ملالہ کو طالبان کا خط

نایاب

لائبریرین
اللہ پہ چھوڑ دیں
محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

مکرمی عدنان رشید،
آپ کی کی طرح میں بھی یہ خط ذاتی حیثیت میں لکھ رہا ہوں۔ اس خط کے مندرجات کا ہماری ادارتی پالیسی سے متفق ہونا ضروری نہیں نہ ہی پاکستان حکومت کی پالیسی ہے۔ آپ کہیں گے کہ کون سے پالیسی؟ کوئی بات نہیں جیسے ہی عمران خان لندن سے واپس آئیں گے بن جائے گی۔
مس ملالہ یوسفزئی کے نام آپ کا نامہ اس لیے قابل تحسین ہے کہ آپ نے یک جنبش قلم اس قوم کے ذہن میں پائے جانے والے ایک بڑے مغالطے کی اصلاح کردی ہے۔ آپ کے خیر خواہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ طالبان اور بچی کہ سر میں گولی۔ کوئی مرد مجاہد تو ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا۔
ملالہ کو گولی یا تو لگی ہی نہیں یا اگر لگی ہے تو اس نے خود ماری ہے تاکہ ایک دن اقوام متحدہ میں کھڑی ہو کر اس قوم کو بدنام کرسکے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ہمارے لوک ورثے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوگی لیکن ہماری لوک داستانیں ایسی چلتر عورتوں سے بھری پڑی ہیں جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہیں۔
آپ کی طرح قوم کے ذہن میں بھی بہرحال یہ شک موجود ہے کہ کیا ملالہ کے سر میں گولی مارنا اسلامی فعل تھا یا نہیں۔ لیکن اس کے بعد آپ نے سچے پاکستانیوں والی وہی بات کی جوکہ ہماری قومی پالیسی ہے کہ چلو اللہ پہ چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم پہ جب بھی برا وقت آتا ہے، جب کوئی مشکل فیصلہ نہیں ہو پاتا جب ہم سے اپنے ذاتی اور اجتماعی دکھوں کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا تو ہم کہتے ہیں کہ چلو یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن میں نے کسی کو 14 سال کی لڑکی کے سر میں گولی مارنے کے بعد یہ کہتے نہیں سنا کہ اب اللہ پر چھوڑ دو۔
اللہ پہ چھوڑنے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑا مسب الاسباب ہے اور سب سے بہتر انصاف کرنے والا اور اسکے رموز عام انسان تو کیا آپ کا پسندیدہ مصنف اور مشہور دہریہ برٹرینڈ رسل بھی نہیں سمجھ سکتا۔
شاید بنیادی فرق یہ ہے کہ قوم اللہ پر چھوڑتی ہے آپ اللہ کے پاس چھوڑ آتے ہیں۔
بچیوں کو مارنے یا نہ مارنے کے فلسفیانہ نقطے پر مجھے اسلام سے پہلے زمانہ جہالت کی یاد آئی جب لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیا کرتے تھے شاید اس لیے کہ بڑی ہونے پر گاڑنے کی کوشش کرتے تو بہت شور مچاتیں۔ اسلام نے ان قبیح رسومات کا خاتمہ کیا۔ لیکن اگر چودہ سو سال بعد ایک چودہ سالہ بچی کا منہ بند کرنے کے لیے اسے گولی مارنے پر جید علما میں بحث چھڑ جائے تو برٹرینڈرسل جیسے بدبخت یہ کہنے لگیں کہ بھائی آپ لوگ تو وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔
ویسے زیادہ منہ پھٹ بچیوں کو مارنے یا نہ مارنے کے بیچ میں بھی ایک طریقہ ہے جو زیادہ تر کمزور ایمان والے مسلمان استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ڈانٹ دیتے ہیں، کبھی ہلکی سی چپت لگا دیتے ہیں۔
لیکن بچیوں سے بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اور وہ ہیں عورتیں ان پر کل بات ہو گی۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ لوگ کلچر کو مذہب میں ضم کر رہے ہیں اور کچھ بھی نہیں ۔ اگر اسلام سے پہلے اس خطے کی تاریخ " عورت کے حوالے " پڑھی جائے تو کئی حقیقتیں واضع ہوجائیں گی ۔ باقی اس سلسلے میں بحث ، وقت کا زیاں ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
اللہ پہ چھوڑ دیں: دوسرا حصہ
محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

مکرمی عدنان رشید!
باقی قوم کی طرح میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ ہمارا مسئلہ تعلیم نہیں ہے۔ اگر قلم تلوار سے واقعی طاقتور ہوتی تو ہندوستان کا حکمران غالب ہوتا انگریز صاحب بہادر نہیں۔ کروڑوں لوگ تعلیم حاصل کرکے بیٹھے ہیں اور غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
کلِک اللہ پر چھوڑ دو: پہلا حصہ
اصل مسئلہ تو عورتیں ہیں۔ آپ نے سوات کے پہلے انقلاب پر تحقیق کی تھی تو یقیناً دیکھا ہوگا کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس میں عورتیں نہ گھس گئی ہوں۔ کھیتوں میں، ہسپتالوں میں، تھانے کچہریوں میں، کمپیوٹر سکولوں میں، کوئی چادر پہن کر نکلی کسی نے فیشن حجاب کیا، کسی نہ شٹل کاک پہنا، کوئی سر پر دوپٹہ پہن کر چل پڑی جس سے اور کچھ نہ بن پایا وہ گھر کے کمرے میں ہی بیوٹی پارلر کھول کر بیٹھ گئی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ جب سوات میں مولانہ فضل اللہ والا دوسرا انقلاب آیا اور نظام عدل رائج ہوا تو ایک سینیئر صحافی نے انہیں مشورہ دیا کہ طالبان اگر چوک پر لوگوں کے گلے کاٹیں گے تو برداشت کر لیا جائے گا، اگر ہر گلی میں ٹکٹکی لگا کر کوڑے ماریں گے تو کچھ نہیں ہوگا لیکن لڑکیوں کے سکول بند نہ کریں عورتوں کو کام پر جانے سے نہ روکیں۔ لیکن نظام عدل میں ظاہر ہے کہ اس طرح کی گنجائش نہیں تھی۔

سوات میں نظام عدل کو نہ فوج نے شکست دی نہ گنے چنے سرخوں نے انقلاب کی ناکامی کی اصل وجہ یہ تھی کہ عورتوں کا گھروں سے نکلنا بند کیا گیا، جواباً ان ’ناہنجار‘ عورتوں نے قوم کا ناطقہ بند کر دیا۔
ثابت یہ ہوا کہ آپ پاکستانی فوج سے لڑ سکتے ہیں امریکہ کو نیچا دکھا سکتے ہیں اپنی فوج کے سربراہ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے بعد جیل سے فرار ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی محلے کی ان عورتوں سے دشمنی کریں گے جنہیں اپنی روزی روٹی کمانے کی مجبوری ہے تو ناکامی آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔
اور یہ لعنت صرف سوات تک محدود نہیں ہے۔ ملک میں ہر جگہ آپ کے جذبہ جہاد کی قدر پانے والے لوگ پائے جاتے ہیں دامے، دامے سخنے آپ کا مشن آگے بڑھاتے ہیں لیکن دل ہی دل میں یہ ہوکا لگا رہتا ہے کہ بیٹی کا داخلہ کسی اچھی یونیورسٹی میں ہو جائے۔ کوئی ڈاکٹر بنا رہا ہے کوئی کمپیوٹر انجینیر اب تو فیشن ڈیزائن پڑھانے والے سکولوں میں بھی اپنی بیٹیوں کو بھیجنے میں عار نہیں سمجھتے۔
اور یہ مسائل صرف سویلین آبادی تک محدود نہیں رہے آپ نے پائلٹ لڑکیوں کی وہ تصویریں دیکھی ہوں گی جو ایئرفورس پروپیگنڈے کے لیے اخباروں کو جاری کرتی ہے۔ ان میں سے کئی لڑکیاں اب فائٹر پائلٹ بھی بن چکی ہیں۔
آپ فوج کو مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کو مارنے یا امریکہ سے مروانے کے علاوہ کبھی کیا ہی کیا ہے۔ لیکن کل کلاں ان پائلٹ لڑکیوں نے اگر یہ سوچ لیا کہ اللہ پر چھوڑ کے بہت دیکھ لیا اب خود ہی کچھ کرتے ہیں تو خدا جانے انجام کیا ہوگا۔
 

سویدا

محفلین
کوئی تشویش کی بات نہیں
طالبان نے اپنی ہی بھن کو خط لکھا ہے
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top