مغربی دو رخی اور ہمارے سادہ لوح لوگ

ذوالقرنین

لائبریرین
ایک درد دل کا فکری تحریر جو مجھے بہت اچھا لگا۔ من و عن پیش کر رہا ہوں۔ براہ کرم مراسلے کا بخیہ ادھیڑنے سے پہلے اول سے آخر تک ضرور پڑھیے گا۔
مغربی دو رخی اور ہمارے سادہ لوح لوگ
مصنف: بنیاد پرست ۔​
کیا مغربی ممالک اخلاقیات کے اعلی درجے پر فائز ہیں؟
کیا مغرب واقعی انسانوں کی قدر کرنا سکھاتا ہے ؟
کیا مغرب کا مذہب مساوات و انصاف پسندی ہے؟
کیا یورپ امریکہ واقعی مسلمان ممالک سے زیادہ حوصلہ و برداشت رکھتے ہیں ؟
ہمارے ہاں یہ بیماری عام ہے کہ کوئی شخص کسی مغربی ملک میں چند دن رہ کر آجاتا ہے یا کسی سے وہاں کی حکومتوں کی اپنے لوگوں کو دی گئی سہولتوں کے تذکرے سن لیتا ہے تو پھر ہر جگہ اپنے معاشرے اور مسلمانوں پر لعنت بھیجتا اور یورپ و امریکہ کے نظام کے گن گاتا نظرآتا ہے۔حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ اورامریکہ میں میسر وہ سہولتیں جن کو دیکھ کہ ہمارے لوگ اپنے ملک ومعاشرے کو گالی دیتے ہیں صرف مغرب کے اپنے لوگوں کے لیے ہیں یا وہ جو ان جیسا ہوکر رہنا چاہے ۔ مبصرین اس بات کے قائل ہیں کہ یورپی حکومتیں اب ان خطوط پر سوچ رہی ہیں کہ یا تو مسلمان ہمارے ملکوں میں رہتے ہوئے ہمارے رسم و رواج اور طرز زندگی کے مطابق زندگي گزاریں یا پھر اپنا کوئی اور بند و بست کرلیں ۔افسوس کا مقام ہے کہ مغرب کے منہ سے آج بھی خون مسلم ٹپک رہا ہے اور اس کے ہاتھوں سےآج بھی ایک ایک دن میں ہزاروں مسلمان جل بھن کر راکھ بن جاتے ہیں لیکن پھر ہمارے دانشور انہیں اعلی اخلاقیات کا مالک، انصاف پسند، انسانوں کی قدر کرنے والا کہتے ہیں ۔​
میں مغر ب کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کے چند اعمال کا تذکرہ کرنااور اپنے ان مغربی احساس کمتری کا شکار دوستوں کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں ۔​
مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار :
مغرب کا اس وقت سب سے بڑا ہتھیار اس کا ذرائع ابلاغ ہے۔ مغربی میڈیا اس وقت اسلام اور مسلمانوں کےخلاف جنگ میں اسلام مخالف لشکر کے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا متعصبانہ رویہ اور مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ انکے نيشنل چينل پر نشر ہونے والي ، اسلام اور مسلمانوں كے متعلق ۸۵ فيصد خبريں مسلمانوں كے خلاف ہوتي ہيں اور منفي ہوتي ہيں۔فلسطين و عراق ميں ناجائز قبضہ ، وحشيانہ حملوں اور مسلمانوں كے اپني سر زمين كے حق دفاع سے چشم پوشي كرتے ہوئے ، دشمنوں كے مقابل مسلمانوں كي طرف سے ہونے والي مزاحمت كے مناظر كو دہشت گردی كے عنوان سے نشر كيا جاتا ہے۔ مغرب میں اسلام کے متعلق انگریزی مقولہ”کتے کو مارنے سے پہلے اسے پاگل مشہور کردو“ پرعمل ہورہا ہے اور مغربی ممالک ایک ”گینگ“ کی صورت میں اپنے اپنے حصہ کا رول ادا کررہے ہیں اور ”سردار“ ان کو حرکت میں رکھ رہا ہے۔​
مغرب کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی تاریخ :
یہ مغربی میڈیا کے اس پراپیگنڈے کا ہی اثر ہے کہ ہمارے مسلمان انہیں مغرب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، انہیں انسانیت دوست ، روشن خیال اور اعتدال پسند کہتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والے کون تھے ؟وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی پرایٹم بم گرا کر آن واحد میں۶ لاکھ بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ،​
کوئی پوچھے ان نام نہاد روشن خیالوں سے کہ آخر ان لوگوں کا جرم کیا تھا، جنہیں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد توپ کے دھانوں پر باندھ کر ہوا میں تحلیل کر دیا گیا ،خود انگریز موٴرخ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دہلی کے مضافات میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جہاں کسی مسلمان عالم دین کی لاش نہ لٹکی ہو ،یہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال کر کوئلہ بنادیا گیا ،ان کوسوٴروں کی کھال میں بند کر کے ان پر کتے چھوڑ دئیے گئے ۔تحریک ریشمی رومال کے دوران مسلمانوں کو کالے پانی اور جزیرہٴ انڈمان میں قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دینے والے کون لو گ تھے؟​
چلئے زیادہ دور نہ جائیے عصر قریب میں بوسنیا کے اندر سرب عیسائیوں نے مسلمانو ں کا جو قتل عام کیا جس کے نتیجے میں ایک مختصر سی مدت میں ۱۴، لاکھ مسلما ن موت کی نیند سلا دئیے گئے۔ 1982ء میں اسرائیل کے لبنا ن پر کیے گئے حملوں کے نتیجے میں 17500بے گناہ شہری شہید ہوگئے ،​
30 سال سے جنگ سے نبرد آزما افغانستان کے بھوکے اور ننگے افغان شہریوں کو ”دہشت گرد“ قرار دے کر ان پر حملہ کردیا گیا اور ٹنوں وزنی ڈیزی کٹر بموں سے ان کا بھرکس نکال دیا ، ابھی امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک کی اسلام دشمنی کی آگ ماند نہیں پڑی تھی کہ عراق پر حملہ کردیا اور ہنستے بستے ملک کو تہس نہس کردیا۔ امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک نے انسانوں سے آباد شہروں کابل، قندھار، بغداد، فلوجہ، کربلا اور نجف اشرف کو قبرستان میں بدل دیا ۔​
فلسطین پر اسرائیل عرصہ درازسے اپنی جارحیت مسلط کیے ہوئے ہے اس دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کو کسی نے ”یہودی دہشت گردی“ کا نام نہیں دیا حالانکہ پوری دنیا میں اسرائیلی جارحیت مسلّم ہے اور اس ملک کی وجہ سے پوری دنیا کا امن خطرے سے دوچار ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اسرائیل کے محافظ ہیں اور اس کی دہشت گردی میں برابر کے شریک ہیں۔ ۵/جون ۲۰۰۸ء اخبارات میں ایک خبر چھپی‘ اس کا خلاصہ ہے:​
”امریکی صدارتی امیدوار بارک اوبامانے کہا ہے کہ دہشت گرد گروپ اسرائیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاہم وہ اسرائیل کے سچے دوست ہیں اور اسرائیل کو در پیش خطروں کو امریکا کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ․․․․“​
قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ․․․​
دشمنی ان کی زبان سے نکلی پڑتی ہے اور جو کچھ مخفی ہے ان کے جی میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔“​
مغرب کے قوانین اخلاقیات، مساوات و رواداری
مغرب نے ہمیشہ سے اسلام، پیغمبر ِ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا حریف اور دشمن جانا اور سمجھا ہے۔ اسلام، پیغمبر اسلام، شعائر اسلام، مسلمان اور ان کی مقدس ترین شخصیات کی توہین، تنقیص، تحقیر اور تذلیل کرنے والا کوئی ملعون ومردود ہو، وہ ان کا حلیف و دوست، ان کی مدد و نصرت کا حق دار اور حقوق انسانی و آزادی کا مستحق ہے۔ دنیا بھر کے یہودی اور عیسائی کم از کم اس ایک نکتے پر متفق و متحد نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی لعین، سلمان رشدی ملعون، تسلیمہ نسرین مردود اور مرتد عبدالرحمن تک ہر ایک پر انہوں نے اپنی نوازشات کی بارش کی ہے۔​
سیاسی طور پر دیکھیں تو ہر ملک کے انتہائی کرپٹ حکمرانوں کو انہیں وواصلاح پسندوں“ کے در پر جائے امان ملتی ہے ،تمام مسلم دنیا کے کرپٹ حکمراں اور سیاست داں یہیں پناہ گزیں ہیں۔ سلمان رشدی اور فتنہٴ امامت خواتین کی بانی اسریٰ نعمانی اور مغرب کے ایجنٹ لندن سے ہی کارو بار قتل وخون چلا رہے ہیں، ایک طرف تو یہ مغربی شاطر مسلم دنیا کی غریبی اور ابتر حالت پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں ،دوسری جانب جو لٹیرے اس ابتر صورت حال کے لئے ذمہ دار ہیں انہیں اپنے گھروں میں امان دیتے ہیں ،ان کی لوٹی ہوئی دولت کو اپنے یہاں بینکوں میں جمع کرکے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، صومالیہ کی مثال بالکل تازہ ہے، جہاں پڑوسی عیسائی ملک کی فوج کو اپنے ایمان فروش ایجنٹوں کے ساتھ صومالیہ پر قبضہ کرادیا اور وہاں کشت وخون جاری ہے ،مغرب کا اسلحہ بھی فروخت ہورہا ہے اور مسلمان آپسی انتشار میں بھی مبتلا ہیں۔​
کہیں پیغمبر اسلام (ص) کے توہین آمیز خاکے شائع جاتے ہیں تو کبھی آزادی کے نام پر توہین آمیز خاکےچھپوا کر سوا ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے پھر اسی اپنی اسی نام نہاد آزادی کو خود ہی کچلتے ہوئے سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے پر پابندی لگادی جاتی ہے، کہیں پردہ کرنے کی بنا پر بچیوں کو اسکولوں سے اور خواتین کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے اور کہیں اسلام کے مینارے کھٹک رہے ہیں ۔ جرمنی کے شہر ڈریسڈن کی عدالت میں جج اور پولیس اہلکاروں کے سامنے ایک باپردہ مسلمان مصری خاتون مروہ الشربینی کو قتل کردیا جاتا ہے۔ پوپ بینی ڈکٹ شانِ رسالت کی توہین کرکے صہیونیوں سے تھپکیاں وصول کرتا ہے​
جن باتوں یعنی قدامت پرستی، بنیاد پرستی، عدم رواداری وغیرہ پر عالم اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہی تمام خصوصیات یورپ، امریکا اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ لڑنے والے ہر ملک میں بڑھائی جارہی ہیں۔آزادی اظہار رائے کے دعویدارکومسلمانوں کی توہین و تنقیص‘ ان کے دین و مذہب اوران کے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کے وقت تو آزادی اظہار رائے کا شدت سے احساس و خیال آتا ہے‘ لیکن یہ احساس‘ خیال اور جنون”ہولو کاسٹ“ کے قانون کے خلاف زبان کھولنے اور لکھنے کی جرأت کیوں نہیں دیتا‘ وہاں انکے آزادی اظہار رائے کے جذبہ کو کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟” مغربی ممالک میں مسلمانوں کی اذان پر پابندی، مساجد کے میناروں پر پابندی، مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی، کیا یہ پابندیاں مذہبی آزادی اور رواداری کا ثبوت ہیں یا تنگ نظری اور تعصب پر مبنی اقدامات کا منہ بولتا ثبوت ؟​
خلاصہ یہ کہ
اس وقت مغربی اقوام کی اولین ترجیح دولت کو ہرممکنہ ذرائع سے حاصل کرنا‘ اسے اپنی نفسانی خواہشات پر خرچ کرنا اور اس کے لئے دوسری اقوام کے مادی وسائل پر قبضہ کرنا ہی رہ گیا تھا‘ تاکہ اپنے عیش وعشرت کا گراف مزید بلند کیا جاسکے جو آج تک جاری ہے‘ وہ پرندوں کی طرح تیز رفتاری سے اڑنا‘ سمندر کی گہرائیوں میں مچھلی کی طرح تیرنا تو سیکھ چکے تھے مگر زمین پر انسانوں کی طرح چلنا بھول گئے تھے‘ دوسری قوموں پر ڈر‘ خوف اور نفرت بٹھانے‘ ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لئے پوری عقل‘ قوت اور لامحدود وسائل صرف آلاتِ حرب کو مہلک سے مہلک تر بنانے میں خرچ کئے جانے لگے‘ ۔​
ان روشن خیالوں اور اعتدال پسند وں کے یہ سب سیا ہ کارنامے پڑھ کے اور سن کے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتاہے،حیرت کی بات ہے، اپنے آپ کو روشن خیال اور اعتدال پسند کہلانے والے لو گ وہ ہیں جن کی اپنی تاریخ ظلم و تشدد سے لبریز ہے ،آج وہی انسانیت کے علمبردار گنے جاتے ہیں، مسلمانوں کو اخلاقیات سے محروم اور انتہاء پسند کہنے والے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے کچھ ناعقبت اندیش مسلمان یا توحقیقت سے بے خبر ہیں یا پھر جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ،یقینا جو کوئی بھی ان حقائق کو جاننے کی کوشش کرے گا وہ کبھی بھی اغیار کے ان بے بنیا د پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوگا ۔​
کیا یہ مغربی "صفات " ہمارے ملکوں اور لوگوں میں بھی پائی جاتیں ہیں ؟
اوپر دی گئی تفصیل سے ’ مغربی ممالک میں نام نہاد سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کا جس طرح اخلاقی، مذہبی، ذہنی اور جسمانی استحصال کیا جاتا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ انصاف تو یہ تھا کہ مسلم ملک بھی اپنی کلچر، مذہب کے مطابق اپنے یہاں آنے والے مغربی لوگوں کو پابند کرتے، لیکن اسے ہماری بدقسمتی کہیں یا وسعت ظرفی کہ مغربی ممالک کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف انتہائی تعصب وحسد کے اظہار کے باوجود کبھی پاکستان یا کسی عرب ملک میں اسلام کے نام پر کسی گورے کو ننگے پھرنے ، سور کھانے، شراب پینے سے نہیں روکا گیا ۔ یہ بات ثبوت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو یورپ کے مسلمانوں سے زیادہ آزادی حاصل ہے ؟ پاکستان میں کہاں کسی عیسائی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے سے روکا گیا ہے ؟ ،یہاں تمام اقلیتیں محفوظ بھی ہیں اور خوش بھی، انہیں پاکستان میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔شومئی قسمت کہ آج کا مسلمان ان بنیادی اسباب سے محروم ہے جو اس کے دشمن کے پاس ہیں، جن کے ذریعے سے وہ جو چاہتے ہیں ان کی جانب منسوب کر دیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں انہیں بدنام کرتے رہتے ہیں۔ کبھی انتہاء پسند ی کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو کبھی تنگ نظر کہا جاتاہے،اور اس پر مستزاد یہ کہ عام فہم مسلمان بھی دشمن کے اس پروپیگنڈے میں آکر دشمن کے ان تمام پراپیگنڈوں کو حقیقت جان لیتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں ۔​
جہاں تک ہمارے معاشرے میں زناکاری ، حرام کاری، شراب نوشی، ناچ گانا کے عام ہونے کی بات ہے تو یہ انہی غیر قوموں خصوصا مغرب سے امپورٹ شدہ ہے۔، اسکا تازہ ترین ثبوت امریکی سفارتخانے کا پاکستان میں اپنے ہاں ہم جنس پرستوں کا فکنکشن کرانا اور اس دنیا کے گندھے ترین فعل کو اپنی سرپرستی میں رائج کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کو مغربی معاشرہ کی طرح برائیوں، گمراہیوں کی آماجگاہ بنانے کی مہم کا آغاز کرنا ہے ۔​
میں پاکستانی معاشر ے کو پرفیکٹ اور قابل تقلید معاشرہ نہیں کہتا ، یہ کہنے کی جسارت ضرور کرتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ میں ابھی تک لوگوں کی اکثریت صبر ، برداشت، اخلاقیات، رواداری میں یورپی لوگوں سے زیادہ آگے ہے۔ یہاں کا فرد بنیادی طور پر قاتل نہیں رحم دل ہے ،وہ ڈاکو نہیں ایثار پسند ہے،وہ عزتوں کا لٹیرہ نہیں عصمتوں کا پاسبان ہے،وہ تنگ نظر نہیں روشن خیال ہے،وہ انتہاء پسند نہیں اعتدال پسند ہے۔ اسکے دل میں ابھی بھی وہ چیز موجود ہے جو ساری دنیا کے کافروں کے پاس نہیں ۔ اسکو بس ایک نظام اور ہادی کی ضرورت ہے ۔​
میں نے اوپر جو کچھ لکھا مکمل غیر جانبدار رہتے ہوئے لکھا اسی غیر جانبداری کو جاری رکھتے ہوئے میں آخر میں اس بات کا اعتراف ضرور کروں گا کہ مغربی ممالک کے لوگوں میں ایک ایسی صفت پائی جاتی ہے جوکہ ہمارے لوگوں میں نہیں ہے اور وہی صفت انکی کامیابی کا راز ہے۔ وہ صفت ہے احساس ذمہ داری ۔ وہ لوگ اپنے لوگوں اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں، جبکہ ہم میں اس کا فقدان ہے، ہمیں نہ کسی فرد کا احساس ہے اور نہ اپنے ملک کا اور یہی ہماری تنزلی کی ایک وجہ ہے۔ ہم میں ہر کوئی اپنی ذات میں مگن ہے۔ … الله تعالیٰ ہماری اصلاح فرما دے اور ہمیں عقل سلیم عطافر مائے، تاکہ ہم حق اور باطل میں تمیز کر سکیں۔​
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
میں نے سنا ہے کہ یہ مغرب میں سونا رکھنے والوں کو بھاری ٹیکس دینا پڑتا ہے
یہاں تو دبئی میں میرے اور میرے رشتہ داروں کے پاس کلو دوکلو سونا گھر میں بغیر کسی سیکوریٹی کے رکھے ہیں
الحمدللہ
نہ چور سے خطرہ ہے نہ گورنمنٹ سے۔
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ ذوالقرنین برادر
بہت ہی زبردست پوسٹ مارٹم کیا ہے، آپ نے مغرب کے دوغلے پن کا اور ہماری ”معصومیت“ کے کیا کہنے کہ ہم ہنوز ان کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔
 
Top