ملالہ

احمد شاکر

محفلین
اگرچہ ابھی مری کافی غزلیں کسی وجہ سے اصلاح کے لئے کسی تعطل کا شکار ہیں اور میرے پاس بہت سے ذخائر ہو گئے ہیں تک بندیوں کے اس لئے اس کاوش کو پیش کر رہا ہوں

ملالہ

ذکر تیرا رات بھر ہوتا رہا محفل میں عام
ہو رہی تھی جیسے کوئی پھول اور خوشبو کی بات
ہیں ملالہ زخم تیرے نقش میرے دل پہ بھی
اب دعا کے واسطے میرے اٹھے رہتے ہیں ہات
جو سکندر تھے بنے پھرتے جہاں میں بے نہاد
کردیا ان طالباں کو تم نے اپنے خوں سے مات

تو اکیلی تو نہیں تھی تیرے سنگ دو اور تھیں
غازیہ ہیں تیری مانند شازیہ اور کائنات
ہوں خدا کی برکتیں ان پر بھی میری ہے دعا
مرتبہ اونچا ہو ان کا اور ملیں اعلٰی صفات
ؔ
ؔ
سلسلہ یہ عشق کا تم سے کبھی بھی کم نہ ہو
سوچ قومی بھی بنی ہو تم ، مگر شاکر کی ذات


شاہد شاہنواز

الف عین
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب
جو سکندر تھے بنے پھرتے جہاں میں بے نہاد​
کردیا ان طالباں کو تم نے اپنے خوں سے مات​
 
Top