ملالہ کو نوبل پرائز کی کیا قیمت دینی ہے؟

x boy

محفلین
لڑاکے محفلینز اپنے پیغامات میں سے
تو غائب کریں۔[/QUOTE]
images
 

سید ذیشان

محفلین
عبد القدیر خان ان شخصیات میں سے ہیں جو جب تک خاموش رہیں تو ان کی عزت بنی رہتی ہے۔ جوں ہی منہ سے کچھ بولتے ہیں تو سارا کیا کرایا خاک میں مل جاتا ہے۔
 

x boy

محفلین
معلوماتی،،، عبدالقدیر خان محسن پاکستان الحمدللہ۔
ضیاالحق اور غلام اسحاق کی سرپرستی معلوماتی ۔
بالکل وہی بات کہ بیرون میں یہ مشہور ہورہا ہے کہ پاکستان لڑکیوں کے لئے عذاب ہے
جبکہ بھارت میں لڑکی کو پیدا ہونے ہی نہیں دے رہے ہیں
روز تھوڑی بہت خبر میں اندروں انڈیا کی دیکھتا ہوں اس میں تو دکھایا گیا ہے کہ پاکستان
سے بھی زیادہ بدتر ہے اور ترقی کررہا ہے کہتے ہیں لیکن یہ بھی کہاجارہا ہے کہ انڈیا
میں اور بھی شہر ہیں گاؤں ہیں ہر گاؤں ہر شہر ممبئی، بنگلور مینگلور نہیں ہے
ہر شخص ٹاٹا، بلرا،بجاج نہیں۔۔
لیکن پاکستان کے ساتھ جو کھیل کھیلاجارہا وہ گیم ڈکھی چھپی نہیں۔
دبئی اور امارات کے دوسرے شہروں میں بڑے بڑے فراڈیے انڈین ہیں ابھی چار ماہ قبل کی بات ہے
ایک سکھ نے 500 ملین کا فراڈ کرکے بیرون روانہ ہوگیا، اس طرح کے ہزاروں کیسس ہیں
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاح پاکستانی نے ملین کا فراڈ کرکے بھاگ گیا ہو۔ اور بھاگ کر
انڈیا نہیں جاتے یاتو کنیڈا یا انگلینڈ جاتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
امت کے "عبقریوں" کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ اقبال کے مقابلے میں ٹیگور کو ترجیح اس لئے دی گئی کہ ٹیگور نے اپنی مادری زبان میں شاعری کی جبکہ اقبال نے اردو اور فارسی میں۔ دوسرا یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اقبال کے کلام کے مخاطب مسلمان تھے جنہیں جنگ و جدل اور قتل و غارت پر اُکسایا گیا تھا۔ اگر افاقہ نہ ہو تو یہ مضمون کافی و شافی رہے گا
اگر سُستی ساتھ نہ دیتی ہو تو "چوندے چوندے" اقتباسات یہ رہے
سن 1914 کےاوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبیل کمیٹی کے چئر مین ہیرلڈ ہئیارن نے جِن خیالات کا اظہار کیا ہے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنےوالی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبیل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیئے جو جنگ اور تباہی کے پرچارک ہوں۔

کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبیل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کےآسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اِن تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پر پڑتا ہے۔
ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کی آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبیل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مدِّ نظر رکھنا چاہیئے کے یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کو نہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملّی جذبات کو ابھار کر دنیا پرچھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔

5ea3e7590d674d9be4582cc6f6c8e86070157686.gif

97a6cdf56b5f285dd05db8176f703373afdd4b6e.gif
ٹیگور کو اقبال سے شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کےلئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اُردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہء اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پُرمایہ زبان ہوتی
ed179769b45f49c9cdd68934f9e85c6a14033297.gif


ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصّہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوامِ مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ اُن کے خیال میں قومِ رسولِ ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔
ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کےلئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اُردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہء اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پُرمایہ زبان ہوتی۔

اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبیل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا ---- ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔

یہ بیان تھا ٰ سر ٰ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اُس شخص کے بارے میں جس نے انگریزوں کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کی شخصیت کے بارے یہ جملہ بہترین ہے
عبد القدیر خان ان شخصیات میں سے ہیں جو جب تک خاموش رہیں تو ان کی عزت بنی رہتی ہے۔ جوں ہی منہ سے کچھ بولتے ہیں تو سارا کیا کرایا خاک میں مل جاتا ہے۔
 

x boy

محفلین
شکریہ سب بھائیون کا
اپنا اپنا زاویہ ہے اپنا اپنا انداز ہے کوئی معلومات سے بکھیرتا ہے کوئی دماغ سے۔
اصل تو وہی ہے جو سچ ہے کبھی نا کبھی سامنے آہی جاتا ہے
یہ ٹیگور وہی ہے نا جس نے اپنی شاعری سے بنگالیوں کا دل جیت لیا تھا اور جس کی وجہ سے بنگالی کہتے ہیں کہ پاکستانی نے 11ہزار بنگالی فی دن کے حساب سے
تین ملین لوگوں کو قتل کیا تھا اس طرح کا کام تو ایسے قتل تو ہٹلر بھی نہیں کرسکا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بی بی سی اور اُمت دونوں ہی اپنے اپنے ایجنڈے لے کر چل رہے ہیں۔

عام آدمی کےلئے اس سلسلے میں کچھ کہنا بے کار ہے۔
 
ملالہ کے بارے میں جو وسوسے میں نے بیان کیے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے ٹھیک ٹھاک پڑھے لکھے لوگوں نے پھیلائے ہیں۔ سوشل میڈیا پران دنوں سب سے مقبول یہ ’’خدشہ‘‘ بھی ہے کہ ملالہ کو نوبل انعام سے نوازنے کے بعد اسے مستقبل میں کسی وقت پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے ’’لانچ‘‘ کر دیا جائے گا تا کہ وہ جب اقتدار میں آئے تو پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی بھرپور تکمیل کر سکے۔ خدارا مجھے کوئی اب یہ بات سادہ لفظوں میں سمجھا ہی دے کہ پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کا ’’اصل ایجنڈا‘‘ کیا ہے اور ان میں سے کون سا ایسا نکتہ باقی رہ گیا ہے جس پر ہم پہلے ہی سے عمل نہیں کر رہے۔ ملالہ کے ہمارے سیاسی اُفق پر لانچ ہوئے بغیر۔
http://www.express.pk/story/295321/
 

قیصرانی

لائبریرین
آخری تدوین:

x boy

محفلین
انڈونیشیاء کی طرح بھارت میں مسلم راج ہوتا اور کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف کوئی اور مذہب تو اب تک کشمیر ایسٹ تیمور کی طرح مسئلہ حل ہوجاتا اور کسی کشمیری کو اس جہاد میں نوبل نوٹروبل ایوارڈ مل جاتا،،:)
 

حسینی

محفلین
میرا ذاتی خیال ہے۔۔۔ کہ اس نوبل انعام کی کوئی حیثیت نہیں جو امریکہ جیسے دہشت گرد وں کو سپورٹ کرنے والے ملک کے صدرکو بھی ملتا ہے۔
اوبامہ نے دنیا کو امن دینے کے لیے کونسا قدم اٹھایا تھا؟؟
بلکہ الٹا پوری دنیا کو جنگ کی آگ میں جھولنے والا امریکہ ہے۔۔۔ دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والا امریکہ ہے۔۔۔ چاہے وہ داعش ہو جو اب ان کے قابو سے باہر ہے۔ یا ہمارا طالبان اور القاعدہ۔
اور اب داعش کے مقابلے میں جبہۃ النصرہ، فری سیرین آرمی اور کردوں کو اسلحہ سے سپورٹ کر رہے ہیں۔۔۔ جو اک دن پھر انہی کے گلے پڑیں گے۔
 

یوسف-2

محفلین
امریکہ کی ایک بہت بڑی عمارت ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کو ملالہ یوسف زئی کے نوبل انعام پانے کی خوشی میں گلابی رنگ سے رنگ دیا گیا۔ یہ قابلِ تحسین اقدام اس بات کا اظہار ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے کتنی محبت ہے اور وہ پاکستان کو پہنچنے والے فائدے پر کتنا خوش ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف امریکہ پاکستان سے سچّی محبت کرتا ہے‘ باقی تو بس دعوے کرتے ہیں۔ نوبل انعام ملنے پر امریکی اخبارات نے ملالہ کو آئرن لیڈی کا خطاب بھی دیا۔ یہ کچھ قبل از وقت ہے‘ فی الحال تو آئرن بے بی کہنا چاہئے تھا۔ آئرن لیڈی سے مارگریٹ تھیچر کی یاد آجاتی ہے جن کی کوئی تعلیمی خدمات نہیں ہیں۔ ملالہ کی تعلیمی خدمات کا تو شمار بھی مشکل ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ملالہ سے پہلے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔’’ پاکستان میں عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے‘‘ دنیا اس بات سے بالکل بے خبر تھی۔ بھلا ہو ملالہ کا کہ اس کی وجہ سے دنیا کو اس خوفناک سچّائی کا پتہ چلا اور ہر طرف دہائی مچ گئی۔ اب دیکھو‘ ملالہ کی وجہ سے پاکستان میں تعلیمِ نسواں کا کتنا بول بالا ہوگیا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پنجاب میں میڈیکل کالجوں کے انٹری ٹیسٹ میں30ہزار طالبات نے درخواستیں دیں۔ طلبہ کی گنتی صرف 15ہزار تھی۔ ایک سال کے اندر کتنا بڑا انقلاب آگیا‘ اور یہ ملالہ ہی کی بدولت تو آیا۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ ملالہ کو آئرن لیڈی کہنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ جب وہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گی‘ تب آئرن لیڈی کہلائیں گی۔ ملالہ جتنی خدمات کسی اور نے دی ہوں گی تو اُسے اس حکومت کا صدر بنایا جائے گا۔ ایسی خدمات میں ان کا ایک ہم پلّہ مشرف ہے لیکن وہ پہلے ہی پچھتر سال سے زیادہ عمر کا ہو چکا ہے‘ جچے گا نہیں‘ کہاں نیا چمکتا ہوا لوہا‘ کہاں زنگ لگا‘ پرانا‘ سالخوردہ (بلکہ پون صدی خوردہ) اور حد سے زیادہ فرسودہ اور از کار رفتہ لوہا‘ ایسا لوہا کہ لوہا کم‘ لوہے کے نام پر کلنک زیادہ لگے۔ سنا جا رہا ہے کہ سلمان رشدی کا نام صدر مملکت کے لئے زیر غور ہے۔ مسلمانوں میں جہالت ختم کرنے اور روشن خیالی پھیلانے میں وہ ملالہ کا ہم پلّہ ہے اور ایسی واحد شخصیت بھی جس کادفاع ملالہ نے اپنی نہایت روشن خیال کتاب میں کیا ہے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض کر سکتے ہیں کہ وہ تو پاکستان کا شہری بھی نہیں‘ صدر کیسے بنے گا تو عرض ہے کہ جو ’’حضرات‘‘ ایک غیر ملکی روشن خیال مولوی کو حکومت‘ نظام بلکہ ملک کا دھڑن تختہ کرنے (یا کرانے) کے لئے پاکستان لا سکتے ہیں اور تین تین ٹی وی چینل اس کے ڈسپوزل پر دے سکتے ہیں‘ وہ حال برطانوی‘سابق بھارتی شہریت والے کا ہیرو کے طور پر پاکستان میں نزول و استقبال کیوں نہیں کرا سکتے۔ ’’ہماری جنگ‘‘ کے اصل جوہر ایسی بلوان اور شبھ جوڑی کے بعد ہی کھلیں گے ۔اندیشہ کرنے والے ایک اعتراض ضرور کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ مولوی کے ذریعے ملک کا دھڑن تختہ کرنے کے منصوبے کا اپنا دھڑن تختہ ہو گیا اور عربی محاورے کے مطابق اس کی اپنی ناک خاک آلود ہوگئی اور ایسی کہ ناک اور خاک میں کچھ فرق نہیں رہا۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے۔ مولوی کی ناک پہ مکھّی بیٹھ گئی۔ مولوی اس وقت اپنے کنٹینر میں ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھنے میں مستغرق تھا‘ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ ناک پر مکھّی بیٹھ گئی ہے۔ تحریک کے ڈانس ڈائریکٹرعبّاسی نامی نے دیکھ لی‘ ترنت چلّایا‘ مولوی جی‘ آپ کی خاک پر مکھی بیٹھ گئی ہے۔ مولوی ناراض ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ ڈپٹی ڈانس ڈائریکٹر جونیئر عبّاسی نامی نے فوراً وضاحت کی۔ جی‘ یہ آپ کی ناک کا ذکر کر رہا تھا‘ اس پر مکھّی بیٹھی تھی‘ اب اڑ گئی ہے۔

خیر‘ خاک آلود ناک نے ابھی اور نہ جانے کتنی خاک چاٹنی ہے‘ اسے چھوڑئیے‘ اصل بات ملالہ کو وزیراعظم‘ سلمان رشدی کو صدر بنانے کی ہے جس میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ ہر طرف روشن خیالی چھائی ہوئی ہے‘ میدان ہموار ہے لیکن جو اندیشوں کے مریض ہیں‘ ان کا کیا علاج۔ اور اندیشے کے مریض صرف پاکستانی نہیں ہیں‘ خود امریکہ کے لوگ بھی ہیں۔ امریکہ کے ’’سرکاری‘‘ جریدے فارن پالیسی میں ایلئس گرول نے ایک لمبا چوڑا مضمون اسی اندیشے کی بنیاد پر لکھا ہے۔ اس نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نوبل انعام ملنے سے ملالہ کا مشن متاثر ہوگا۔ اس نے ’’بیک فائر‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ لکھا ہے کہ پاکستان کے کچھ حلقے ملالہ کو پہلے ہی سی آئی اے کا ایجنٹ اور پاکستان میں مغربی مداخلت کی علامت سمجھتے ہیں‘ ان کا یہ خیال اور مضبوط ہوگا۔ اس مضمون میں انہوں نے ایک غلط معلومات بھی لکھی۔ یہ کہ ڈرون حملے سی آئی اے کرا رہی ہے۔ سی آئی اے نہیں‘ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کرا رہی ہے۔ حکومت سے مراد حکومت ہے۔ زرداری نواز شریف نہیں کہ یہ لوگ تو بے حکومت حکمران ہوا کرتے ہیں۔ ڈرون حملوں سے یاد آیا۔ ملالہ نے کسی بھی موقع پر ڈرون حملوں سے مرنے والے بچّوں کا ذکر نہیں کیا۔ اور اس سے مزید یادآیا کہ جنرل کیانی جو اتنے ’’خلوت پسند‘‘ تھے کہ ڈرون حملوں میں مرنے والے سینکڑوں بچوں میں سے کسی ایک بچے کی ہلاکت پر تعزیت کے لئے نہیں گئے اوراتنے کم گوتھے کہ کبھی ایک لفظ ہمدردی کا ان مقہور پاکستانیوں کے لئے ادا نہیں کیا‘ ملالہ کی بے مثال خدمات کے عوض انہوں نے اپنی خلوت پسندی بھی ختم کر دی اور کم گوئی بھی اور بھاگم بھاگ ملالہ سے ملنے ہسپتال جا پہنچے۔ ملالہ کی خدمات کا جادو دیکھئے۔

فارن پالیسی نے پاکستان آبرزور کے ایڈیٹر طارق خٹک کا ذکر بھی کیا ہے جس نے کہا کہ ملالہ کو انعام دینا ایک خاص مقصد رکھتا ہے بلکہ ایک سازش ہے ۔طارق خٹک نے کہا کہ ملالہ کا باپ سیلز مین ہے اور ملالہ سیلز گرل۔
ایسے ہی نامعقول خیالات سوات والوں کے بھی ہیں جہاں ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر ’’سوگ‘‘ کی سی فضا چھائی رہی۔ ثابت ہوگیا کہ سوات آپریشن بالکل ٹھیک تھا۔ سوات کے لوگ اسی قابل تھے کہ ان کا ٹھیک ٹھاک بھرکس نکالا جاتا ۔ افسوس‘ اتنا بھرکس نکلنے کے باوجود ان کی ’’جہالت‘‘ ختم نہیں ہوئی اور روشن خیالی سوات کی وادیوں میں آج بھی بال کھولے بین کر رہی ہے۔
--------------------------
کراچی کے اخبار نے لکھا ہے کہ سیلز مین ‘ معاف کیجئے گا‘ ملالہ کے باپوئے محترم اربوں پتی بن چکے ہیں لیکن اتنی دولت سے سوات پر ایک روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اخبار بھول گیا کہ باپوئے محترم اب سواتی نہیں رہے ‘ ان کی جگہ اعظم سواتی نے لے لی ہے جبکہ باپو ئے محترم اب انٹرنیشنل سیلز مین بن چکے ہیں‘ اتنی بے فرصتی ہے کہ سوات پر خرچ کرنے کی مہلت نہیں۔ ملالہ کو وزیراعظم اور سلمان رشدی کو صدر بننے دیں‘ پھر لہریں گنئے گا۔ فی الحال لہریں نہیں‘ ٹھاٹیں مارتا ہوا وہ سمندر گنئے بلکہ ماپئے جو اتوار کو فیصل آباد کے مولوی کے جلسے میں موجزن رہا۔ جلسہ گاہ میں20ہزار افراد کی گنجائش تھی لیکن جلسہ شروع ہوا تو حاضرین کی گنتی تین لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔ یہ زندہ پیر عرف مولوی کی ایسی کرامتِ جلی ہے جس کا انکار اصحابِ خفی ہی کر سکتے ہیں۔ مولوی نے جلسے میں حاضرین سے وعدہ لیا کہ وہ فیصل آباد کی11قومی اور22یعنی 33 صوبائی سیٹیں اسے دلوائیں گے۔ اب تو الیکشن کمیشن پھنس گیا۔ اس نے ایک بھی سیٹ کم دلوائی تو مولوی کہے گا‘ دھاندلی ہوگئی اور بے چارے پلے بوائے کے لئے مولوی نے گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔33 میں سے 3سیٹیں ہی اسے دے دیتا لیکن ایک بھی نہ دی اور یوں اسے تین میں رکھا نہ تیرہ میں۔ مولوی نے اس جلسے میں عوام سے نوٹ بھی مانگے۔ سڑکوں پر مداری دو گھنٹے تک سانپ نکالنے اور دکھانے کے وعدے‘ دعوے اور اعلانات کرتا ہے۔ ابھی نکلا کہ ابھی نکلا لیکن آخر میں وہ سانپ نہیں دکھاتا‘ دوائی کی شیشی نکالتا ہے اور گاہکوں سے پیسے مانگتا ہے۔ مولوی نے ٹھیک 60دن تماشا لگائے رکھا۔ سانپ آج صبح نکلے گا‘ سانپ آج شام کونکلے گا‘ سانپ کل نکلے گا‘ سانپ پرسوں نکلے گا‘ فون آگیا‘ ملنے جاتا ہوں‘ سانپ لے کر ہی پلٹوں گا‘سانپ اس ہفتے نکل آئے گا‘ سانپ نکل کر رہے گا‘ دنیا کی کوئی طاقت سانپ کو نکلنے سے نہیں روک سکتی‘ سانپ نکل آیا ہے‘ بس پھن اٹھانا باقی ہے‘ سانپ نکل کر رہے گا۔ اس برس نہ سہی اگلے برس سہی‘ نکلے گا ضرور۔ اور 60دن بعد مولوی نے سانپ کی پٹاری کنٹینر میں چھپا دی‘ انتخاب کی دوا نکالی اور نعرہ لگایا:نوٹ دوگے تو سانپ دکھاؤنگا۔ (سانپ ہے کہ موڈ ہے) مولوی جی‘ اتنی سی بات ساٹھ دن پہلے ہی کر دیتے۔
(عبداللہ طارق سہیل)
 

arifkarim

معطل
عبد القدیر خان ان شخصیات میں سے ہیں جو جب تک خاموش رہیں تو ان کی عزت بنی رہتی ہے۔ جوں ہی منہ سے کچھ بولتے ہیں تو سارا کیا کرایا خاک میں مل جاتا ہے۔
یعنی کہ حجور میرے ہی نقش قدم پر چل رہے ہیں :)

دوسرا یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اقبال کے کلام کے مخاطب مسلمان تھے جنہیں جنگ و جدل اور قتل و غارت پر اُکسایا گیا تھا۔
قتل و غارت؟ کہیں آپ جہاد کی بات تو نہیں کر رہے؟

بی بی سی اور اُمت دونوں ہی اپنے اپنے ایجنڈے لے کر چل رہے ہیں۔
اور اللہ بخشے ہم پڑھنے والوں کا ایجنڈا بھی کسی سے کم نہیں ہے :)

سوشل میڈیا پران دنوں سب سے مقبول یہ ’’خدشہ‘‘ بھی ہے کہ ملالہ کو نوبل انعام سے نوازنے کے بعد اسے مستقبل میں کسی وقت پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے ’’لانچ‘‘ کر دیا جائے گا
جی بالکل۔ نارویجن نوبیل کمیٹی برائے امن واقعی اتنی طاقت ور ہے کہ اگلے دس سالوں میں ملالہ کو اوسلو سے اسلام آباد تک کنٹینر پر لانچ کر سکے گی۔ ہاہاہا!

تا کہ وہ جب اقتدار میں آئے تو پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی بھرپور تکمیل کر سکے۔
نارویجن یقیناً پاکستان دشمن ہیں۔ اسی لئے تو ایک پاکستانی اور ہندوستانی کو ایک ساتھ امن کا سب سے بڑا ایوارڈ دینے کیلئے یہاں بلوایا ہے تاکہ دنیا کو اس خطے کی اصلیت معلوم ہو سکے۔ :)

خدارا مجھے کوئی اب یہ بات سادہ لفظوں میں سمجھا ہی دے کہ پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کا ’’اصل ایجنڈا‘‘ کیا ہے اور ان میں سے کون سا ایسا نکتہ باقی رہ گیا ہے جس پر ہم پہلے ہی سے عمل نہیں کر رہے۔
پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کا اصل ایجنڈا لامتناہی بار آزمودہ روایتی لٹیرےجیسے ظل سبحانی نواز شریف اور کرپشن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے آصف زرداری کی جماعت کو پاکستانی سیاست میں قائم رکھنا ہے۔ کیونکہ پاکستان اور اسلام کے اصل دشمن جانتے ہیں کہ اگر یہ دونوں سیاسی جماعتیں صرف 30 سال میں ملک کو کشکول تھما سکتی ہیں تو اگر آئندہ 30 سال یہ باریاں لیتی رہیں تو پھر پاکستان کو پتھر کے دور میں لیجانا زیادہ مشکل کام نہ ہوگا۔ بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ تو ویسے ہی معمول بن چکی ہے۔ مہنگائی ہر عید نیا ریکارڈ قائم کرتی ہے۔ اور بھارتی و امریکی جارحیت کیخلاف پاکستانی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کی خاموشی پاکستان کے دشمنان کیلئے پیغام ہے کہ انکا ملالہ پلین بہت اچھا جا رہا ہے :)

ملالہ کے ہمارے سیاسی اُفق پر لانچ ہوئے بغیر۔
ملالہ کوئی سیٹلائیٹ ہے جسے جہادی راکٹ پر لانچ کروانا ہے؟ :)

طالبانیوں کو نوبل پرائز سے ہونے والی تکلیف کا کیا ازالہ ہے ؟
اسرائیلوں کی طرح طالبانیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں :)

میرا خیال ہے طالبان سمجھتے ہیں کہ نوبیل انعام کے حقدار وہ ہیں
لگتا کچھ ایسا ہی ہے
جہاد یعنی دہشت گردی کا نوبیل انعام طالبان کو ہر سال ملتا اگر ایساکوئی ایوارڈ موجود ہوتا :)


ہٹلر کی طرح، وہ بھی امن کا۔ پتہ نہیں کسی سوئیڈش رکن پارلیمان کی رگِ مزاح کیوں نہیں پھڑک رہی :)
نامزد ہوا تھا اور وہ بھی 1939 میں جب جنگ عظیم دوم شروع ہوئی۔ نامزدگی شاید اسلئے کہ اسنے جنگ سے قبل مذاکرات کے ذریعہ یورپی سیاسی مسائل کو حل کیا تھا۔


انڈونیشیاء کی طرح بھارت میں مسلم راج ہوتا اور کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف کوئی اور مذہب تو اب تک کشمیر ایسٹ تیمور کی طرح مسئلہ حل ہوجاتا اور کسی کشمیری کو اس جہاد میں نوبل نوٹروبل ایوارڈ مل جاتا،،:)
1947،1965،1971،1999 کے کشمیر "جہاد" کا مزہ ابھی تک دوبالا نہیں ہوا؟ :)ہر بار سوائے 1965 کے بھارت سے پھٹکار ہی پڑی ہے۔

اوبامہ نے دنیا کو امن دینے کے لیے کونسا قدم اٹھایا تھا؟؟
اسرائیل کو ایران کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں دی اور نہ وہاں کوئی عسکری مداخلت کی۔
اسرائیل کے دباؤ کے باوجود شام کی خانہ جنگی میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کیا۔ شیعہ دہشت گردوں کیخلاف سنی دہشت گردوں کی مدد نہیں کرنی چاہئے تھی۔
عراق سے اپنی فوج واپس بلا لی۔
افغانستان سے امریکی افواج اس سال کوچ کر جائیں گی۔
 

x boy

محفلین
پاکستانیوں کے ٹیکس پر پلنے اور پڑھنے والی ملالہ :)

news-02.gif
امت اخبار والوں کو بہت آجادی ہے :D
جسطرح حامد میر کو بنگلا دیش سے ایوارڈ لینے کی آجادی:D
شکریہ بھائی
میں تو اخبار نہیں پڑھتا آپکے کاپی پیسٹ سے بہت کچھ سامنے آتا ہے:)
یہی باتیں اگر اسنورڈن پھیلائے تو کیا پاکستان کے خلاف جاسوسی ہوگی:)
 
Top