عدیم ہاشمی مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے

زباں نے جسم کا کچھ زہر تو اگل ڈالا
بہت سکون ملا تلخیٔ نوا سے مجھے

رچا ہوا ہے بدن میں ابھی سرورِ گناہ
ابھی تو خوف نہیں آئے گا سزا سے مجھے

میں خاک سے ہوں مجھے خاک جذب کر لے گی
اگرچہ سانس ملے عمر بھر ہوا سے مجھے

غذا اسی میں مری، میں اسی زمیں کی غذا
صدا پھر آتی ہے کیوں پردۂ خلا سے مجھے

میں جی رہا ہوں ابھی اے زمینِ آدم خور
ابھی تو دیکھ نہ تو اتنی اشتہا سے مجھے

بکھر چکا ہوں میں اب مجھ کو مجتمع کر لے
تو اب سمیٹ بھی اپنی کسی صدا سے مجھے

میں مر رہا ہوں پھر آئے صدائے کن فیکوں
بنایا جائے مٹا کے پھر ابتدا سے مجھے

میں سر بہ سجدہ ہوں اے شمرؔ مجھ کو قتل بھی کر
رہائی دے بھی اب اس عہدِ کربلا سے مجھے

میں کچھ نہیں ہوں تو پھر کیوں مجھے بنایا گیا
یہ پوچھنے کی اجازت تو ہو خدا سے مجھے

میں ریزہ ریزہ بدن کا اٹھا رہا ہوں عدیمؔ
وہ توڑ ہی تو گیا اپنی التجا سے مجھے
 

سیما علی

لائبریرین
میں کچھ نہیں ہوں تو پھر کیوں مجھے بنایا گیا
یہ پوچھنے کی اجازت تو ہو خدا سے مجھے

میں ریزہ ریزہ بدن کا اٹھا رہا ہوں عدیمؔ
وہ توڑ ہی تو گیا اپنی التجا سے مجھے
بہت اعلیٰ
بہت شکریہ شئیرنگ کے لئے ۔۔
جیتے رہیے ۔۔۔بھیا
 
Top