ملاقات۔ مصحف اقبال توصیفی

الف عین

لائبریرین
ملاقات

مصحف اقبال توصیفی

ایک نظم مرحوم عوض سعید کے لئے


تم مرے دیدۂ حیران کو دیکھو گے
تو حیران سے رہ جاؤ گے
مجھ کو معلوم ہے پہچان نہیں پاؤ گے
میں دکھاؤں گا تمہیں جب
وہی گلیاں
وہی سڑکیں
وہی گھر
تم نے اک عمر گزاری جس میں
تم کہو گے
یہ مرا گھر
یہ مرا شہر نہیں
میں کہوں گا
یہ وہی شہر ہے ۔۔ دیکھو۔۔ دیکھو۔۔۔
یہ سڑک جس پہ کئی گھر تھے
بہت پیڑ ہوا کرتے تھے
اب اگر ان کی جگہ صرف دوکانیں ہیں تو کیا
پہلے انساں تھے
مگر ساتھ میں سائے بھی تو تھے
اب اگر اتنی نقابیں ہیں تو کیا
اپنے معیار سے اس شہر کو اب مت آنکو
(اور تم پہلے بھی اس شہر کے باسی کب تھے)
آؤ دیکھو۔۔۔
مرے دل میں جھانکو
وہی گھر ہے، وہی رستے، وہی دوکانیں ہیں
غور سے دیکھو۔۔ وہ مسجد، وہ سڑک
اور وہ شاذؔ *کا گھر
ہم جہاں روز ملا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر میں کچھ سوچ کے یکبارگی پلٹوں گا۔۔۔ کہوں گا۔۔۔۔ لیکن
تم ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔
تم یہاں کیسے آئے
تم سے ملنے تو مجھے آنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سچ ہے تم پہلے بھی اس شہر کے باسی کب تھے)
آسمانوں کے ہٹا کر پردے
جب میں پہنچوں گا وہاں
تم عجب نور کے پیکر میں مرے سامنے جب آؤ گے
میں کہوں گا کہ یہ روشن چہرہ
تم نے دیکھا نہیں اپنا چہرہ۔۔۔۔۔۔
کتنے آئینے میں لایا ہوں تو حیران سے رہ جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔۔
* شاذ تمکنت
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ ، بہت خوب ، کیا کہنے بابا جانی، میری جانب سے بھی سلام کہیے گا اقبال توصیفی صاحب کو۔ (حجاب مانع نہ ہو تو)
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت عکاسی کی ہے اقبال توصیفی صاحب اپنے دوست سے بچھڑنے کی، ملاقات کے رنگ میں، لاجواب!

بہت شکریہ اعجاز صاحب پوسٹ کرنے کیلیے!
 
Top