بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج __ جب کہ مغرب’ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا رہا ہے’ اور دنیا کو مستقبل میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک زبردست تہذیبی معرکہ برپا ہونے کی خبر دے رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنی طرف سے اس جنگ کے لیے پوری تیاریاں بھی کررہا ہے’ اور جو کچھ پیش قدمی اس وقت کرنا ممکن ہیں’ وہ بھی کررہا ہے ___ مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جس کے گرد یہ تہذیبی جنگ لڑی جارہی ہے؟ اور اس جنگ میں فیصلہ کن حیثیت کس ایشو اور کس مسئلے کو حاصل ہے؟
کشمکش کا محرک
شاید کم ہی لوگ ہوں گے جنہیں اس بات کا ادراک ہو’ یا جو اسے آسانی سے تسلیم کرلیں’ لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل اور فیصلہ کن ایشو اور مسئلہ رسالت محمد ﷺ کی صداقت کا ایشو اور مسئلہ ہے:
"کیا محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ "
غار حرا میں پہلی وحی آنے کے بعد’ روز اول سے یہی سوال نزاع وجدل کا اصل موضوع تھا’ اور آج بھی یہی ہے۔ اس وقت ھی انسان اسی بات کے ماننے اور نہ ماننے پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئے تھے’ اور ان کے جواب نے قوموں کے مقدر اور تاریخ و تہذیب کے رخ کا فیصلہ کردیا تھا’ آج بھی اسی سوال پر مستقبل کا مدار ہے۔ یہ کشمکش تو ازلی و ابدی ہے:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی ﷺ سے شرار بو لہبی
مغرب کے معاشی’ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کا مسئلہ بھی یقیناً اہم ہے’ تیل کے چشمے بھی اہم ہیں۔ اسی لیے مغربی قیادت نے عالمِ اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا ہے’ مسلمان حکمرانوں کو اپنا باج گزار بنایا ہے اور شرق اوسط میں فوجی اڈوں کا جال بچھا لیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو کمزور اور بے طاقت کر رہا ہے’ یا جن سے سرتابی کا شبہہ ہے ان کے گلے میں پھندا کس رہا ہے۔ لیکن مفادات کے تنازعات تو امریکا’ یورپ’ جاپان ’ چین اور روس کے درمیان بھی ہیں’ ان کی بنا پر ان کے درمیان مستقل دشمنی اور ایک دوسرے کی بربادی کے مشورے اور منصوبے نہیں۔ دراصل مسئلہ مفادات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ مفادات ان لوگوں اور علاقو میں واقع ہیں جو محمد ﷺ کے نام لیوا ہیں’ اور آپ ﷺ کے دین کے لیے مرنے کو ندگی سے زیادہ محوب رکھتے ہیں۔
تہذیبی ایشوز کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی دہائی ہے’ عورتوں کے مقام’ ان کی خود اختیاری (Empowerment) اورآزادی (Liberation) پر اصرار ہے’ اسلامی قوانین اور حدود کے خلاف دباؤ ہے اور جمہوریت دشمن ہونے کا الزام ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی بڑی آبادیاں اور بھی ہیں’ جو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ان ساری مزعومہ تہذیبی اقدار کی خلاف ورزی کی مجرم ہیں اور ان ‘تحائف’ کی مستحق۔
ظاہر ہے کہ اصل لڑائی ان تہذیبی ایشوز پر بھی نہیں’ بلکہ یہ ایشوز تو اس تہذیب کی بربادی کے لیے لاٹھی کا کام کررہے ہیں’ جس کی تشکیل و ترکیب اور ترتیب و تکوین’ رسالت محمد ﷺ کے دم سے ہے۔
مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے’ مسلمان آج اتنے کمزور ہیں کہ سیاسی’ معاشی اور فوجی لحاظ سے کسی طرح بھی وہ ان کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اہل مغرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر مسلمان اپنے نظام معاشرت و سیاست اور جرم و سزا کی تسکیل اسلام کے مطابق کریں’ حجاب اختیار کریں یا حدید نافذ کریں’ تو بھی مغربی تہذیب کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن وہ اس بات کی مسلسل رٹ لگائے جارہا ہے: " اسلام کا احیا اور مسلمان ____ (اس کے الفاظ میں فنڈا منٹلزم یا بنیاد پرستی) ____دراصل مغرب کی تہذیب’ اس کے طرز زندگی’ اس کی اقدار اور اس کی آج تک کی حاصل کردہ تہذیبی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے"____ ایسا کیوں ہے؟ رسالت محمدی ﷺ کی وجہ سے!
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر ﷺ کہیں
الحذر آئین پیغمبر ﷺ سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن’ مرد آزما’ مرد آفریں
عام مسلمان اگر تہذیبی جنگ کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں’ تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ جو احیائے اسلام کے علم بردار ہیں’ وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک اور احساس نہیں رکھتے ۔ اسی لیے رسالت محمدی ﷺ کا ان کے ایجنڈے پر وہ مقام نہیں’ جو ہونا چاہیے۔ حالاں کہ تہذیبی جنگ’ دل اور زندگی جیتنے کی جنگ ہے۔ دل پہلے بھی خاتم الانبیا محمد ﷺ کی محبت سے مجتمع اور توانا ہوئے تھے’ آج بھی اسی محبت سے ایمان’ اتحاد اور قوتِ عمل سے سرشار ہوں گے۔ اس کے باوجود رسالت محمدی ﷺ کے لیے انسانوں کے دل اور ان کی زندگیاں مسخر کرنے کےلیے جو کچھ کرنا چاہیے’ افسوس صد افسوس کہ وہ نہیں کیا جارہا۔ یہی کچھ کرنے کا احساس اور جذبہ و فکر پیدا کرنا آج ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس تصادم کا تاریخی سفر
رسالت محمدی ﷺ کےخلاف یورپ کی یہ جنگ کوئی نئی جنگ نہیں ہے۔
جب سے اسلام اور عیسائیت کا آمنا سامنا ہواہے’ اس وقت سے عیسائیت اور یورپ نے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کا مرکز و ہدف ذات محمدی ﷺ اور رسالت محمدی ﷺ کو بنایا ہے۔ محمد ﷺ کے نام لیوا اچانک صحرائے عرب سے نمودار ہوئے’ اور پلک جھپکتے میں انہوں نے شام’ فلسطین’ مصر’لیبیا’ تیونس اور الجیریا ____ جو عیسائیت کے گڑھ تھے ____ کی زمام کار سنبھال لی۔ نہ صرف انہیں اپنے انتظام میں لیا’ بلکہ آبادیوں کی آبادیاں بہ رضا ورغبت’ رسالت محمدی ﷺ کی تابع بن گئیں۔ یہی نہیں’ ہزار سال تک اس کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا’ اور مسیحی پادریوں کی ہزار بددعاؤں ’ خواہشوں اور ان کے حکمرانوں کی عملی کوششوں کے باوجود’ وہ ڈھلنے پر نہ آیا۔
وہ متحیر’ شکست خوردہ اور غیظ و غضب کا شکار تھے۔ مزید غصے کی بات یہ تھی کہ ان کی کرسٹالوجی (سیدنا مسیح علیہ السلام کی اہنیت / ولدیت اور مصلوبیت ) اور شریعت کی عدم پابندی کے علاوہ دین اسلام میں کوئی چیز ان کی عیسائیت سےخاص مختلف نہ تھی’ بلکہ دونوں میں بڑی یکسانیت تھی۔ وہ حیران و ششدر تھے کہ اس غیر معمولی واقعے کی توجیہ کیا اور کیسے کریں؟ اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ عیسائیوں کو مسلمان بننے سے کیسے روکیں؟
ان کو یہی نظر آیا کہ اس سارے " فتنے (نعوذ باللہ) کی جڑ’ اور ان کی ساری مصیبت کا سبب’ محمد ﷺ کی رسالت ہے۔ مسلمانوں کی قوت و شکست کا راز حضور ﷺ پر ایمان و یقین اور آپ ﷺ کی ذات سے والہانہ مھبت اور وابستگی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا سارا زور یہ بات ثابت کرنے پر لگا دیا کہ : (نعوذ باللہ) حضور ﷺ کا دعواے رسالت درست نہیں تھا اور قرآن آپ ﷺ کی تصنیف کردہ کتاب ہے’ وہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں سے مانگ تانگ کر اور مدد لے کر’ اور اپنے مضامین و اسلوب اور بے ربطی وتکرار کی وجہ سےکلام الٰہی کہلانے کی مستحق نہیں۔ یا کوئی سنجیدہ’ علمی مہم بھی نہ تھی۔ مغرب کا دورِ ظلمت (Dark Age) ہو یا ازمنئہ وسطی (Medieval Ages) یا روشن خیالی (Enlightenment) ’ ان کےہاں اس مقصد کے لیے حضور ﷺ کے کردار پر انتہائی رکیک الزمات گھڑے گئے اور غلیظ الزامات لگائے گئے۔ آپ ﷺ کی زندگی کے ہر واقعے کو بدترین معنی پنائے گئے اور اسے مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ تلوار’ خون ریزی اور قتل و غارت کے ذریعے’ اور لوٹ مار اور دنیاوی لذائذ سے لطف اندوزی کی کھلی چھوٹ کا لالچ دے کر’ آپ ﷺ نے اپنے گرد پیروکار جمع کیے’ اور ان کے ذریعے دنیا کو فتح کیا۔ یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کے لیے اہلِ مغرب کی جانب سے زبان بھی انتہائی غلیظ استعمال کی گئی۔ اتنی غلیظ کی اس کا نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے’ یا آگے نقل کریں گے’ وہ دل پر انتہائی جبر کر کے’ اس لیے کہ نقلِ کفر کفر نہ باشد۔ انہیں نقل کرتے ہوئے ہمارا قلم کانپتا اور روح لرزہ براندام ہوتی ہے’ مگر صرف اس لیے یہ جسارت کرر ہے ہیں کہ مسئلے کو سمجھنا ممکن ہو اور خود قرآن نے بھی مخالفین کے الزامات نقل کیے ہیں۔
سینٹ جان آف دمشق [م: ۷۵۳ٗ] حضرت عمر بن عبد العزیزؒ [م: ۷۲۰ٗ] سے قبل اموی دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اسلام سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے: " بنی اسماعیل کی اولدا میں ’ محمد ﷺ کے نام سے [معاذ اللہ] جھوٹے نبی نمودار ہوئے۔ وہ تورات و انجیل سے واقف تھے۔ ایک عیسائی راہب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کچی پکی معلومات کے بل پر انہوں نے عیسائیت کی ایک تحریف کردہ شکل وضع کر کے پیش کردی اور لوگوں سے تسلیم کرالیا کہ وہ خدا ترس انسان ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلا دی کہ ان پر آسمان سے کتابِ مقدس نازل ہو رہی ہے۔ عیسی(علیہ السلام) اور موسی (علیہ السلام) کی طرح’ وہ اپنی وحی کی صداقت پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکے’ نہ کوئی معجزہ (۱)۔
انہی خطوط پر’ خلیفہ مامون کے ایک درباری [ابن اسحاق۔ م: ۸۷۰ٗ] نے عبد المسیح الکندی کا قلمی نام اختیار کرکے الرسالہ کے نام سے ایک فرضی مکالمہ لکھا’ اور حضور اکرم ﷺ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا: " محمد کس طرح سچے نبی ہوسکتے ہیں’ جب کہ آپ نے خوں ریزی کی’ اپنی نبوت کی تائید میں کوئی معجزات پیش نہ کیے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو کتابِ الٰہی کس طرح ہوسکتا ہے؟ "
سینٹ جان آف دمشق اور عبد المسیح الکندی کے الرسالہ نے ’ بیسویں صدی کے آغاز تک ’ محمد ﷺ کے بارے میں اہلِ یورپ کے رویے اور فکر کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی میں الرسالہ کا لاطینی ترجمہ اسپین میں شائع ہوا’ پندرہویں صدی میں سوئٹزر لینڈ میں’ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں سر ولیم میور [م: ۱۹۰۵ٗ] نے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کرنا ضروری سمجھا۔ ایک ہزار سال کے اس طویل عرصے میں پادریوں اور یورپی دانش وروں نے رسالت محمدی ﷺ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے’ وہ بنیادی طور پر مسیح الکندی اور سینٹ جان آف دمشق ہی کی اس یاوہ گوئی کو دہراتے رہتے ہیں:
۱۔ قرآن’ یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھ کر وضع کیا گیا’ متضاد اور الجھی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہے۔
۲۔ اخلاقی الزامات
۳۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرح موقع پرستی اور مکروفریب کی کاروائیاں’ اعاذنا اللہ من ذلک ونشہد ان محمد عبدہ ورسولہ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
۱۔ Encounter and Clashes: Islam and Christianity in History Rome, 1990