ۔
کہتے ہیں کہ جس طرح بیماریاں نسل در نسل منتقل ہوتیں ہیں ۔ بلکل اسی طرح یادیں بھی منتقل ہوتیں ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے کئی مقامات پر یہی محسوس ہوا کہ یہ میں نے پہلے بھی کہیں دیکھے ہیں ۔
 

جیہ

لائبریرین
لو جی سفر نامے پر تو تبصرہ ہی نہیں کیا،بس ایویں باتیں کرنے لگ گئے۔



ماشاءاللہ ہمارا پیارا شھد کا ۔۔۔ ۔ کتنی عمر ہوگئی ،عبد اللہ کی۔؟



عجیب اتفاق یہ کہ کل رات صبح کی نماز تک میں نیٹ گردی کرتا رہا ،اور وہ بھی گوگل میپ پر۔

اور یہ تو پوچھیں کہ کونسا نقشہ دیکھ رہے تھے؟

تو جناب میں نے اس سارے راستے کو گوگل میپ میں دیکھ رہا تھا،اور یہ حیات آباد کا علاقہ بھی گوگل میپ میں دیکھا ،تو حیران ہوا کہ یہی نام کا علاقہ پشاور میں بھی پایا جاتا ہے۔

اور نقشہ دیکھتے دیکھتے میں مالم جبہ پی ٹی ڈی سی ہوٹل تک پہنچ گیا تھا، اور گوگل میپ کے پر پیچ موڑ دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ سڑک واقعی پُر پیچ ہے۔

چونکہ میں چند روز قبل منڈا پُل پر گیا ہوا تھا ،اور وہاں کی تصاویر بھی نکالی ہیں لیکن وہاں جو دریا ہے تو اسکے بارئے میں تردد ہوا تھا کہ وہ کونسا دریا ہے، گوگل میپ میں دریائے سوات کا نقشہ دیکھا کہ کہاں سے ہوکر آتا ہے،اور پھر دریاے کابل سے ملتا ہے۔

منڈا میں واقعی دریا سوات کا پانی تھا،اور آگے سڑک ختم تھی جو میں نے بھی آپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

بہر حال یہ سارئے علاقے فضاء گٹ ،مینگورہ بائی پاس ،کانجو ٹاون شپ،ائیر پورٹ اور اسی روڈ پر آگے کے علاقے سب کی انٹر نیٹی سیر کرچکا،بلکہ اسکے علاوہ مردان وغیر بھی بھی ایک انٹرنیٹی جائزہ لیا کہ وہاں گیا تو ہوں ،لیکن سڑکوں کا زیادہ علم نہیں تھا۔

آج دیکھا تو اسی بارئے آپکا سفر نامہ بھی پڑھا۔۔

بہت خوب۔ زبردست
شکریہ جی۔ عبداللہ کی عمر اب 5 سال ہے
 
Top