مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104

شمشاد

لائبریرین
تیسری مثال :

شاہ حاتم جو پہلے طبقہ میں شمار کیے گئے ہیں وہ دوست کے ملنے کی آرزو اور اس کے دیکھنے کے شوق کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

زندگی دردِ سر ہوئی حاتم
کب ملے گا مجھے پیا میرا​

اس مضمون کو میر نے یوں باندھا ہے

وصل اس کا خدا نصیب کرئے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ​

سودا یوں کہتے ہیں :

دل کو یہ آرزو ہے صبا کوئے یار میں
ہمراہ تیرے پہنچئے مل کر غبار میں​

منشی امیر احمد صاحب امیر جو موجودہ طبقہ کے مشہور شاعر ہیں وہ اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں :

وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں​

اس مثال میں بھی تینوں شعروں کو اگر چہ خیال کے لحاظ سے نیچرل کہا جا سکتا ہے مگر اخیر شعر کے بیان کے بمقابلہ حاتم اور میر و مرزا کے صاف تصنع اور ساختگی پائی جاتی ہے اور بیان نیچرل نہیں رہا۔ اگر زیادہ تفحص کیا جائے تو ان سے بہت زیادہ صریح اور صاف مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں۔

اوپر کے بیان سے یہ ہر گز سمجھنا نہیں چاہیے کہ متاخرین کی شاعری ان نیچرل ہوتی ہے۔ نہیں بلکہ ممکن ہے کہ متاخرین میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جو قدما کی جولاں گاہ کے علاوہ ایک دوسرے میدان میں طبع آزمائی کریں یا اسی جولاں گاہ کو کسی قدر وسعت دیں یا زبان میں بہ نسبت متقدمین کے زیادہ گھلاوٹ اور لوچ اور وسعت اور صفائی پیدا کر سکیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لکھنئو میں میر انیس نے مرثیہ کو بے انتہا ترقی دی ہے۔ نواب مرزا شوق نے مثنوی کو زبان اور بیان کے لحاظ سے بہت صاف کیا ہے۔ اسی طرح دلی میں ذوق، ظفر اور خاص کر داغ نے غزل کی زبان میں نہایت وسعت اور صفائی اور بانکپن پیدا کر دیا ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زبان کو درستی کے ساتھ استعمال کرنا :

تیسری بات زبان اردو کو درستی اور صفائی کے ساتھ استعمال کرنا ہے۔ اگرچہ اردو کم و بیش تمام اطراف ہندوستان میں متداول ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ بعض ممالک کے باشندے اپنی خاص زبان میں بہ نسبت اردو زبان کے زیادہ آسانی سے شعر سر انجام کر سکیں۔

پس اگر ہمارے ہم وطنوں میں کوئی شخص اپنی خاص زبان میں شعر کہنا چاہے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ مادری زبان سے بہتر اور سہل تر کوئی آلہ اظہار خیالات کا نہیں ہو سکتا۔ لارڈ بکالے کا قول ہے کہ "کوئی عمدہ کلام جو خیالات کا مجموعہ ہو کبھی کسی شخص نے سرانجام نہیں کیا مگر ایسی زبان میں جس کی نسبت اس کو مطلق یاد نہ ہو کہ کب سیکھی اور کیونکر سیکھی اور جس کی گریمر جاننے سے پہلے وہ ایک مدت تک اس میں گفتگو کرتا رہا۔" وہ لکھتے ہیں کہ "روما کے بڑے بڑے لائق آدمیوں نے فرانسیسی زبان میں اشعار لکھے۔ مگر ان میں سے کوئی شعر صفحہ روزگار پر یادگار نہ رہا۔ انگلستان کے بہت سے خوش فکر اور طباع آدمیوں نے لاطینی میں دیوان مرتب کئے۔ مگر ان میں سے ایک دیوان بھی یہاں تک کہ ملٹن کا دیوان بھی شاعری کے لحاظ سے اول درجہ کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ دوسرے درجہ میں بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتا۔" پس جیسا کہ ملکہ شاعری ایک فطری اور جبلی چیز ہے، اسی طرح اس کو کام لانے کے لیے ایسے آلہ کا استعمال زیادہ مناسب ہو گا جو بمنزلہ فطری اور جبلی چیزوں کے ہو اور وہ مادری زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں ہو سکتی۔

لیکن چونکہ اردو زبان ہندوستان کی اور تمام زندہ زبانوں کی نسبت بالاتفاق زیادہ وسیع اور خیالات ادا کرنے کے زیادہ لائق ہے۔ تمام اطراف ہندوستان میں عموما بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اسی کو ہندوستان کی قومی زبان بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اسی کو ترقی دی جائے نیز اس کا حاصل کرنا اور اس میں مہارت بہم پہنچانی ہندوستان کے باشندوں کو اتنی دشوار نہیں ہے جتنی کہ اور غیر مادری زبانوں میں دشوار ہوتی ہے۔

اس کے سوا ہندوستان کی تمام زندہ زبانوں میں بالفعل کوئی زبان ایسی نہیں معلوم ہوتی جس میں اردو کے برابر شعر کا ذخیرہ موجود ہو۔ اس لیے یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہم وطنوں میں جو شخص شعر کہنا اختیار کرئے وہ اردو ہی کو اپنے خیالات ظاہر کرنے کا آلہ قرار دے۔

ہندوستان میں جیسا کہ عموما تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف دو شہر ہیں جہاں کی اردو معتبر سمجھی جاتی ہے دلی اور لکھنئو۔ دلی کی زبان اس لیے ٹکسالی زبان شمجھی جاتی ہے کہ اردو کہ حدوث اور نشوونما اسی خطہ میں ہوا ہے۔ لکھنئو کی زبان کو اس واسطے مستند مانا جاتا ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کی ابتدا سے شرفائے دہلی کے بے شمار خاندان ایک مدت تک لکھنئو میں جا جا کر آباد ہوتے رہے اور ہمیشہ کے لیے وہیں رہ پڑے۔ پس ہندوستان کے کسی شہر کو اہل دہلی سے اس قدر میل جول کو موقع نہیں ملا جس قدر لکھنئو کو ملا ہے۔ یہاں تک کہ دونوں شہروں کی زبان میں ایک خاص مماثلت پیدا ہو گئی ہے اور خاص خاص الفاظ و محاورات کے سوا دونوں جگہ کی بول چال اور لب و لہجہ میں کوئی معتدبہ فرق نہیں معلوم ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی زبان تمام ملک میں یکساں طور پر اس وقت تک شائع نہین ہو سکتی جب تک کہ مندرجہ ذیل ذریعے ملک میں مہیا نہ ہوں :

1 ) اس زبان کی معتبر اور جامع ڈکشنری کا تیار ہونا
2 ) اس کی جامع گریمر کا مرتب ہونا
3 ) اس میں کثرت سے نظر و نثر کی کتابوں کا تصنیف و تالیف ہو کر شائع ہونا۔
4 ) اس زبان کے خیالات اور رسائل کا تمام اطراف و جوانب ملک میں اشاعت پانا۔

ظاہر ہے کہ نہ آج تک اردو کی کوئی جامع اور مستند ڈکشنری تیار ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی ایسی گریمر لکھی گئی ہے جس سے زبان سیکھنے میں کافی مدد ملنے کی امید ہو۔ اردو میں تصنیف و تالیف کا رواج اور اخبارات وغیرہ کی شاعر زیادہ تر بیس پچیس برس سے ہوئی ہے اور اس قدر قلیل مدت زبان کی ترویج کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔

اگرچہ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اردو لٹریچر کی جس قدر اشاعت ملک میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اردو زبان کی تحریر اور نظم و نثر لکھنے کا طریقہ اطراف ہندوستان میں عموما بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن شاعرانہ خیالات اور خاص کر نیچرل شاعری کے فرائض ٹکسالی زبان میں ادا کرنے کے لیے ایسے محدود ذریعے شاید کافی نہ ہوں۔ اگرچہ ایک جامع اور مستند ڈکشنری بھی (اگر کوئی ہو) اس مقصد کے پورا کرنے میں بہت کچھ مدد پہنچا سکتی ہے۔ مگر اس باب میں سب سے زیادہ مفید اہل زبان کی صحبت اور ان کی سوسائٹی میں اتنی مدت تک بسر کرنا ہے کہ ان کے الفاظ و محاورات بقدر معتدبہ نامعلوم طور پر زبان پر چڑھ جائیں لیکن چونکہ ایسا موقع ہر شخص کو ملنا دشوار ہے اس لیے ضروری ہے کہ شعرائے اہل زبان کا کلام جس قدر زیادہ ممکن ہو غور اور توجہ سے بار بار دیکھا جائے نہ اس ارادے سے کہ خیالات اور مضامین میں ان کی تقلید کی جائے بلکہ اس نظر سے کہ وہ الفاظ اور محاورات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور خیالات کو کن اسلوبوں اور کن پیرایوں میں ادا کرتے ہیں

ابن خلدون کہتے ہیں کہ "ایک عجمی فصحائے عرب کے کلام کی ممارست سے اہل زبان میں شمار ہونے کے لائق ہو سکتا ہے۔" پس ہندوستان کے باشندے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اہل زبان کے کلام کی مزاولت سے مثل اہل زبان کے سمجھے جائیں۔

اگرچہ دلی کے بہت سے عمدہ شاعروں کا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ جیسے خواجہ میر اثر، شاہ نصیر، میر ممنون، معروف، عارف وغیرہ حالانکہ ان بزرگوں کے مبسوط اور ضخیم دیوان موجود ہیں۔ لکھنئو میں کچھ عجب نہیں کہ وہاں کے بعض مستند لوگوں کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے دیوان اور کلیات شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ اور ان میں میر، سودا، درد، جرات، انشا، مصحفی، میر حسن، ناسخ، آتش، وزیر، غالب، ذوق، ظفر، شیفتہ، داغ، سالگ، شوق، رند، اسیر، برق، امیر و غیر ہم کا ہر قسم کا کلام خواہ غزل ہو خواہ مثنوی خواہ قصیدہ خواہ قطعہ و رباعی خواہ واسوخت سب دیکھنا چاہیے اور سب سے زیادہ اہم اور ضروری خلیق، ضمیر، انیس، دبیر اور مونس و غیر ہم کے مرثیوں کا مطالعہ ہے اگرچہ بعضے دیوان اور مثنویاں جنکا اوپر ذکر کیا گیا سراسر لغو خیالات اور بیہودہ مضامین سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن جو لوگ محض زبان سے غرض رکھتے ہیں۔ انکو خیالات کی لغویت اور مضامین کی بیہودگی سے چشم پوشی اور اغماض کرنا چاہیے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ و محاورات اور طرزِ ادا اور اندازِ بیان پر ہمت مقصود رکھنی اور خذ ما صفا ودع ما کدر پر عمل کرنا چاہیے۔ نظم کے علاوہ اردو لٹریچر میں جس قدر علمی، تاریخی، مذہبی اور اخلاقی مضامین پر مستند اہل زبان نے کتابیں لکھی ہیں، ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔

جو لوگ اپنے تئیں اردو زبان کا مالک سمجھتے ہیں یعنی اہل دہلی یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہیے کہ ہماری زبان کا لوگ اتباع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی زبان کی خبر نہ لیں گے، اس کے محفوظ رکھنے کے وسائل بہم نہ پہنچائیں گے۔ اس کے الفاظ و محاورات کو نہایت احتیاط کے ساتھ فراہم اور مرتب نہ کریں گے اور اس کی نظم و نثر کو زمانہ کے مذاق کے موافق ترقی نہ دیں گے تو ان کی زبان کو وہ حصہ جس پر ان کو فخر ہے اور جو ان کی اور تمام ہندوستان کی اردو میں مابہ الامتیاز ہے وہ حرفِ غلط کی طرح صفحہ روزگار سے محو ہو جائے گا اور یہی بری بھلی اردو جو عام اخبارات اور جدید تصنیفات کے ذریعہ سے ملک میں پھیل رہی ہے اور جس کو وہ اب تک حقارت کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نصف صدی میں ملک کی ٹکسالی اور فصیح زبان قرار پا جائے گی۔ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ عرب میں جب شعر و انشا کی سرد باز ادی ہوئی اور عربی نظم و نثر کے مالک غیر ملکوں کے باشندے ہو گئے۔ رفتہ رفتہ وہ کلیسکل عربی جس پر عربوں کو ناز تھا، لٹریری دنیا سے رخصت ہو گئی اور وہی بچھڑی زبان جس کو عرب عربا حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، تمام عربی لٹریچر پر چھا گئی اور شام و روم و مصر و بربر و سوڈان وغیرہ میں عموما پھیل گئی۔ یہاں تک کہ آج وہی زبان ٹکسالی اور فصیح عربی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا ہی انجام دلی اور لکھنئو کی زبان کا اگر اس کی جلد خبر نہ لی گئی، ہوتا نظر آتا ہے۔ دلی جس کو اردوئے معلٰی کا مسقط الراس اور جنم بھوم کہنا چاہیے۔ وہاں مصنف اوناظم و تاثر پیدا ہونے موقوف ہو گئے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے چند نفوس جن کو چراغ سحری سمجھنا چاہیے باقی رہ گئے ہیں ان کے بعد بالکل سناٹا نظر آتا ہے۔ لکھنئو کا حال اگرچہ بظاہر ایسا نہیں معلوم ہوتا وہاں شاعری کا چرچا دلی سے بہت زیادہ سننے میں آتا ہے۔ وہاں سے نوول اور دراما برابر ملک میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان کا قدم زمانہ کی رفتار کے متوازی نہیں اٹھتا۔ وہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے ہیں اسی قدر ترقی کے رستے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اردو زبان پر قدرت حاصل کرنے کے لیے صرف دلی یا لکھنئو کی زبان کی تتبع ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ عربی اور فارسی میں کم از کم متوسط درجہ کی لیاقت اور نیز ہندی بھاشا میں فی الجملہ دستگاہ بہم پہنچائی جائے۔ اردو زبان کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے ہندی بھاشا پر رکھی گئی ہے، اس کے تمام افعال اور تمام حروف اور غالب حصہ اسما کا ہندی سے ماخوذ ہے اور اردو شاعری کی بنا فارسی شاعری پر جو عربی شاعری سے مستفاد ہے، قائم ہوئی ہے نیز اردو زبان میں بہت بڑا حصہ اسما اسما کا عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے۔ پس اردو زبان کا شاعر جو ہندی بھاشا کو مطلق نہیں جانتا اور محض عربی و فارسی کے تان گاڑی چلاتا ہے وہ گویا اپنی گاڑی بغیر پہیوں کے منزل مقصود تک پہنچانی چاہتا ہے۔ اور جو عربی و فارسی سے نابلد ہے اور صرف ہندی بھاشا یا محض مادری زبان کے بھروسے پر اس بوجھ کا متحمل ہوتا ہے وہ ایک ایسی گاڑی ٹھیلتا ہے جس میں بیل نہیں جوتے گئے۔

زبان کے متعلق ایک اور بات لحاظ کے قابل ہے۔ نیچرل شاعری کے لئے جیسا کہ ظاہر ہے ہماری موجودہ زبان کافی نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس میں وسعت پیدا کی جائے۔ پس اہل لکھنئو جو زبان کے دائرہ کو روز بروز زیادہ تنک کرتے جاتے ہیں، یہ امر مقتضائے وقت کے بالکل خلاف ہے۔ لکھنئو میں ایک صاحب نے 1890 عیسوی میں ایک رسالہ شعر و سخن کے متعلق لکھا ہے۔

اس میں کچھ اوپر پچاس لفظ ایسے لکھے ہیں جو کو خود صاحب رسالہ اور اہل لکھنئو واجب الترک خیال کرتے ہیں۔ بعضے ان میں سے خاص لکھنئو کے ساتھ مختص ہیں۔ اہل دہلی کبھی اس طرح نہیں گولتے جیسے اندھیارا اندھیرے کی جگہ، اجیالا، اجالے کی جگہ، "کیونکر سے" کیونکہ کی جگہ۔ ایسے الفاظ کا ترک کرنا ہم بھی نہایت مناسب سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس سے لکھنئو اور دلی کی زبان میں مطابقت پیدا ہوتی ہے۔ اگر اہل لکھنئو ایسے الفاظ ترک کرنے پر آمادہ ہوں تو ہم اور بہت سے الفاظ حاضر کر سکتے ہیں۔ ایسے الفاظ ترک کرنے سے زبان کی وسعت میں بھی کچھ ایسا فرق نہیں آتا۔

اسی رسالہ میں بعضے، ایسے الفاظ کو واجب الترک قرار دیا ہے جو اصل زبان کی گریمر یا قیاس لغوی کے خلاف برتے اور بولے جاتے ہیں۔ جیسے موسم بفتح سین یا میت بفتح یا، یا نشا بروزن وگا کہ عربی گریمر یا لغت کے موافق موسم بروزن مسجد اور میت بکسرہ یا نشاۃ بروزن وحدت ہے۔ لیکن فی الحقیقت یہ ایک غلطی ہے جو اکثر ہمارے عربی دانوں کو علم لسان کی ناواقفیت سے پیش آتی ہے ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ایک زبان کے الفاظ دوسرے زبان میں منتقل ہو کر کبھی اصلی صورت پر قائم نہیں رہ سکتے۔ لا ماشا اللہ دور کیوں جاؤ ہماری اردو ہی میں ہزاروں لفظ سنسکرت، پراکرت اور بھاشا کے داخل ہیں۔ باوجود اس کے شاذ و نادر ہی ایسے الفاظ نکلیں گے جو اپنی اصلی صورت پر قائم ہوں۔ مثلا گھر، گھڑا، اجالا، آدھا، اندھیرا، آسرا، آنکھ، آگے، انگلی یہ تمام الفاظ سنسکرت کے مفصلہ ذیل الفاظ سے بگڑے ہوئے ہیں۔ یعنی گرھ، گھٹ، اجل، اردھ، اندھکار، آشرے، اکھی، اگز، اگر و اسی طرح پراکرت اور بھاشا کے صد ہا لفظ اپنی اصل کے خلاف ہمارے زبان میں مستعمل ہیں۔ مگر چونکہ ان کی اصلیت سے واقف نہیں ہیں، اس لیے ان کو صحیح سمجھ کر بے تکلف بولتے اور برتتے ہیں۔ لیکن عربی یا فارسی جس سے کہ ان کو فی الجملہ واقفیت ہے جہاں اس کا کوئی لفظ اصل زبان کے خلاف کسی کی اردو نظم یا نثر میں دیکھا اور فورا ناک چڑھائی۔ حالانکہ خود عربی کے بہت سے الفاظ اصل وضع کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ مثلا غش بجائے غشی، مسلمان بجائے مسلم، محافہ بجائے محفہ، غلطی بجائے غلط، زیادتی بجائے زیادت، سلامتی بجائے سلامت، ہدیہ بجائے ہدَیہ، مغلیلاں بجائے ام غیلاں، محابا و مدارا وغیرہ بجائے محابات و مدارات وغیرہ کے۔ علی ہدالقیاس فارسی کے الفاظ بھی اکثر اردو میں غلط بولے جاتے ہیں۔ اہل ایران عربی کے صدہا لفظ غلط تلفظ کے ساتھ غلط معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلا صم و بکم بجائے اصم و ابکم۔ حور بجائے حورا، ابدال بجائے بدیل، فضولی بجائے فضول، حضوری بجائے حضور۔ قران بجائے قرآن، مشاطہ بجائے مشاطہ، مواسا و مفواجا وغیرہ بجائے مواسات و مفاجات وغیرہ۔ انگریزی میں تمام دنیا کی زبانوں سے الفاظ لئے گئے ہیں۔ مگر کسی لفظ کو اس کی اصلی صورت پر قائم نہیں رکھا۔ مثلا خلیفہ، ترجمان، مخزن، نواب، تعریف، قطن، امر البحر، عثمان، فردوس، منارہ، شپاہی، شغال، کارواں، شکر، قرمزی کی جگہ جو کہ عربی و فارسی زبان کے الفاظ ہیں، کیلف، ڈریگومین، میگزین، حیباب، ٹیرف، کاٹن، ایڈمرل، اوٹومن، پیرے ڈائز، ہنرٹ، ہیپولے، جیکول، کیرؤن، شگر، کرمسن بولتے اور استعمالکرتے ہیں۔ اسی طرح جہاں استقرا کیا جاتا ہے۔ کسی زبان کے الفاظ دوسرے زبان میں جا کر اپنی اصلی وضع پر قائم نہیں رہتے۔ پس جب کہ موسم یا میت یا نشا وغیرہ الفاظ ہمارے خاص و عام سب کی زبان پر جاری ہیں تو اردو نظم و نثر میں ان کو کیوں نہ استعمال کیا جائے۔ بات یہ ہے کہ ایسے لفظوں کو جو عربی یا فارسی یا انگریزی سے اردو میں لئے گئے ہیں اور اصل وضع کے خلاف عموما مستعمل ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہی غلطی ہے کہ وہ موجودہ صورت میں عربی یا فارسی یا انگریزی کے الفاظ ہیں نہیں بلکہ ان کو اردو کے الفاظ سمجھنا چاہیے۔ جو اصل کے لحاظ سے عربی یا فارسی یا انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ ایسے لفظوں کو غلط سمجھ کر ترک کرنا اور ان کو اصل کے موافق استعمال کرنے پر مجبور کرنا بعینہ ایسی بات ہے کہ لالٹین کے بولنے سے لوگوں کو منع کیا جائے اور لین ٹرن بولنے پر مجبور کیا جائے یا گھڑا بولنے سے روکا جائے اور گھٹ بولنے کی تاکید کی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عام غلطی اور عوام کی غلطی میں بہت بڑا فرق ہے۔ جو غلط الفاظ خاص و عام دونوں کی زبان پر جاری ہو جائیں وہ عام غلطی میں داخل ہیں، ایسے الفاظ کا بولنا جائز ہی نہیں بلکہ صحیح بولنے سے بہتر ہے۔ ہاں جو غلط الفاظ صرف عوام اور جُہلا کی زبان پر جاری ہوں نہ کہ خواص اور پڑھے لکھوں کی زبان پر البتہ ایسے الفاظ کو ترک کرنا واجب ہے۔ جیسے مزاج کو مجاز کہنا، منکر کو نامنکر، خالص کو نخالص، ناحق کو بے ناحق، دروازہ کو دروزہ، نسخہ کو نخسہ وغیرہ وغیرہ۔

ان کے سوا بہت سے ایسے الفاظ واجب الترک بتائے جو شعرائے متقدمین نے عموما استعمال کیے ہیں اور دہلی کے بعض شعرا اب بھی استعمال کرتے ہیں اور اگر روزمرہ کی بول چال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آج تک دلی کے خواص و عام برابر بولتے رہے۔ جیسے تئیں، کبھو،کسو، آن کے، آخرش، پہنانا (پہنانے کی جگہ)، تلانا، دکھلانا وغیرہ۔ سدا (بمعنی ہمیشہ) تلک، سمیت، مت، بجائے حرف نفی، بن (بمعنی بے یا بغیر) پہ (پر کی جگہ)، کیجئے، دیجئے لیجئے، بجائے کیجئے، دیجئے، لیجئے، مرا، ترا، میرا اور تیرا کی جگہ، پر بمعنی مگر اک بجائے ایک، زور بمعنی عجیب یا نہایت۔

یہ الفاظ شاید لکھنئو میں ترک ہو گئے ہوں یا ہو جائیں لیکن دہلی اور مضافات دہلی میں وہ کم و بیش برابر بولے جاتے ہیں اور زمانہ ا اقتضا یہ ہے کہ وہ ہمہشہ بولے جائیں گے اور بولے نہ جائیں تو تحریروں میں ضرور مستعمل رہیں گے۔ شاید نثر میں بعض الفاظ کی ضرورت نہ پرے لیکن شعر میں ان کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ (اگر چہ اس میں کلام ہے کہ شعر کی بھی ضرورت رہے گی یا نہیں)۔

جو صاحب ایسے الفاظ ترک کرنے کی عام ہدایت کرتے ہیں ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو آپ ملتان میں مقیم اور کشمیر جانے والوں کی اجازت نہیں دیتے کہ جڑ اول کا بوجھ اپنے ساتھ باندھ کر لے جائیں۔

اس مضمون کے متعلق زیادہ بحث کرنی فضول معلوم ہوتی ہے کیونکہ جس ضرورت کے لحاظ سے ہم زبان کے دائرہ کو تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ اگر فی الواقع وہ ضرورت پیش آنے والی ہے تو یہ قیدیں خود بخود اٹھتی چلی جائیں گی اور لوگوں کے بجائے اس کے کہ اپنی زبان کو تنگ اور محدود کر دیں مجبورا دوسری زبانوں سے دریوہ گری کرنی پڑے گی۔ اور گر اردو لٹریچر کی ترقی کا خیال ایسا ہی دور از کار خیال ہے جیسا کہ مسلمانوں کی علمی، تمدنی اور اخلاقی ترقیات کا تو یہ بحث پیش از وقت نہیں بلکہ نا وقت ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر شعر کی طرف کس حالت میں متوجہ ہونا چاہیے؟

چوتھی بات یہ تھی کہ فکر شعر کی طرف کس حالت میں متوجہ ہونا چاہیے۔ بعضوں کی یہ رائے ہے کہ رات کو سونے سے پہلے اور دن کو طعام چاشت سے پہلے شعر میں طبیعت زیادہ راہ دیتی ہے۔ کسی حکیم کا قول ہے کہ "وحشی مضامین کی رام کرنے والی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جیسا آب رواں اور تنہائی اور بلند نشیمن" لیکن ہمارے نزدیک فکر شعر کے لیے کوئی موقع اور محل اس سے بہتر نہیں کہ کسی مضمون کا جوش شاعر کے دل میں خود بخود پیدا ہو۔ پھر اس کے لیے باغ اور جنگل آبادی اور ویرانی، سبزہ زار اور چٹیل میدان، آب رواں اور پٹپر زمین سب برابر ہے۔ ابو نواس جب تک کہ پھولوں کے گلدستے اس کے سامنے نہ رکھے جاتے تھے شعر کی فکر نہیں کرتا تھا ابو العتاہیہ نے ایک روز اس سے پوچھا کہ کیا آپ کو بغیر اس کے مضمون نہیں سوجھتا میں تو بیت الخلا میں شعر کہا کرتا ہوں۔ ابو نواس نے کہا۔ "اسی لیے تو اس میں سے بُو آتی ہے۔" لیکن ہمارے نزدیک فکر شعر کے لئے نہ گلدستوں کی ضرورت ہے اور نہ بیت الخلا میں بیٹھنے کی، بلکہ صرف جوش اور ولولےکی ضرورت ہے جو کسی قید اور شرط کا محتاج نہیں ہے۔ کیثر سے لوگوں نے پوچھا کہ تو نے شعر کہنا کیوں چھوڑ دیا۔

"جوانی جس سے امنگ دل میں پیدا ہوئی تھی گزر گئی عزہ جو دل کو گرماتی تھی مر گئی اور عبد العزیز جس سے صلہ کی توقع بھی، وہ بھی نہ رہا، اب کون سی چیز باقی ہے جو شعر کہلوائے۔" گویا اس نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ جب تک دل میں کسی قسم کا جوش اور ولولہ نہ ہو اس وقت تک شعر سر انجام نہیں ہو سکتا۔ فرزوق کہا کرتا تھا کہ "میں یاس و نومیدی کی حالت میں اشعر الناس ہوں لیکن بعض اوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ دانت کو مسوڑے سے اُکھیڑنا مجھ کو زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے بہ نسبت شعر کہنے کے۔" یعنی بغیر اقتضائے طبیعی اور دلی جوش کے شعر سر انجام نہیں ہو سکتا۔ خریمی شاعر سے پوچھا گیا کہ کیا سبب ہے تیرے مدحیہ قصیدے جو محمد بن منصور کی شان میں اس کی زندگی میں تو نے لکھے تھے بہ نسبت مرثیوں کے جواب تو اس کی نسبت لکھتا ہے زیادہ عمدہ ہیں؟ اس نے تسلیم کیا اور نہایت ایمانداری سے جواب دیا کہ "ہماری امیدیں اور خواہشیں زیادہ قوی اور پُر زور ہیں بہ نسبت ہماری وفاداری اور حق گزاری کے۔ قصیدے ہم سے امید لکھواتی ہے اور مرثیے وفاداری لکھواتی ہے۔ اس لیے دونوں میں فرق بین نظر آتا ہے۔" غرضیکہ جب تک دل میں کسی بات کی چٹیک نہ ہو قوتِ متخیلہ مضامین کے القا کرنے میں فیاضی نہیں کرتی۔ مگر جوش شاعر کے کلام میں جبھی تک باقی رہ سکتا ہے کہ کوئی شے اس کی آزادی کی مذاحم نہ ہو یا اس کی آزاد طبیعت کسی خوف اور روک ٹوک کی کچھ پرواہ نہ کرئے۔ ورنہ ممکن ہے کہ جس مضمون کا جوش فی الواقع اس کی طبیعت میں موجود ہے اس کو وہ عمدگی اور خوبی کے ساتھ ادا نہ کر سکے۔

آزادی کی مزاحمت کئی طرح ہوتی ہے۔ کبھی شاعر کو کسی کا خوف اپنے خیالات آزادانہ ظاہر کرنے سے مانع ہوتا ہے۔ چنانچہ کیثر عزہ اور کمیت بن زید جو نہایت پکے شیعی تھے ان کی نسبت کہا گہا ہے کہ جو کچھ انہوں نے بنی ہاشم کی مدح میں کہا ہے وہ شاعری کے لحاظ سے اس درجہ کا نہیں ہے۔ جیسے بنی امیہ کی مدح کے قصیدے۔ لیکن ایسی مزاحمت آزاد طبع شاعر کے جوش کو بعض اوقات اور زیادہ ابھار دیتی ہے۔ جعفر برمکی کے مرثیے پر لکھنے پر لوگ قتل کئے گئے۔ باایں ہمہ بعضوں نے اسک کے مرثیے ایسے کوش و خروش کے ساتھ لکھے ہیں کہ آج تک یادگار ہیں۔

کبھی سوسائٹی کا دباؤ یا لالچ اور طمع یا اور کوئی ترغیب اس کی طبیعت کے بہاؤ کا رخ سیدھے رستے سے دوسری طرف پھیر دیتی ہے یہ افتاد ہمارے اکثر شاعروں پر پڑی ہے اور اس نے بہت سے ہونہار روشن طبع شاعروں کو ہزال و فحاش و مسخرہ تک بنا دیا ہے۔

کبھی شاعر کے پیچھے ایک کر ایسی لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو مجبورا کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے۔ مثلا ہر تقریب یا تہوار پر تہینت کا قصیدہ لکھنا یا ہر ہفتہ یا عشرہ میں مشاعرہ کی طرح پر غزل سرانجام کرنی۔ گو بظاہر اس میں آزادی کی کچھ مزاحمت نہیں معلوم ہوتی۔ لیکن انسان کی نیچر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ایسی کریں اس کی چلتی گاڑی میں روڑا اٹکا دیتی ہیں۔ وہ جس طرح ممنوعات پر باطبع حریص ہے اسی طرح تکلیفات سے بالطبع ۔۔۔۔ کرنے والا ہے۔ انشا اللہ خاں جب تک مطلق العنان رہے سعادت علی خان کے دربار میں نت نئے شگوفے اور چٹکلے چھوڑتے اور بات بات پر لطیفے انشا کرتے تھے۔ لیکن جب سعادت علی خاں نے یہ کر لگا دی کہ ہر روز دو ایسی نئی باتیں بیان کر دیا کرو جو کبھی نہ سنی ہوں، پھر وہی انشا اللہ خاں تھے کہ پاگلوں کی طرح گلی کوچوں میں لڑکوں سے پوچھتے پھرا کرتے تھے کہ بھئی کوئی نئی بات بتاؤ۔ آخر اسی جستجو میں قطع پاگل ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یورپ کے ایک زبردست شاعر کا حال سنا ہے کہ جب اس نے اپنی آئندہ تصنیفات کا کاپی رائٹ کس پبلشر کے ہاتھ فروخت کر دیا تو وہ کہا کرتا تھا کہ اس معاہدے سے میری طبیعت بند ہوئی جاتی ہے۔ جب کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں ساتھ ہی یہ خیال گزرتا ہے کہ اب ہم جو کچھ لکھتے ہیں اپنے دل کی اُپچ سے نہیں بلکہ اپنا معاہدہ پورا کرنے کو لکھتے ہیں۔ اس خیال سے طبیعت خود بخود بیٹھی جاتی ہے۔

بہر حال جہاں تک ممکن ہو کسی مضمون کے لکھنے پر اس وقت تک قلم اٹھانی نہیں چاہیے جب تک اس کی چٹیک دل کو نہ لگی ہو۔ کسی کی ریس سے کسی کی فرمائش سے، کسی کے دباؤ سے یا کسی اور مجبوری کے سبب بغیر اقتضائے طبیعی اور ولولہ باطنی کے جو شیر کہا جائے گا یا جو نظم سر انجام ی جائے گی اس میں اثر اور زور پیدا کرنا نہایت دشوار ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
غزل، قصیدہ اور مثنوی :

پانچویں اصناف سخن میں سے تین ضروری صنفیں جن کا ہماری شاعری میں زیادہ رواج ہے یعنی غزل، قصیدہ اور مثنوی ان کے متعلق چند مشورے دیئے جاتے ہیں۔ سب سے اول ہم غزل کا ذکر کرتے ہیں اور ایک خاص مناسبت کی وجہ سے رباعی اور قطعہ کو غزل کی ذیل میں داخل کرتے ہیں۔

غزل :

غزل 15 میں جیسا کہ معلوم ہے کہ کوئی خاص مضمون مسلسل بیا نہیں کیا جاتا۔ لا ماشاٗ اللہ۔ بلکہ جدا جدا خیالات الگ الگ بیتوں میں ادا کئے جاتے ہیں۔ اس صنف کا زیادہ تر رواج مودہ حیثیت کے ساتھ اول ایران میں اور کوئی ڈیڑھ سو برس سے ہندوستان میں ہوا ہے۔ اگرچہ غزل کی اصل وضع جیسا کہ لفظ غزل سے پایا جاتا ہے محض عشقیہ مضامین کے لیے ہوئی تھی۔ مگر ایک مدت کے

(صفحہ 104 ختم شد)
 
Top