مغزِ شاعر ٭ ساغر خیامی

عرفان سعید

محفلین
مغزِ شاعر

اک روز ڈاکٹر سے یہ میں نے کہا جناب
مدت سے کہہ رہا ہوں میں نظمیں بہت خراب

چیک کر کے میری کھوپڑی کہنے لگا حضور
بھیجے میں گھس گیا ہے کوئی آپ کے فتور

میں نے کہا علاج بتائیں کوئی شتاب
کہنے لگوں میں نظمیں کریکٹ سی کامیاب

بولا بدلنا ہوگا یہ بھیجا حضور کا
بس ہے یہی علاج دماغی فتور کا

میں نے کہا دماغ کہاں اور کہاں حقیر
بولا کہ دان مانگیے پھر دیکھیے شریر

میں نے کہا کہ ایسا ہی ویسا چلے گا کیا
بولا کہ شاعرانہ ہو کیڑا دماغ کا

پہلے تو ایک شاعر اعظم سے میں ملا
بربادئ دماغ کا ان سے کیا گلا

میں نے کہا کہ مجھ پہ کرم کیجئے جناب
تھوڑا سا مغز مجھ کو عنایت کریں شتاب

بولے ہمارا بیٹھ کے بھیجا نہ کھائیے
اڑیے یہاں سے اور کہیں سیٹی بجائیے

اردو ادب میں جو بھی ہمارا مقام ہے
استادِ محترم کے وہ بھیجے کا کام ہے

محرومِ مغز ایک دکاں پر گئے جو ہم
آئے نظر دکان پہ بھیجے کئی بہم

کچھ سرپھرے دماغ حسیں لڑکیوں کے تھے
بک بک جو کر رہے تھے وہ سب بیویوں کے تھے

انگلینڈ کا دماغ کوئی قاہرہ کا تھا
چغلی جو کر رہا تھا کسی شاعرہ کا تھا

عاشق مزاج کام نہ لے کر برین سے
بھیجے لڑا رہے تھے ہر اک عین غین سے

فولاد کے قفس میں وہ سارے اسیر تھے
بھیجے فسادیوں کے وہاں پر کثیر تھے

بولا دوکان دار کہ کیا چاہیے جناب
ہونے نہ دوں گا آپ کو میں خانما خراب

میں نے کہا برین کوئی عاشقانہ دے
جلدی سے اک دماغ مجھے شاعرانہ دے

دکھلا کے اک دماغ وہ کہنے لگا جناب
رگ رگ میں ہیں پھنسے ہوئے اشعار بے حساب

بھیجا مہک رہا ہے زمانے کی داد سے
لبریز ہے دماغ غزل کے مواد سے

چھوٹی بڑی لکیریں جو اس میں مزید ہیں
نظمیں نہیں حضور یہ غزلیں جدید ہیں

بھیجے میں یہ رگیں نہیں گیسو ہیں میت کے
دھبے نہیں حضور یہ مکھڑے ہیں گیت کے

دکھلا کے سارے چھید لہو سے جو بند تھے
مرحوم کو کہا کہ ترقی پسند تھے

میں نے کہا یہ مکھیاں کیوں بھن بھنائے ہیں
بولا نئی غزل پہ نئی دھن بٹھائے ہیں

میں نے کہا کہ دام بتائیں مجھے شتاب
بولا دماغ ٹھیک ہے اور دام ہیں خراب

بھیجے مری دکان پہ سب آنہ پائی ہیں
شاعر کے بس دماغ کے پیسے بھی ہائی ہیں

میں نے کہا کہ کھول دے یہ راز تو نہاں
شاعر کے کیوں دماغ کے پیسے کیے گراں

بولا کبھی کبھار یہ بکتا ہے کیا کریں
سو پھوڑیے تو ایک نکلتا ہے کیا کریں

۔۔۔ ساغر خیامی ۔۔۔
 
Top