مغربی تہذیب کی پسماندگی اور مذہب

ظفری

لائبریرین
تمہید

یہ مضمون اس فورم کے ایک ٹاپک " ٹیڈی بیر کا نام پیغمبر کے نام پر " پر مختلف آراء اور نظریات کو پڑھنے کے بعد لکھا گیا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
مغرب اور ہمارے تہذیبی اقدار میں بنیادی فرق ہے ۔ انہوں نے پوپ سے آزادی حاصل کرنے کی جب تحریک چلائی تو بدقسمتی سے وہ تحریک حدود میں نہیں رہ سکی ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ اعلیٰ اقدار جن پر انسانیت فخر کرتی ہے اور جو انسانیت کا اثاثہ اور سرمایہ ہے ان سے بھی بعض لوگ بیگانہ ہوگئے ۔ وہ شاید اس فرق کو بھول گئے ہیں کہ فردِ مراتب کیا چیز ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں تہذیب کی سب سے بڑی شناخت ہی یہی چیز ہے ۔ ہم باپ کو باپ سمجھتے ہیں ۔ بھائی کو بھائی سمجھتے ہیں ۔ استاد کو استاد سمجھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں آداب کا ایک پورا نظم وجود میں آتا ہے ۔ اُن لوگوں نے جب آزادی اور آزادی کی لے کو حدود سے بڑھا دیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اس بات سے آشنا ہی نہیں ‌رہے کہ پیغمبر کی ذات کی صفات کیا ہوتی ہیں ۔ ان کے ہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ، ان کے ہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی ایک غیر معمولی اہمیت ہے ۔ وہ کبھی بائبل کا مطالعہ بھی کرتے رہے ہونگے ، انہوں‌ نے بھی کبھی تورات اور انجیل پڑھی ہوگی اور وہ یہ جانتے ہونگے کہ اللہ نے پیغمبروں کو کیا حیثیت دی ہے ۔ ہم مسلمان کیونکہ اس پوری روایت سے وابستہ ہیں چناچہ ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے لیئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہوں ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہوں ، سیدنا مسیح علیہ السلام ہوں ، سب یکساں حرمت کے درجے میں ہیں ۔ اور ہم ان سے غیر معمولی محبت رکھتے ہیں ، غیر معمولی عزت کرتے ہیں ۔ انبیاء السلام کو کیا درجہ دینا چاہیئے قرآن مجید نے خود اس کو بیان کیا ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہمارے جو احساسات ہیں ۔ ان سے وہ غالباً واقف ہی نہیں ہیں ۔ مسئلہ دراصل یہ ہوا ہے کہ اعلی تہذیبی اقدار کو مغرب نے آزادی کی لے بڑھاتے بڑھاتے فراموش کردیا ہے ۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ انسانی رشتوں کے درجات اور تقدس کیا ہیں ۔ حفظِ مراتب کی تہذیب کو فراموش کردینے کے نتیجے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آزادیِ اظہار کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کسی بھی بڑی سی بڑی شخصیت کا مضحیکہ اڑا دیں ۔ وہ اس بات سے واقف نہیں رہے کہ تنقید کچھ اور چیز ہے ، کسی نقطعہ نظر سے اختلاف کوئی اور چیز ۔ اور تضحیک بلکل کوئی اور چیز ۔ مغرب کے آزادیِ اظہار کے حد سے گذر جانے کی وجہ سے وہاں اس نوعیت کی ایک نفسیات بن گئی ہے ۔ اور یہ معاملہ صرف اخبارات تک ہی محدود نہیں ہے ۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہم کو انٹرنیٹ پر جا بہ جا نظر آ جائیں گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تہذیب کی ، اقدار سے ایک فرد کی جو وابستگی ہوتی ہے وہ کمزور پڑتی جارہی ہے ۔ میرا تو احساس یہ ہے ہم سے زیادہ ان کو فکرمند ہوناچاہیئے ۔ کیونکہ انسان کا شرف تو یہی ہے ۔ جانور اور انسان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان اپنی تہذیب کرتا ہے ۔ مجھے آپ سے بات کیسے کرنی ہے ۔ مجھے آپ کا لحاظ کیسے کرنا ہے ۔ اگر یہ چیز ختم ہوگئی ہے تو ایک انسان اور جانور میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے ۔ میں ‌جہاں ‌تک سمجھتا ہوں کہ آزادی کی لے بڑھاتے بڑھاتے انہوں نے آزادی کووہاں پہنچا دیا ہے جہاں ان چیزوں کے بارے میں ان میں کسی قسم کا شعور باقی نہیں رہا ۔ ہمیں یہ چاہیئے کہ ہم ان کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ تہذیب کیا ہوتی ہے ۔ ؟ تہذیب کے تقاضے کیا ہوتے ہیں ۔ آپ کسی شخصیت کے بارے میں جس کو ایک ارب مسلمان اپنے باپ کی طرح اہمیت دیتے ہیں ۔ بلکہ باپ کیا چیز ہے ؟ ۔ جب ہم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے ماں‌ باپ آپ پر قربان ہوں ۔ ہمارے ان احساسات کو وہ محسوس کریں اور وہ یہ جانیں کہ یہ احساسات ہمارے اندر کتنے اُترے ہوئے ہیں ۔

اسلام کی شخصیات اور تعلیمات تو ایک طرف ، خود ان کا اپنا مذہب اور دین بھی اس عزت اور احترام کے مقام پر نہیں رہا جس جگہ اس کو رہنا چاہیئے ۔ ہم جب باپ سے بھی کسی قسم کی بحث کرنے جاتے ہیں تو اس میں بھی کچھ اقدار کا ، کچھ تہذیبی روایات کا خیال رکھ کر بحث کرتے ہیں ۔ اس چیز سے وہ اپنے بچوں کو تربیت ہی نہیں کرتے ۔ برسوں ان کو بتاتے ہی نہیں‌ ہیں کہ ان اقدار کا خیال بھی رکھنا ہے ۔ سو آہستہ آہستہ ان میں انسانی خوبیاں کم ہوتیں چلیں جاتیں ہیں ۔ مغرب اپنی بہت سی انسانی اقدار پر بہت فخر کرتا ہے ۔ انسانی حقوق کے بارے میں وہ خیال کرتا ہے کہ وہ دنیا میں اس کا علمبردار ہے لیکن فردِ مراتب کے معاملے میں ان کے ہاں تہذیبی کمزوری واقع ہوئی ہے ۔ یہ احساس ہی ناپید ہوگیا ہے کہ آپ کس سے اور کیا بات کرر ہے ہیں ۔ پغیمبر کے بارے میں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب کسی سیاسی لیڈر کا کارٹون بنایا جاسکتا ہے تو کسی پغیمبر کا بھی بنایا جاسکتا ہے ۔ یہ سو فیصد انسانیت کا زوال ہے اور ہمیں ان کے ساتھ یہیں سے بات کرنا چاہیئے کہ بتایئے ؟ انسانیت کس چیز کا نام ہے ۔ ؟ دراصل انسانیت حفظِ مراتب کا ہی نام ہے ۔ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے کا نام ہے ۔

توہینِ رسالت اور پیغمبروں کی تضحیک کرکے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ہم سے کوئی جنگ کرنی ہے تو انہوں نے بہت غلط میدان کا انتخاب کیا ہے ۔ کیونکہ اگر وہ کسی اور میدان میں آتے تو وہ ہم کو تقسیم کر نے میں کامیاب ہوجاتے ۔ لیکن وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں ہمارے درمیان شاید ہی کوئی اختلاف پیدا کیا جاسکے ۔ ایک ارب مسلمانوں کے درمیان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ تعلق ، محبت ، آپ کی حرمت کے احساس میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ۔ یہ واحد جگہ ہے جہاں ایک مراکش کے مسلمان اور انڈونیشیا کے مسلمان کے درمیان کوئی اختلاف ہو نہیں سکتا ۔ ایک عقلی اور جذباتی آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ سکتا ۔ یعنی کوئی عقلی آدمی ہو اور وہ شخص ( جس نے یہ خاکے بنائے ہیں ) اس کے سامنے آجائے تو بہت کم امکان ہے کہ وہ عقلی آدمی اپنے آپ پر قابو رکھ سکے ۔ چناچہ ہمارا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ جو تعلق ہے ۔ مغرب کو اس کو سمجھنا چاہیئے ۔

ان خاکوں کے بارے میں جو ردعمل سامنے آئے ہیں اور ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں ۔ ان کے بارے میں میرا پہلا تاثر یہ ہے کہ ہمیں ہر ایسے موقع پر یہ کام کرنا چاہیئے کہ ہم اپنے ہر احساس اور جذبات کو نہایت شائستہ اور تہذیب یافتہ انسانوں کی طرح ان کی طرف منتقل کریں ۔ یعنی ہم مغرب کو مخاطب کریں اور ہمارے لکھنے والے لکھیں ۔ قلم اٹھائیں اور ان کو یہ بتائیں کہ تہذیبی اقدار کیا ہوتیں ہیں ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم لے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہے ۔ دوسرا تاثر یہ کہ ، جب کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے تووہ اسلام کے کسی حکم کو تحضیک کا موضوع بنائے گا یا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے کسی پہلو کو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعوت کا بہترین موقع ہوتا ہے ۔ اس موقع پر ہم قلم اٹھائیں اور اس معاملے کی وضاحت کریں ۔ اس طرح یہ دین کے پیغام کو پہنچانے کا بھی ایک ذریعہ بنتا ہے ۔ بے شک جو شخص اس معاملے کا ذمہ دار ہے وہ سنیں یا نہ سنے مگر وہ لاکھوں ، کروڑ لوگ ضرور سنیں گے ۔ جو اس وقت اس طرف متوجہ ہیں ۔ اسلام کا روشن چہرہ ان کو دکھایا جائے ۔ اور یہ بتایا جائے کہ پیغبر کی سیرت کیسی اُجلی سیرت ہے ۔ تیسرا مظاہرے ہیں ۔ یہ ایک معاشرتی حق ہے کہ جب آپ اپنی بات اجتماعی طور پر سمجھانا یا سنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے آپ پُرامن مظاہروں کا بھی حق رکھتے ہیں اور ایسے مظاہرے مغرب میں بھی کیئے جاتے ہیں ۔ چنانچہ جب ہم ایسے مظاہروں میں نکلیں تو دنیا یہ دیکھے کہ ہم اس پیغمبر کی حرمت کے لیئے نکلے ہیں جس نے انسان کی جان ، مال اور آبرو کو حج الودع کے موقع پر یہ درجہ دیا تھا کہ ” میں اس دن میں کھڑا ہوں ، جو ایک مقدس ترین دن ہے یعنی فرمایا کہ مکہ میں کھڑا ہوں ۔ ایک حرمت میں کھڑا ہوں ۔ جیسے ان چیزوں کو حرمت حاصل ہے اسی طرح حرمت انسانی جان کو حاصل ہے ، انسان کے مال کو حاصل ہے ، انسان کی آبرو کو حاصل ہے ۔ ” لہذا مسلمانوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہو ئے ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے کہ جب وہ باہر نکلیں تو انتہائی شائستگی سے ، نہایت تہذیب کیساتھ اپنے جذبات کا اظہار کریں ۔ اور اس بات کا خاص اہتمام کریں کہ کسی شخص کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔

آزادیِ حریت ہمارے ہاں بھی ایک بہت بڑی چیز ہے ۔ ہمارے پرودگار نے تو قرآن میں یہ آداب سکھائے ہیں کہ ” تم کسی کے بتوں کو بھی برا بھلا نہ کہو ۔ ” ظاہر ہے اسلام توحید کا دین ہے لیکن اس کے باوجود قرآن مجید نے ہم کو یہ تاکید کی ” تم بُتوں کو بھی بُرا بھلا نہیں کہنا کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس طرح کی بات کرو تو وہ پلٹ کر تمہارے پرودگار کے بارے میں کوئی بری بات کہہ دیں ۔ ” یہ کیا چیز ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آداب کا خیال رکھو ، ہم شرک کی تردید کریں گے ، اس کی غلطی واضع کریں گے ۔ لیکن زبان اور ہاتھ دونوں سنبھال کر رکھیں گے ۔ اسی طرح اگر اسلوب کا خیال رکھا جائے تو مغرب بھی ہم سے اختلافات کی بات کرے تو شائستگی کے ساتھ کرے ، تہذیب کیساتھ کرے ۔ دن میں کرے ، رات میں کرے ۔ لہذا انہوں نےخاکوں کی صورت میں جو یہ معاملہ کیا ہے ، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ اور ہم اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنی تہذیبی پسماندگی کا نشانہ کسی مذہب یا کسی پیغمبر کو بنائیں ۔
 

arifkarim

معطل
بھائی جان آپ نے دلی جذبات سے بھر پور ایک مضمون لکھا ہے۔ کیا آپ مغرب میں رہتے ہیں؟ البتہ میں ناروے میں رہتا ہوں اور یہاں کے لوگوں کے جذبات خوب سمجھتا ہوں۔ بات یہ نہیں کہ ان لوگوں کو حرمت اور تہذیب کا نہیں پتہ اور یہ نہ ہی آزادی اظہار کا کوئی مسئلہ ہے۔ مسئلہ صرف اسلام سے دشمنی اور مسلمانوں سے پنگا لینا ہے۔ یہ لوگ یہ خاکے شائع کرکے ہمارا reaction دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نیچا دکھا کر ہم پر ہنستے ہیں اور پھر جب ہم غیرت میں آکر کسی سخت طریقہ سے انکو جواب دیتے ہیں تو ہمیں دہشت گرد انتہاء پسند ثابت کرتے ہیں۔

میں نارویجن قوم کے بچوں، نوجوانوں اور رسید عمر کے لوگوں کے درمیان رہتا ہوں اور بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے کہ ان لوگوں کے دل خاص طور پر اسلام کیلئے بغض سے بھرے پڑے ہیں! چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی کسی مسلمان سے اچھا رویہ نہیں رکھتا۔ آخر اسکی کیا وجہ ہے؟ یہ لوگ ہمیں پسماندہ اور unciviliased سمجھتے ہیں۔ اور تبھی ہم سے اس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس ہندوؤں یا کسی اور ملک کے عیسائیوں یا یہودیوں سے بالکل بر عکس سلوک کرتے ہیں۔ یعنی اصل مسئلہ اور ٹکر اسلام سے ہے اسلئے کہ ان کو اسلام میں سچ نظر آتا ہے اور اس خوف سے کہ یہاں یورپ میں اسلام نہ پھیل جائے یہ ہمارے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ صلیبی جنگیں بھی ان لوگوں کی اسلام سے دشمنی اور بغض کی علامتیں ہیں!

ان کا مقبلہ آج کل کے دور میں قلم اور دعا سے ہے نہ کہ جوش اور تلوار سے ۔ ۔ ۔ ;)
 
Top