فرحت کیانی
لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری۔۔۔الطاف حسین حالی
ص 21-25
صفحہ 21
آدمی تھا باوجودیکہ حسن میمندی وزیر سلطان محمود کو اس کے فائدہ یا ضرر پہنچانے میں بہت بڑا دخل تھا مگر وہ اس کو بلکہ خود سلطان کو کچھ خاطر میں نہ لاتا تھا۔ جب میمدی کی مخالفت کا حال اس کو معلوم ہوا تو اس نے یہ شعر لکھے تھے
من بندہ کز مبادی فطرت بنودہ ام
مائل بہ مال ہر گز طامع بہ جاہ نیز
سوئے درِ وزیر چرا ملتفت شوم
چوں فارغم ز بارگاہ پادشاہ نیز
اس کی آزادی اور راست گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان کے مزاج کو اس سے متغیر کر دیا گیا۔ کبھی اس کے کلام سے اس کی دہریت پر اور کبھی اعتزال و تشیع پر استدلال کیا گیا اور ساٹھ ہزار بیت کی مثنوی جس کا صلہ فی بیت ایک مثقال طلا قرار پایا تھا۔ اس کے حصے میں سوائے محروم و ناکامی کے اس کو کچھ نہ ملا۔ مگر فی الحقیقت جیسی کہ اس نے اپنے کلام کی داد پائی ہے۔ شاید ہی کسی شاعر کو ایسی داد ملی ہو۔ اس کے شاہنامہ نے تمام دنیا کے دلوں کو مسخر کر لیا اور بڑے بڑے مسلم الثبوت استاد اس کی فصاحت کا لوہا مان گئے اور اس کا سبب اور کچھ نہ تھا۔ سوا اس کے کہ سوسائٹی یا دربار کا دباؤ اس کی آزاد طبیعت پر غالب نہیں آیا۔
صدر اسلام کی شاعری کا کیا حال تھا:
صدر اسلام کی شاعری میں جب تک کہ غلامانہ تملق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے۔ جو لوگ مدح اور جوذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی منصف اور نیک خلیفہ یا وزیر مرجاتا تھا اس کے دردناک مرثیے لکھے جاتے تھے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔ خلفاء و سلاطین کی مہمات اور فتوحوت میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آتے تھے ، ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔
صفحہ 22
احباب کی صحبتیں جو انقلابِ روزگار سے برہم ہو جاتی تھیں ان پر دردناک اشعار لکھے جاتے تھے پارسا بیویاں شوہروں کے اور شوہر بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشاء کرتے تھے۔ چراگاہوں، چشموں اور وادیوں کی گزشتہ صحبتوں اور جمگھٹوں کی ہوبہو تصویر کھینچتےتھے۔ اپنی اونٹنیوں کی جفاکشی اور تیزرفتاری ،گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے۔ بڑھاپے کی مصیبتیں،جوانی کی عیش اور بچپن کی بے فکریوں کا ذکر کرتے تھے اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالتِ غربت میں لکھتے تھے۔ اپنی سرگزشت ،واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ اپنے خاندان اور قبیلہ کی شجاعت اور سخاوت وغیرہ پر فخر کرتے تھے، سفر کی محنتیں اور مشقتیں کو خود ان پر گزرتی تھیں بیان کرتے تھے عالمِ سفر کے مقامات اور مواضع شہر اور قریے، ندیاں اور چشمے سب نام بنام اور جو بری یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں ان کو موثر طریقہ سے ادا کرتے تھے، بیوی بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ دربار کے تملق اور خوشامد نے وہ سرجیون سوتی سب بند کر دیں اور شعرا کے لیے عام طور پر صرف دو میدان باقی رہ گئے جن مین وہ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے تھے ایک مدحیہ مضامین جن سے ممدوحین کا خوش کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ دوسرےعشقیہ مضامین جن سے نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی تھی۔ پھر جب ایک مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح کچھ مزہ باقی نہ رہا اور سلاطین و اُمراء کی مجلسیں گرم کرنے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت ہوئی تو مطالبات و مضحکات واہاجی دہزلیات کا دفتر کھلا۔ بہت سے شاعروں نے سب چھوڑ چھاڑ یہی کوچہ اختیار کر لیا اور رفتہ رفتہ یہ رنگ تمام سوسائٹی پر چڑھ گیا۔ اگرچہ ابتداء سے اخیر تک ہر طبقہ اور ہر عہد کے شعراء میں کم و بیش ایسے واجب التعظیم لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی شاعری پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں لیکن شارع عام پر زیادہ تر وہی لوگ نظر آتے
ص 21-25
صفحہ 21
آدمی تھا باوجودیکہ حسن میمندی وزیر سلطان محمود کو اس کے فائدہ یا ضرر پہنچانے میں بہت بڑا دخل تھا مگر وہ اس کو بلکہ خود سلطان کو کچھ خاطر میں نہ لاتا تھا۔ جب میمدی کی مخالفت کا حال اس کو معلوم ہوا تو اس نے یہ شعر لکھے تھے
من بندہ کز مبادی فطرت بنودہ ام
مائل بہ مال ہر گز طامع بہ جاہ نیز
سوئے درِ وزیر چرا ملتفت شوم
چوں فارغم ز بارگاہ پادشاہ نیز
اس کی آزادی اور راست گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان کے مزاج کو اس سے متغیر کر دیا گیا۔ کبھی اس کے کلام سے اس کی دہریت پر اور کبھی اعتزال و تشیع پر استدلال کیا گیا اور ساٹھ ہزار بیت کی مثنوی جس کا صلہ فی بیت ایک مثقال طلا قرار پایا تھا۔ اس کے حصے میں سوائے محروم و ناکامی کے اس کو کچھ نہ ملا۔ مگر فی الحقیقت جیسی کہ اس نے اپنے کلام کی داد پائی ہے۔ شاید ہی کسی شاعر کو ایسی داد ملی ہو۔ اس کے شاہنامہ نے تمام دنیا کے دلوں کو مسخر کر لیا اور بڑے بڑے مسلم الثبوت استاد اس کی فصاحت کا لوہا مان گئے اور اس کا سبب اور کچھ نہ تھا۔ سوا اس کے کہ سوسائٹی یا دربار کا دباؤ اس کی آزاد طبیعت پر غالب نہیں آیا۔
صدر اسلام کی شاعری کا کیا حال تھا:
صدر اسلام کی شاعری میں جب تک کہ غلامانہ تملق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے۔ جو لوگ مدح اور جوذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی منصف اور نیک خلیفہ یا وزیر مرجاتا تھا اس کے دردناک مرثیے لکھے جاتے تھے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔ خلفاء و سلاطین کی مہمات اور فتوحوت میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آتے تھے ، ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔
صفحہ 22
احباب کی صحبتیں جو انقلابِ روزگار سے برہم ہو جاتی تھیں ان پر دردناک اشعار لکھے جاتے تھے پارسا بیویاں شوہروں کے اور شوہر بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشاء کرتے تھے۔ چراگاہوں، چشموں اور وادیوں کی گزشتہ صحبتوں اور جمگھٹوں کی ہوبہو تصویر کھینچتےتھے۔ اپنی اونٹنیوں کی جفاکشی اور تیزرفتاری ،گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے۔ بڑھاپے کی مصیبتیں،جوانی کی عیش اور بچپن کی بے فکریوں کا ذکر کرتے تھے اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالتِ غربت میں لکھتے تھے۔ اپنی سرگزشت ،واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ اپنے خاندان اور قبیلہ کی شجاعت اور سخاوت وغیرہ پر فخر کرتے تھے، سفر کی محنتیں اور مشقتیں کو خود ان پر گزرتی تھیں بیان کرتے تھے عالمِ سفر کے مقامات اور مواضع شہر اور قریے، ندیاں اور چشمے سب نام بنام اور جو بری یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں ان کو موثر طریقہ سے ادا کرتے تھے، بیوی بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ دربار کے تملق اور خوشامد نے وہ سرجیون سوتی سب بند کر دیں اور شعرا کے لیے عام طور پر صرف دو میدان باقی رہ گئے جن مین وہ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے تھے ایک مدحیہ مضامین جن سے ممدوحین کا خوش کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ دوسرےعشقیہ مضامین جن سے نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی تھی۔ پھر جب ایک مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح کچھ مزہ باقی نہ رہا اور سلاطین و اُمراء کی مجلسیں گرم کرنے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت ہوئی تو مطالبات و مضحکات واہاجی دہزلیات کا دفتر کھلا۔ بہت سے شاعروں نے سب چھوڑ چھاڑ یہی کوچہ اختیار کر لیا اور رفتہ رفتہ یہ رنگ تمام سوسائٹی پر چڑھ گیا۔ اگرچہ ابتداء سے اخیر تک ہر طبقہ اور ہر عہد کے شعراء میں کم و بیش ایسے واجب التعظیم لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی شاعری پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں لیکن شارع عام پر زیادہ تر وہی لوگ نظر آتے