مغوی

نوید ناظم

محفلین
آج انسان کا انسان سے رشتہ یا تو خوشامد کا ہے یا مصلحت اندیشی کا۔۔۔۔ مشکل ہے کہ اگر کوئی ہمیں ہماری خامی سے آگاہ کرے اور ہم اسے اپنا دوست خیال کرلیں، حالانکہ اخلاص کا تقاضا خوبی سے آگاہ کرنا ہو یا نہ ہو، خامی سے آگاہ کرنا ضرور ہے۔ ہم یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں اصلاح کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہم خود کو مسند نشین اور دوسروں کو مسکین سمجھتے رہتے ہیں، دوسروں کو بیوقوف اور خود کو ذہین سمجھتے رہتے ہیں۔ آج کم و بیش ہر انسان یہی جانتا ہے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔ صحبت نشینی ختم ہو گئی اورعلم کی جستجو رکھنے والا بھی محض کتابوں کے بوجھ تلے دب کے رہ گیا۔ جھوٹ کے اس دور میں سچ بولنے کا سلیقہ بھی جاتا رہا...سچ بولنے سے ضروری بات یہ ہے کہ سچ کیسے بولنا ہے، مگر آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ انسان سچ بول رہا ہو یا جھوٹ، دونوں سے خدا کی پناہ۔ محبت زندگی سے اور زندگی محبت سے نکلتی جارہی ہے۔ ہم سب اک دوسرے کے آس پاس رہتے ہیں مگر ہم سب اک دوسرے سے دور ہیں، اپنے اپنے غم میں محو، اپنے اپنے دکھ پر خوش۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ آج کے انسان نے ضرورت کے رشتے پیدا کر لیے اور رشتوں کی ضرورت دم توڑ گئی۔۔۔۔ غیر اپنے لگتے ہیں اور اپنے غیرلگتے ہیں۔ انسان میں تقاضا بڑھ گیا، acknowledgment کی آرزو حد سے آگے نکل گئی۔ انسان اپنے فرائض فراموش کر کے اپنے حقوق کے حق میں کھڑا ہو گیا۔ ایثار کا جذبہ ناپید ہوا تو لالچ نےانسان کو اندر سے اغوا کر لیا اور یہ اپنوں سے، اپنے آپ سے....سب سے دور نکل گیا!
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اس بات کو صراحت سے واضح کردیں کہ محبت زندگی سے( کیسے) زندگی محبت سے (کیسے) (دونوں کے مابین موازنہ.چاہیے) نکلتی جا رہی ہے
 

نوید ناظم

محفلین
اس بات کو صراحت سے واضح کردیں کہ محبت زندگی سے( کیسے) زندگی محبت سے (کیسے) (دونوں کے مابین موازنہ.چاہیے) نکلتی جا رہی ہے
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ہم ان کا فلسفیانہ تجزیہ کرنا شروع کر دیں تو ان کا لطف جاتا رہتا ہے۔ باقی یہ کہ ہر بات وقت کے ساتھ کھل ہی جاتی ہے۔۔۔۔ بہار کا موسم آ جائے تو پھول خود ہی کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ انتظار شرط ہے!
 
Top