ملت اسلامیہ کیخلاف مذموم اسرائیلی کارروائیاں

صرف علی

محفلین
ملت اسلامیہ کیخلاف مذموم اسرائیلی کارروائیاں
اسلام ٹائمز: وطن عزیز پاکستان جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، یہاں بھی موساد کے پوری طرح سرگرم ہونے کے ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہی میں سکیورٹی اداروں نے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے ایک اسرائیلی ایجنٹ کو گرفتار کیا ہے۔ پاکستانی نژاد اسرائیلی ایجنٹ کی عمر 38 سال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹر ڈگری ہے۔ جس کے قبضے سے پاکستان کی حساس تنصیبات کے نقشے، جدید ہتھیار، خفیہ کیمرے و رابطے کے آلات، سیٹلائٹ نیٹ ورک جدید ڈیوائسز، لیپ ٹاپ، تکنیکی ماہرین کی تفصیلات برآمد ہوئیں ہیں۔ لیپ ٹاپ سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق یہ ایجنٹ یروشلم بیس کمپنی کا ملازم ہے، جو کہ بظاہر تعمیر و ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔

تحریر: عمران خان
کتنی عجیب بات ہے کہ شام کی سکیورٹی فورسز پر اسرائیل فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور زمین پر نام نہاد جہادی شام کے عوام کو نشانہ ستم بنائے ہوئے ہیں۔ بشار الاسد حکومت کے خلاف امریکہ، اسرائیل، مغرب اور عربوں نے ہر حربہ اور اپنا ہر پرزہ آزمایا ہے۔ مغربی میڈیا ہو یا اسلامک۔ بشار الاسد حکومت کے خلاف شور و غل مچائے ہوئے ہے، مگر حقیقت میں بشارالاسد حکومت کا قصور فقط اس سے زیادہ نہیں کہ وہ اسرائیل کا حقیقی اور نظریاتی مخالف ہے۔ گذشتہ دنوں اسرائیلی طیاروں نے شامی سرحدوں کی خلاف ورزی کی۔ شام کے فوجی ریسرچ سنٹر کو اپنے خوفناک گولہ بارود سے نشانہ بنایا۔ جس میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے اس حملے سے یہ تو واضح ہوگیا کہ شام میں زمینی جنگ لڑنے والے بیرونی جنگجوؤں پر اسرائیل خصوصی مہربان ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بشارالاسد حکومت کے خلاف ہونیوالی دہشت گردی کی کارروائیاں جہاد ہیں یا فساد۔

مقام حیرت ہے ملت اسلامیہ کے حکمرانوں کے کردار پر جو اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ایک اسلامی ریاست کو تباہی سے دوچار کرنے پر اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ اسلامی دنیا کے اندرونی حالات کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ اسلامی ریاستیں جن کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے، وہاں اسرائیل کسی نہ کسی روپ میں سرگرم ہے۔ ایران کے خلاف جنداللہ نامی دہشت گرد تنظیم براہ راست موساد سے منسلک تھی۔ عراق میں ہونیوالے بم دھماکوں میں بھی اسرائیلی مداخلت کے ثبوت ملے۔ فلسطین، لبنان، غزہ، سمیت کئی اسلامی ریاستوں پر اسرائیل نے براہ راست حملے کئے۔ افغانستان پر حملے کے لیے لکھا جانیوالا نائن الیون ڈرامے کا سکرپٹ بھی موساد کے لیٹر ہیڈ پر تحریر شدہ نکلا۔ بحرین، شام اور مصر کے اندرونی معاملات میں اسرائیلی مداخلت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

وطن عزیز پاکستان جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، یہاں بھی موساد کے پوری طرح سرگرم ہونے کے ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہی میں سکیورٹی اداروں نے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے ایک اسرائیلی ایجنٹ کو گرفتار کیا ہے۔ پاکستانی نژاد اسرائیلی ایجنٹ کی عمر 38 سال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹر ڈگری ہے۔ جس کے قبضے سے پاکستان کی حساس تنصیبات کے نقشے، جدید ہتھیار، خفیہ کیمرے و رابطے کے آلات، سیٹلائٹ نیٹ ورک جدید ڈیوائسز، لیپ ٹاپ، تکنیکی ماہرین کی تفصیلات برآمد ہوئیں ہیں۔ لیپ ٹاپ سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق یہ ایجنٹ یروشلم بیس کمپنی کا ملازم ہے، جو کہ بظاہر تعمیر و ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔ ای میل کے وسیع ذخیرے سے یہ ثابت بھی ہوا کہ سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی حساس نوعیت کی تنصیبات، وہاں ملازمین و ماہرین کی معلومات اسرائیلی اداروں کو اشتراک کی گئی ہیں۔

ان شواہد کے بعد اسرائیلی ایجنٹ کو جب تفتیش کے مراحل سے گزارا گیا تو کئی حیران کن انکشافات سامنے آئے۔ اس نے تسلیم کیا کہ وہ عرصہ کئی سال سے بدنام زمانہ اسرائیلی ایجنسی موساد کے لیے کام کر رہا ہے۔ موساد کا پاکستان میں ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہے، جسے افغانستان سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ مزید حاصل ہونیوالی معلومات کے مطابق پاکستانی نژاد یہ اسرائیلی ایجنٹ دہشت گردی کے الزام میں تقریباً ڈھائی سال گوانتا موبے جیل میں گزار چکا ہے، جہاں اس کی برین واشنگ کی گئی اور بعد ازاں ٹریننگ کی غرض سے افغانستان بھیجا گیا۔ گوانتا موبے سے افغانستان میں سپن بولدک کے سرحدی شہر رازک بھیجا گیا۔ جہاں پر اسے ایک طویل ٹریننگ سے گزارا گیا۔

حاصل شدہ معلومات کے مطابق اس علاقے میں جدید ترین تحقیقاتی اور تربیتی مراکز قائم ہیں، جہاں خاص طور پر ان عسکریت پسندوں کو تربیت دی جاتی ہے جو پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ قندھار میں موجود بھارتی قونصل خانہ ان مراکز کی براہ راست نگرانی کرتا ہے۔ اسرائیلی ایجنٹ نے تسلیم کیا کہ اس تربیتی کیمپ میں اس کے ساتھ تقریباً 250 پاکستانی موجود تھے، جن میں زیادہ تعداد بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔ دوران تفتیش ملزم نے تقریباً 200 سکیورٹی اہلکاروں کو قتل کرنے کا اقبال جرم کیا۔ جس میں گجرات میں فوجی کیمپ پر حملہ، خیبر پختونخواہ پولیس حملہ و دیگر شامل ہیں۔ ملزم کے قبضے سے کثیر مالیت کی ملکی و غیر ملکی کرنسی بھی برآمد ہوچکی ہے۔ اسرائیلی ایجنٹ نے اپنی گرفتاری میں جو انکشافات کئے ہیں یقیناً وہ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لیے نہایت تشویش ناک ہیں۔

اس سے قبل ایک اسرائیلی خاتون جو کہ موساد کے لیے باقاعدہ کام کرتی تھی، نہ صرف پاکستان کا خفیہ دورہ کرکے واپس جاچکی ہے بلکہ اسلام آباد میں اعلٰی شخصیات سے ملاقاتیں، کئی سفاتخانوں کی تقریبات اور ایبٹ آباد میں اسامہ کمپاؤنڈ سمیت ان مقامات کی جہاں جلی حروف میں تصویر لینا منع ہے، کے بورڈ آویزاں ہوتے ہیں کی تصویریں اور نقشے و دیگر معلومات انتہائی آسانی سے حاصل کرچکی ہے۔ اس صحافی خاتون نے اپنی حالیہ کتاب میں اپنے ان احباب کا بھی تعارف شامل کیا ہے، جن کی مدد سے اس نے یہ کام سرانجام دیا۔ دہشت گردی سے نبرد آزما پاکستانی عوام اور سکیورٹی اہلکاروں کے لیے اب یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ تمام تر شواہد اور ثبوت ہونے کے باوجود پاکستان کے اندر ہونی والی بیرونی مداخلت کے بارے میں عالمی سطح پر یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا جار ہا۔؟

پاکستان کے عوام اور جوان امریکی جنگ کا اس طرح حصہ بنے کہ اب وہی امریکی جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ بن کے رہ گئی ہے۔ لیکن نان نیٹو اتحادی ڈیکلیئر کرنے والے امریکہ کے سامنے یہ سوال تو اٹھانا چاہیے کہ آپ کی ناک کے نیچے جو دہشت گردی کے وسیع انسٹی ٹیوٹ کام کر رہے ہیں، پہلے ان کا سدباب کریں مگر افسوس یہاں صاحبان اختیار و اقتدار ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں موساد کے ایجنٹوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں کسی نئے اور ان دیکھے بحران کی پیش گوئی بھی ثابت ہوسکتی ہیں، کیونکہ اس بدنام زمانہ گروہ کے قدم جہاں جہاں پہنچے وہاں وہاں مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور تصادم کو خوفناک حد تک فروغ ملا۔

اس کے ساتھ ساتھ موساد نے پوری اسلامی دنیا میں ریاست کے اندر ریاست کے قیام کے فارمولے کو پوری طرح آزمانے کی کوشش کی۔ جس کی مثال شام کی حالیہ صورتحال، بلوچستان کے موجودہ حالات ہیں۔ اس کے علاوہ نام نہاد طالبان کی جانب سے ہونیوالی غیرانسانی و غیر اسلامی کارروائیاں اور دہشت گردوں کے جسموں پر ملنے والے ٹیٹوز بھی اشارے دیتے ہیں کہ معاملہ صرف ڈرون حملوں کے ردعمل کا نہیں ہے، بلکہ پس پردہ کھیل کچھ اور ہی کھیلا جا رہا ہے۔ یہ بھی مقام حیرت ہے کہ آئے روز پاکستان کے سرحدی علاقوں اور افغانستان میں نام نہاد طالبان جاسوسی کے الزام میں اپنے ہی بے گناہ شہریوں اور مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹتے ہیں، لیکن آج تک کسی بھی اسرائیلی یا امریکی ایجنٹ کو اس ظلم و جبر کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

پاکستانی فورسز کے اہلکاروں کو اغوا کے بعد ہمیشہ ہی دردناک طریقے سے قتل کرتے ہیں، لیکن یہود و نصاریٰ کے ٹریننگ کیمپوں کی خود ہی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ اب کفر ویہود و نصاریٰ کے ٹریننگ کیمپوں سے برآمد ہونیوالا فساد اگر جہاد کا مقدس کا نام اختیار کرے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ امریکی CIA کے نمایاں نیٹ ورک جو قطر UAE مسقط میں کام کر رہے ہیں، ان جنگجوؤں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ آپ حقیقی اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں موجود CIA کے ٹرینگ کیمپس پر بھی دکھاوے کے لیے اسلامی پرچم نصب ہیں اور ایسی ہی صورت حال سے شام بھی دوچار ہے۔

گذشتہ ماہ میڈیا کے ایک معتبر ادارے نے رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی پالیسی ساز شام و ایران سمیت کسی بھی اسلامی ملک پر جنگ مسلط کرنے سے پہلے عالمی ذرائع ابلاغ میں بالعموم اور اسلامی دنیا کے میڈیا میں بالخصوص اپنے ہمدرد تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزارت اطلاعات کے ایک اجلاس میں پاکستانی میڈیا سے ہونیوالی اسرائیلی مخالفت پر بھی کافی غور وفکر کیا گیا، مگر شائد ان کی مشکل پاکستان میں تعینات سابقہ امریکی سفیر نے کی ہوگی، جن کا خیال تھا کہ پاکستانی صحافی کم قیمت ہیں۔ وزارت اطلاعات کے اس اجلاس میں بالآخر یہی طے پایا کہ پاکستانی عوام میں اسرائیلی مخالفت ختم کرنے اور اسرائیلی پالیسیوں کی تائید کرنے کے لیے اسرائیلی و پاکستانی میڈیا کے درمیان رابطہ قائم کیا جائے، اور اسرائیلی میڈیا میں باقاعدہ کام کرنے کے لیے پاکستانی صحافیوں کو ہائیر کیا جائے۔ تعلقات قائم ہوجانے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم میڈیا کے ذریعے چلائی جائے۔

واضح رہے وہ اسلامی ریاستیں جنہوں نے اسرائیل کے وجود کو تاحال تسلیم نہیں کیا، وہاں اسرائیل میڈیا کے ذریعے اپنے قدم مضبوط کر رہا ہے اور ان اسلامی ریاستوں سے خود کو تسلیم کرانے کے لیے میڈیا کا ہی سہارا لینے پر مجبور ہے۔ میڈیا اشتراک سے موساد کے ایجنٹوں کے لیے پاکستان سمیت ان تمام اسلامی ریاستوں کا سفر بھی نہایت آسان ہو جائے گا، جہاں اسرائیل کے مذموم مقاصد کارفرما ہیں۔ موساد نے اس ایجنڈے کے ایک حصے پر کام کا آغاز کینیڈا سے کیا اور تاز پٹ نیوز ایجنسی جو کہ موساد کے انفارمیشن نیٹ ورک کا حصہ ہے اور برصغیر خطے میں را کے زیر نگرانی کام کرنے والی ایک انڈین نیوز ایجنسی سے منسلک ہے، کے ذریعے پاکستانی صحافیوں سے رابطے اور ہائرنگ کے کام کا آغاز کیا۔ بین الاقوامی میڈیا کو اس مہم کا حصہ بنانے اور مسلم صحافیوں کو راغب کرنے کے لیے موساد نے اپنے مقاصد انٹرفیتھ ہارمنی، ہولوکاسٹ سے بچاؤ بیان کئے۔

اسرائیلی شہر یروشلم میں قائم تازپٹ نیوز ایجنسی نے کینیڈا میں مقیم مختلف پاکستانی صحافیوں سے رابطے کئے۔ جس میں سے اکثر نے اس مذموم ایجنڈے کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ کینیڈا میں ہی موجود طارق خان نامی صحافی نے اسرائیلی میڈیا اور پاکستان میں بھی موساد کے ایجنٹوں کو تعاون فراہم کرنے کی حامی بھری۔ بعد ازاں ویکلی پاکستان کے نام سے موساد نے ایک ویب گروپ تشکیل دیکر اپنا مواد پاکستانی صحافیوں سمیت دیگر اعلٰی شخصیات کو بھیجنے کا کام شروع کیا۔ بعد ازاں اسی گروپ کے نام کے کارڈز پر بھی کینیڈا کے ذریعے پاکستان میں ملکی و غیر ملکی متنازعہ و مشکوک افراد کی آمدورفت کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ گرچہ تاز پٹ کی سرکاری حیثیت سے انکار کرتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس نیوز ایجنسی کے تقریباً آفیشل اسرائیل کے سابق اور حاضر سروس سرکاری عہدیدار ہیں۔ تازپٹ نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر ایموٹز ایال بذات خود بھی سرکاری عہدے پر کام کرچکے ہیں۔

مسلمانوں کی لاشوں اور مسمار شدہ گھروں پر تعمیر کی گئی ناجائز ریاست اسرائیل، جس کو پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا، اسکی انٹیلی جنٹس کی شاخ تازپٹ کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے تعاون کو ریاست کا قانون کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر صحافتی روپ میں بیرونی ایجنٹ یونہی پاکستان میں دندناتے پھریں اور ملک کے شہری ہی ان کے تعاون میں پیش پیش ہوں تو ملک میں امن کی ذمہ داری کون سا ادارہ قبول کرے گا۔ صحافتی حلقوں کو بھی ازخود اس چیز کا نوٹس لینا چاہیے اور ایسے چہروں سے نقاب اتارنے چاہیں، جو صحافت کے نام پر ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیل صرف فلسطین، لبنان، عراق، ایران، شام کے مسلمانوں کا مجرم نہیں بلکہ عالم اسلام کا تاریخی مجرم ہے۔ جس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون کی اجازت نہ قرآن دیتا ہے۔ نہ اللہ کا پاک نبی (ص)، نہ سیرت شیخین، نہ ہی کردار ایوبی۔ اگر کوئی مسلمان اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو وہ عالم اسلام کا مجرم و غدار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ریاستیں خصوصاً عرب ممالک اپنے حقیقی دشمن کو شناخت کرکے خود بھی اس سے محفوظ رہیں اور دنیائے اسلام کو بھی اسرائیل سے نجات کی تدبیریں کریں۔ ناکہ یہود و نصاریٰ کے ہتھیار اور ایسی کالی بھیڑوں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں، جو کسی بھی حوالے سے اسرائیلی اداروں کے معاونت کار ہیں۔ اگر عالم اسلام اپنے اس مشترکہ دشمن کے وجود کے خلاف ایک متفقہ قراداد لاکے اس پر فوری عملدرآمد کا فیصلہ کرلے تو اسرائیل اپنی موت آپ ہی مر جائے گا اور فلسطین کے مسلمان اپنے آزاد وطن کی فضاؤں میں آزادی کا سانس لے گے۔ انشاءاللہ
 

Tahira Masood

محفلین
غلطی جب اپنی بھی ہو تو کسی اور پہ الزام دینا غلط ہے۔ اس طرح کبھی معاملات سلجھ نہیں سکتے۔ جب تک اصل مسئلے سے ہم رو گردان رہیں گے ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جس تک بیماری کی تژخیص نہ ہو علاج نہیں ہو سکتا۔چلیں مانا کہ اسرائیل ہمارا دشمن ہے۔ مگر کیا ہم بھی اپنے دشمن بن چکے ہیں کہ ہر کام لوگوں پر چھوڑ دیا ہے۔ خود کچھ نہیںکر سکتے۔ اپنا دفاع بھی نہیں۔ ہر بات پہ وہی حاوی ہے ہم پر۔ خدا کا تو وعدہ ہے کہ ایک مسلمان دس پہ بھاری ہو گا۔ اس کا یہ مطلب ہوا نا کہ ہم بس نام کے مسلمان ہیں؟
 
Top