ملالہ اور عبیر قاسم حمزہ الجنابی۔۔۔ اوریا مقبول جان

ظفری

لائبریرین
تعلیم کے موضوع کو ملوث کر کے کلچر بدلنے کی سازشیں ہورہی ہیں
دیکھ لو آج کا مسلمان۔۔۔ ۔۔۔ اورمسلمانوں کی ہسٹری پڑھ لیں
اس بارے میں بھی کچھ تفصیلات درکار ہیں ۔ اُمید ہے آپ اس ساری سازش کی قلعی کھل کر بیان کریں گے کہ ملالہ ، ملالہ بہت ہوگیا ۔
 

x boy

محفلین
اس خطے سے امریکہ اور اس کے الائنس کو نکال دو پھر یہ بربریت ہم پاکستانی خود ختم کردینگے۔
اگر پاکستان سری لنکا کا اتنا پرانا مسئلہ ایک ہفتے میں ختم کردیتا ہے تو یہ پاکستان کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے
۔
 

x boy

محفلین
بلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
news-1381550875-4650.jpg


لندن ( مانیٹرنگ دیسک) طالبان کی گولی کا نشانہ بن کر دلوں کی دھڑکن بننے والی ملالہ یوسف زئی کو بینظر بھٹو کے صاحبزادے بلاول، صاحبزادی آصفہ اور بختاور نے ’بینظیر‘ تسلیم کرلیا ہے اور مستقبل کی وزیراعظم کی حیثیت سے نعرہ بھی لگادیا ہے، واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی نے گذشتہ روز ہی ملکی سیاست میں حصہ لینے اور پاکستان کی وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہارکیا ، اب ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کے جانشین اوراُن کی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری نے اُسی منصب کے لیے ملالہ کے حق میں نعرہ لگادیا جس عہدہ کے لیے پیپلزپارٹی محترم بے نظیر بھٹو کا نام لے کر نعر ہ لگایاکرتی تھی ۔مبصرین کے خیال میں بے نظیر بھٹو کی اولاد نے اب ملالہ کو بھی بے نظیر جیسا محسوس کرلیا ہے اور ویسی ہی لیڈر مان لیاہے ۔ ملالہ کے پہلے دن سے لیکر نوبل انعام نہ ملنے کے اعلان تک کے سفر کی کہانی بیان کرتے ہوئے بی بی سی نے لکھا ہے کہ کہانی تو یہ محبتوں کی ہے لیکن اس سے قبل شاید ہی محبت کے کسی قصے میں اتنی نفرت بھی دیکھنے کو ملی ہو۔جمعرات کو رات بھر لاکھوں پاکستانی ملالہ یوسفزئی کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے اور ہزارہا نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسے نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجیں۔لندن میں صبح ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ملالہ کو اپنی دعائیں بھیجیں۔ اور جیسے ہی یہ واضح ہوا کے امن انعام کسی اور کا ہوا تو بلاول نے ٹوئٹر پر ’وزیراعظم ملالہ یوسفزئی‘ کا نعرہ لگایا۔تھوڑی دیر میں ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھی اس نعرے میں شامل ہوئیں جس کا ملالہ کی جانب سے جواب آیا کہ ’انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر‘۔اس دوران ہزارہا لوگوں نے کہا کہ انعام ملے نہ ملے، ملالہ کروڑوں دلوں کی ملکہ ہیں۔لیکن نوبیل امن انعام کے اعلان سے پہلے کے چند دنوں میں پاکستان کے ایک طبقے کی جانب سے جس بے رحمی سے ملالہ یوسفزئی کے خلاف زہر اگلا گیا اس نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ان لوگوں کی نفرت واقعی ملالہ کے لیے ہے یا اس کا اصل ہدف کوئی اور یا کچھ اور ہے۔پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔اس نسل نے نہ تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا ، جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
اسپر کیا کمنٹس ہیں آپ سبکا۔
یہ روزنامہ پاکستان کا حصہ ہے اور لکھنے والے کا نام نہیں لکھا گیا۔
 
آخری تدوین:
بلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
news-1381550875-4650.jpg
پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔اس نسل نے نہ تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا ، جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
چلیں شکر ہے سمجھ آگئی۔۔۔دیر سے ہی سہی
 

x boy

محفلین
چلیں شکر ہے سمجھ آگئی۔۔۔ دیر سے ہی سہی
۔ اسپر کمنٹس کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں مجھ پر کمنٹس کرنے کے لئے نہییں
مزا آرہا ہے ہونا تو وہی ہے جو اللہ چاہے گا، مسلمان اور اسلام کے دشمن کچھ دن مزے کرلیں چاہے ہم میں سے ہو یا باہر کے۔
 

ظفری

لائبریرین
بلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
news-1381550875-4650.jpg


لندن ( مانیٹرنگ دیسک) طالبان کی گولی کا نشانہ بن کر دلوں کی دھڑکن بننے والی ملالہ یوسف زئی کو بینظر بھٹو کے صاحبزادے بلاول، صاحبزادی آصفہ اور بختاور نے ’بینظیر‘ تسلیم کرلیا ہے اور مستقبل کی وزیراعظم کی حیثیت سے نعرہ بھی لگادیا ہے، واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی نے گذشتہ روز ہی ملکی سیاست میں حصہ لینے اور پاکستان کی وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہارکیا ، اب ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کے جانشین اوراُن کی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری نے اُسی منصب کے لیے ملالہ کے حق میں نعرہ لگادیا جس عہدہ کے لیے پیپلزپارٹی محترم بے نظیر بھٹو کا نام لے کر نعر ہ لگایاکرتی تھی ۔مبصرین کے خیال میں بے نظیر بھٹو کی اولاد نے اب ملالہ کو بھی بے نظیر جیسا محسوس کرلیا ہے اور ویسی ہی لیڈر مان لیاہے ۔ ملالہ کے پہلے دن سے لیکر نوبل انعام نہ ملنے کے اعلان تک کے سفر کی کہانی بیان کرتے ہوئے بی بی سی نے لکھا ہے کہ کہانی تو یہ محبتوں کی ہے لیکن اس سے قبل شاید ہی محبت کے کسی قصے میں اتنی نفرت بھی دیکھنے کو ملی ہو۔جمعرات کو رات بھر لاکھوں پاکستانی ملالہ یوسفزئی کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے اور ہزارہا نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسے نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجیں۔لندن میں صبح ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ملالہ کو اپنی دعائیں بھیجیں۔ اور جیسے ہی یہ واضح ہوا کے امن انعام کسی اور کا ہوا تو بلاول نے ٹوئٹر پر ’وزیراعظم ملالہ یوسفزئی‘ کا نعرہ لگایا۔تھوڑی دیر میں ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھی اس نعرے میں شامل ہوئیں جس کا ملالہ کی جانب سے جواب آیا کہ ’انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر‘۔اس دوران ہزارہا لوگوں نے کہا کہ انعام ملے نہ ملے، ملالہ کروڑوں دلوں کی ملکہ ہیں۔لیکن نوبیل امن انعام کے اعلان سے پہلے کے چند دنوں میں پاکستان کے ایک طبقے کی جانب سے جس بے رحمی سے ملالہ یوسفزئی کے خلاف زہر اگلا گیا اس نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ان لوگوں کی نفرت واقعی ملالہ کے لیے ہے یا اس کا اصل ہدف کوئی اور یا کچھ اور ہے۔پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔اس نسل نے نہ تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا ، جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
اسپر کیا کمنٹس ہیں آپ سبکا۔
یہ روزنامہ پاکستان کا حصہ ہے اور لکھنے والے کا نام نہیں لکھا گیا۔
لکھنے والا کا نام نہیں ۔۔۔ اور روزنامہ میں چھپ گیا ۔۔۔ ماشاءاللہ ۔
معلوم کریں کہیں مقبول جان اورریا تو نہیں ہیں ۔ :D
 

x boy

محفلین
لکھنے والا کا نام نہیں ۔۔۔ اور روزنامہ میں چھپ گیا ۔۔۔ ماشاءاللہ ۔
معلوم کریں کہیں مقبول جان اورریا تو نہیں ہیں ۔ :D
بھائی جان روزنامہ پاکستان سے لیاگیا ہے
میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کو خوش ہے اور کون کیا ۔
ویسے مزاح تو ہے اس میں جو بے نظیر بے نظیر کرتے تھے اب ملالہ ملالہ کرنے رہے ہیں
پہلے یہ فیملی زرداری فیملی تھی پھر بھٹو ہوگیا، اب ملالہ یوسفزئی ہوگیا۔
 

ظفری

لائبریرین
بھائی جان روزنامہ پاکستان سے لیاگیا ہے
میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کو خوش ہے اور کون کیا ۔
آپ کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ روزنامے میں کوئی بھی تحریر بغیر کسی حوالے سے نہیں چھپتی ۔ خیر معلوم ہوجائے گا کہ کالم نگار کون تھا ۔ یا آپ جان بوجھ کر کسی کی خوشی دیکھنے کے لیئے کالم نگار کا نام حذف کررہے ہیں ۔:idontknow:
 

x boy

محفلین
بھائی جان روزنامہ پاکستان سے لیاگیا ہے
میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کو خوش ہے اور کون کیا ۔
آپ کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ ۔ روزنامے میں کوئی بھی تحریر بغیر کسی حوالے سے نہیں چھپتی ۔ خیر معلوم ہوجائے گا کہ کالم نگار کون تھا ۔ یا آپ جان بوجھ کر کسی کی خوشی دیکھنے کے لیئے کالم نگار کا نام حذف کررہے ہیں ۔
میں تو مزا لینا چاہتا ہوں کل پرسوں عید ہے
 

x boy

محفلین
طفری بھائی
آپ امریکہ میں پیدا ہوئے کیا
ماشاء اللہ اپنے جنم بھومی سے بہت محبت کرتے ہیں
 

نایاب

لائبریرین
بلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
news-1381550875-4650.jpg


لندن ( مانیٹرنگ دیسک) طالبان کی گولی کا نشانہ بن کر دلوں کی دھڑکن بننے والی ملالہ یوسف زئی کو بینظر بھٹو کے صاحبزادے بلاول، صاحبزادی آصفہ اور بختاور نے ’بینظیر‘ تسلیم کرلیا ہے اور مستقبل کی وزیراعظم کی حیثیت سے نعرہ بھی لگادیا ہے، واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی نے گذشتہ روز ہی ملکی سیاست میں حصہ لینے اور پاکستان کی وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہارکیا ، اب ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کے جانشین اوراُن کی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری نے اُسی منصب کے لیے ملالہ کے حق میں نعرہ لگادیا جس عہدہ کے لیے پیپلزپارٹی محترم بے نظیر بھٹو کا نام لے کر نعر ہ لگایاکرتی تھی ۔مبصرین کے خیال میں بے نظیر بھٹو کی اولاد نے اب ملالہ کو بھی بے نظیر جیسا محسوس کرلیا ہے اور ویسی ہی لیڈر مان لیاہے ۔

یہ روزنامہ پاکستان کا حصہ ہے اور لکھنے والے کا نام نہیں لکھا۔
یہ کالم اپنی اصل صورت میں یہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔
اور سمجھا جا سکتا ہے کہ زرد صحافت کے بیوپاری کیسے مرچ مصالحہ ڈال کر اپنے مفاد کی دیگ پکاتے ہیں ۔۔۔۔۔
عامر احمد خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
 
میں تو مزا لینا چاہتا ہوں کل پرسوں عید ہے
اچھا اگر مزا لینا ہے تو یہ بھی پرھئیے۔۔۔امید ہے عید تک دذارہ ہوجائے گا اتنے مزے سے ہی اسکے بعد کوئی نیا ڈوز ڈھونڈیں گے آپکے لئیے :D

علامہ اقبال اور ملالہ
(محمد خلیل الرحمٰن)

کوئی جوان یہ کہتا تھا کل ملالہ سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے

تو لڑکی ذات ہے اور یہ غرور کیا کہنا
یہ ’’گُل مکئی ‘‘ کی سمجھ ، یہ شعور کیا کہنا

خدا کی شان ہے ، ناچیز چیز بن بیٹھیں...
بس ایک آن میں سب کو عزیز بن بیٹھیں

تری بساط ہے کیا طالبان کے آگے
زمیں ہے پست جوانوں کی شان کے آگے

جو بات اُن میں ہے تُجھ کو بھلا نصیب کہاں
کہ طالبان کہاں اور تو غریب کہاں

کہا یہ سُن کے ملالہ نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا

جو میں قوی نہیں اُن کی طرح تو کیا غم ہے
میں لڑکی ذات ہوں ، یہ بات بھی بھلا کم ہے

ہر ایک جان سے پیدا خدا کی قدرت ہے
میں پڑھنے لکھنے کی شیدا، یہ اُس کی حکمت ہے

تجھے زمانے میں جاہل بنادیا اُس نے
مجھے کتاب جو پڑھنا سِکھادیا اُس نے

مجھے پڑھانے کی ہمت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دِکھا مجھ کو
یہ اِک کِتاب ذرا کھول کر دِکھا مجھ کو

نہیں ہے نار نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
 

x boy

محفلین
شکریہ غزنوی بھائی
فل حال تو میں فکر میں ہوں کہ کوئی قصائی مل جائے تاکہ میرا بکرا قربان ہوجائے اللہ کی رضا میں۔
ورنہ مجھے مالش والے ڈھونڈنے پڑینگے۔
دبئی میں توچائینز اور تھائی مساج پارلر گلی گلی ہے لیکن پنجابی مساج دستیاب نہیں۔
دعاء کریں قصائی مل جائے۔
 
Top