معراجِ عشق از ایس ایس ساگر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
بہت حساس تحریر، ساگر بھائی، محبت پر تو جب جب لکھا جائے پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہے۔ آپ کے قلم کی روانی بلاشبہ قابلِ رشک ہے ۔ پہلے آپ کی چند تحریریں پڑھیں تو کافی مختصر تھیں ۔ اب آپ بات کو کئی پہلو سے اس کی جزئیات کے ساتھ واضح کرنے پر قدرت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ناول نگاری کی جانب ایک قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ ۔ ۔ ۔
صابرہ امین بہن!
تحریر کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا بے حد شکریہ۔ دعا کے لیے بھی آپ کا ممنون و متشکر ہوں۔
آپ کی پھر سےمحفل پر موجود گی سےبے پایاں خوشی ہوئی۔محفل پر آپ کی کمی محسوس ہوتی رہی ہے۔ سدا خوش رہیں۔ آباد رہیں۔ آمین۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گُلِ یاسمیں بہنا! میں نے جتنی بھی تحریریں لکھی ہیں ان کے کردار و واقعات فرضی نہیں ہیں۔ یہ میرے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے، ہاں۔ یہ الگ بات ہے کہ

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
(شیفتہ)
بہت ساری کہانیاں ہمارے آس پاس بکھری ہوتی ہیں ایسی ہی۔ بس لکھنے کا ہنر اور صلاحیت ہونی چاہئیے۔
ایک آدھ بار ہم نے سوچا کہ کچھ لکھیں لیکن ہماری سستی آڑے آ گئی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ توجہ مرکوز نہیں ہو پاتی صحیح سے۔ یا پھر باقی کام اتنے پھیلائے ہوتے ہیں اپنے آس پاس کہ ان کے شور میں ہی گم رہنے کو دل چاہتا ہے تا کہ اپنے اندر کی تنہائی کو نظر انداز کئے رکھیں۔ وجہ جو بھی ہو لیکن ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہم لکھنے والا ہنر جانتے ہی نہیں۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ناراض نا ہوئے گا۔ اتنی تعریفوں میں اس خاکسار کے چند الفاظ پہ
ارے وسیم بھائی۔یہ کیا لکھ دیا آپ نے۔:) ناراضگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ نے اپنا قیمتی وقت میری تحریر پڑھنے پر صرف کیا اور پھر اس پر سیر حاصل تبصرہ بھی فرمایا جو کہ یقیناً میرے لیے بہتر لکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اب آپ کے اس احسان کے بدلے کیا میں آپ سے ناراض ہوں گا۔ کبھی نہیں۔
جس بندے نے آپ بیتی کے انداز میں ڈاکٹر کی کہانی سنائی ہے اور جو پیر اختر صاحب ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ہی پلاٹ میں رہتا تو بہتر ہوتا۔ آپ کے ایک نظر بین کے انداز سے بھی افسانہ تحریر کر سکتے تھے اور اس صورت میں آپ کے پاس ڈاکٹر کی خدمت کو ذرا تفصیل سے لکھنے کا مارجن بھی ہوتا اور اس کے مریضوں سے اس کے تعلق کو بھی بہتر انداز میں بیان کر سکتے۔۔۔
دوسرا افسانہ سنجیدہ افسانے سے زیادہ فلمی افسانہ ہو گیا۔ پہلے فلسفی صاحب کو فلمی انداز کی بددعا لگ گئی، پھر فلمی انداز میں ہی محبت کا اظہار ہوا اور پھر سونے پہ سہاگا ڈاکٹر صاحب نے مرتے مرتے جہاز کریش کروا دیا۔ نگار صاحبہ بھی طلاق لیکر اس انتظار میں تھیں کہ ڈاکٹر صاحب بلائیں تو وہ آئیں۔ اختتام اس سے بہتر ہو سکتا تھا جو آپ نے کیا۔
وسیم بھائی۔ آپ کے احساسات بالکل درست ہیں۔دراصل میں نے تحریر کو ارادتاً فلمی یا ڈرامائی انداز میں لکھا ہے۔ اس پلاٹ کے ساتھ میرا اول ارادہ ناول یا ڈرامہ لکھنے کا ہی تھا۔ مگربعد میں اسے مختصر تحریر کی شکل دے دی۔ شاید اسی لیے اس تحریر کے ساتھ زیادہ انصاف نہیں ہو سکا۔
باقی رہا اندازِ بیاں اور الفاظ کا چناؤ تو وہ مصنف کی انفرادیت و شناخت ہوتا ہے، اور ظاہری بات ہے آپ منفرد صاحب طرز مصنف ہیں تو اس کا بہترین انداز سے خاص خیال رکھا گیا ہے۔
کاش آپ کا سارا مراسلہ اسی طرح کے الفاظ سے بھرا ہوتا۔ :D
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ایک آدھ بار ہم نے سوچا کہ کچھ لکھیں لیکن ہماری سستی آڑے آ گئی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ توجہ مرکوز نہیں ہو پاتی صحیح سے۔ یا پھر باقی کام اتنے پھیلائے ہوتے ہیں اپنے آس پاس کہ ان کے شور میں ہی گم رہنے کو دل چاہتا ہے تا کہ اپنے اندر کی تنہائی کو نظر انداز کئے رکھیں۔ وجہ جو بھی ہو لیکن ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہم لکھنے والا ہنر جانتے ہی نہیں۔
آپ کسرِ نفسی سے کام لے رہی ہیں بہنا!۔ ورنہ آپ کے مراسلے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آپ بہت اچھا لکھ سکتی ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ کسرِ نفسی سے کام لے رہی ہیں بہنا!۔ ورنہ آپ کے مراسلے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آپ بہت اچھا لکھ سکتی ہیں۔
مراسلات لکھنا الگ بات ہے۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ کہانی یا افسانہ لکھنے میں سب سے ضروری چیز تسلسل برقراررکھنا ہے۔ اور تسلسل برقرار رکھنے کے لئے اپنے خیالات کو مرکوز رکھنا۔ یہی مار کھا جاتے ہیں ہم۔
 
مراسلات لکھنا الگ بات ہے۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ کہانی یا افسانہ لکھنے میں سب سے ضروری چیز تسلسل برقراررکھنا ہے۔ اور تسلسل برقرار رکھنے کے لئے اپنے خیالات کو مرکوز رکھنا۔ یہی مار کھا جاتے ہیں ہم۔

یہ متلون مزاجی صرف لکھنے کی حد تک ہے یا ------
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب ساگر بھائی، اس خوبصورت افسانے پر ڈھیروں داد و تحسین، یقین مانیے آپ نے اشفاق احمد مرحوم کی یاد دلا دی
لیکن ٹائپنگ میں اکثر جگہوں پر وقفہ دینا بھول گئے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
بہت خوب ساگر بھائی، اس خوبصورت افسانے پر ڈھیروں داد و تحسین، یقین مانیے آپ نے اشفاق احمد مرحوم کی یاد دلا دی
لیکن ٹائپنگ میں اکثر جگہوں پر وقفہ دینا بھول گئے
محمد عبدالرؤوف بھائی۔ آپ نے جس محبت کے ساتھ تحریر کو سراہا ہے۔ اس کے لیے تہہ دل سے ممنون و متشکر ہوں۔
اللہ آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق و محبت کے " خیال " میں آپ کچھ الجھاؤ لیے ہیں. عشق کو اگر " وجود " کی چاہت ہے تو عشق "کچا " ہے یعنی ہے ہی نہیں. پاپولر فکشن میں مجاز کا خیال جان بوجھ کے فیبریکیٹ کیا جاتا ہے. میں نے ساغر صدیقی کا سنا تھا: جب ان کی محبوبہ ان سے ملنے آئی، انہوں نے کہا مجھے اب تمھاری ضرورت نہیں رہی. اسی طرح کی ایک بات میں وڈیو میں سن رہی تھی: قصہِ جناب یوسف علیہ سلام اور زلیخہ بی بی کا سب نے سن رکھا ہے. اک دن شاہ مصر یوسف علیہ سلام کو وحی کی گئی: بی بی زلیخا یہاں پہاڑوں میں قیام پذیر ہیں، ان کو جا کے میرا سلام کہہ دو. جب آپ وہاں پہنچے: زلیخا بی بی نے ان کو پہچاننے سے انکار کردیا اولاً .... ہوا یوں: بی بی زلیخا کو جب یوسف علیہ سلام سے عشق ہوا، تو انہوں نے دل دل میں سوچا: کس بات پر مر مٹی؟ میرے پاس طاقت، دولت سب کچھ ہے. اک سے بڑھ اک چیز خرید سکتی ہوں ... وہ حسن: وہ نگاہ حسن، تیرِ نظر خود ان کا اپنا تھا، جس سے وہ گھائل تھیں. انہوں نے اس " صورت " کو اپنے من میں ڈھونڈ لیا اور اس پر فدا ہوگئیں .... بعد میں آپ کی شادی ہوگئی، وہ قصہ الگ ہے


عمومی طور پر: عشق میں تاسف نہیں آتا ہے، عشق میں " آہ " کرنا گلہ کرنا ہے اور گلہ، عشق میں " حرام " ہے. جب تو "ہے " ہی "نہیں " تو نے " دوئی " دیکھ لی تو عشق سے نکل گیا ... اسکو "محبت " کہہ سکتے ہیں ...


خیال آپ کا بہت عمدہ ہے جس نے گرفت میں لیا ہے. آپ نے دو کرداروں کو جوڑا نہیں. آپ " دعا " کی تاثیر کو عشق کے حادثے سے جوڑ نہیں پائے. قدرتی حادثات ہوتے ہیں جو کہ لکھے جاچکے ہوتے ہیں ..


مجموعی طور پر افسانہ اچھا ہے مگر اس کو مزید گہرا کیا جا سکتا ہے ... اسکا سانچہ/پلاٹ بہترین کردیں ..آپ نے جذبات کے رنگ پہلے ڈال دیے
بیانیہ آپ کو آتا ہے مگر بنت میں کمی رہ گئی

آپ کے لیے ڈھیروں دعا: اللہ نے قلم دیا ہے اور اس سے جو نکل رہا ہے، وہ بہت عمدہ تر ہے. اللہ کرے زور قلم اورزیادہ

سلامت رہیے
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین بہن!
تحریر کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا بے حد شکریہ۔ دعا کے لیے بھی آپ کا ممنون و متشکر ہوں۔
آپ کی پھر سےمحفل پر موجود گی سےبے پایاں خوشی ہوئی۔محفل پر آپ کی کمی محسوس ہوتی رہی ہے۔ سدا خوش رہیں۔ آباد رہیں۔ آمین۔
معلوم نہیں یہ مراسلہ نظروں سے کیسے رہ گیا ۔
آپ کی نیک تمناؤں کا شکریہ ۔ لکھتے رہیں، سلامت رہیں ۔ آمین۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
عشق و محبت کے " خیال " میں آپ کچھ الجھاؤ لیے ہیں. عشق کو اگر " وجود " کی چاہت ہے تو عشق "کچا " ہے یعنی ہے ہی نہیں. پاپولر فکشن میں مجاز کا خیال جان بوجھ کے فیبریکیٹ کیا جاتا ہے. میں نے ساغر صدیقی کا سنا تھا: جب ان کی محبوبہ ان سے ملنے آئی، انہوں نے کہا مجھے اب تمھاری ضرورت نہیں رہی. اسی طرح کی ایک بات میں وڈیو میں سن رہی تھی: قصہِ جناب یوسف علیہ سلام اور زلیخہ بی بی کا سب نے سن رکھا ہے. اک دن شاہ مصر یوسف علیہ سلام کو وحی کی گئی: بی بی زلیخا یہاں پہاڑوں میں قیام پذیر ہیں، ان کو جا کے میرا سلام کہہ دو. جب آپ وہاں پہنچے: زلیخا بی بی نے ان کو پہچاننے سے انکار کردیا اولاً .... ہوا یوں: بی بی زلیخا کو جب یوسف علیہ سلام سے عشق ہوا، تو انہوں نے دل دل میں سوچا: کس بات پر مر مٹی؟ میرے پاس طاقت، دولت سب کچھ ہے. اک سے بڑھ اک چیز خرید سکتی ہوں ... وہ حسن: وہ نگاہ حسن، تیرِ نظر خود ان کا اپنا تھا، جس سے وہ گھائل تھیں. انہوں نے اس " صورت " کو اپنے من میں ڈھونڈ لیا اور اس پر فدا ہوگئیں .... بعد میں آپ کی شادی ہوگئی، وہ قصہ الگ ہے


عمومی طور پر: عشق میں تاسف نہیں آتا ہے، عشق میں " آہ " کرنا گلہ کرنا ہے اور گلہ، عشق میں " حرام " ہے. جب تو "ہے " ہی "نہیں " تو نے " دوئی " دیکھ لی تو عشق سے نکل گیا ... اسکو "محبت " کہہ سکتے ہیں ...


خیال آپ کا بہت عمدہ ہے جس نے گرفت میں لیا ہے. آپ نے دو کرداروں کو جوڑا نہیں. آپ " دعا " کی تاثیر کو عشق کے حادثے سے جوڑ نہیں پائے. قدرتی حادثات ہوتے ہیں جو کہ لکھے جاچکے ہوتے ہیں ..


مجموعی طور پر افسانہ اچھا ہے مگر اس کو مزید گہرا کیا جا سکتا ہے ... اسکا سانچہ/پلاٹ بہترین کردیں ..آپ نے جذبات کے رنگ پہلے ڈال دیے
بیانیہ آپ کو آتا ہے مگر بنت میں کمی رہ گئی

آپ کے لیے ڈھیروں دعا: اللہ نے قلم دیا ہے اور اس سے جو نکل رہا ہے، وہ بہت عمدہ تر ہے. اللہ کرے زور قلم اورزیادہ

سلامت رہیے
نور وجدان بہنا! تحریر کو پسند کرنے اور دعاؤں کے لیے تہہ دل سے ممنون و متشکر ہوں۔ بہن نے وقت نکال کر میری تحریر کو پڑھا اور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔اس کے لیے سپاس گزار ہوں۔ مصروفیت کی وجہ سے جلد ریسپونس نہیں دے سکا، اس کے لیے معذرت۔ آپ میرے لیے کتنی محترم ہیں ، آپ جانتی ہیں۔ یہاں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ اگر بہن کے نقطہ نظر کے برعکس ہوں تو درگزر کے ساتھ ساتھ رہنمائی فرمائیے گا۔
میں نے لکھاکہ محبت تو محض ایک جذبہ ہےاور جذبے بے رنگ اور بے شکل مائع کی طرح ہوتے ہیں ۔جس برتن میں ڈالو، اُسی کی شکل اپنا لیتے ہیں۔ جیسے بارش کی ایک بوند اگرسیپ کے دل میں اُتر جائے تو موتی اور اگر سانپ کے منہ میں چلی جائے تو زہر بن جاتی ہے۔ یہی حال محبت کاہے۔ اگراس کا جنم کسی پاک دل میں ہو توعشق ِ حقیقی کا روپ بھر کر انسان کو ولایت عطا کردے اوراگر یہی کسی کم ظرف کے دل میں پیدا ہو توہوس بن کر اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کر دے۔
سمجھنے کی ضرورت اس امر کی ہے کہ محبت و عشق کا اثر سب دلوں پر ایک سا نہیں ہوتا اور یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا بھی نہیں جاتا۔اس کے لیے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں۔ محبت کہہ لیں یا عشق کہہ لیں یہ رب کی توفیق ہے ۔ وہ جسے چاہے اس سے نواز دے۔ بس دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ میاں محمد بخش صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
مالی دا کم پانی دینا، بھَر بھَر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھَل پھُل لانا، لاوے یا نہ لاوے
عشق حقیقی کا ایک رنگ۔آپ نے جس مقام عشق کی طرف اشارہ کیا، وہ عشق حقیقی کافقط ایک رنگ ہے جس کی جھلک راہ طریقت پر چلنے والوں میں نظر آتی ہے اورجس کا ذکر تصوف کی کتابوں میں ملتا ہے۔ آپ نے اس حالتِ وجدان اور عالم جذب و مستی کا ذکر کیا ، جس میں ڈوب کر ایک انسان مجذوب کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ساغر صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ تصوف کی کتابوں میں اولیائے اکرام کے ایسے متعدد واقعات کا ذکر ملتا ہے مثلاً حضرت منصورحلاج ؒ کا ذکر جنہوں نے اناالحق کا نعرہ بلند کیا اور اسی جرم کی پاداش میں انہیں سُولی چڑھنا پڑا۔ حضرت سرمد ؒ کا واقعہ جو برہنہ پھرتے تھے اور لاالہ سے آگے نہیں پڑھتے تھے۔ یاد رکھیے۔ اس دیوانگی کی حالت میں انسان کا ناتا صرف مجاز کے وجود سے یا اس کی چاہت سے ہی نہیں ٹوٹتا بلکہ وہ سب رشتوں اورفرائض دنیا سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جسے شاید آپ نے پکا عشق کہاہے۔ یہ حالت ِعشق اس لیے جائز سمجھی جاتی ہے کہ اس میں انسان عالم بے خودی یاعالم بے اختیاری میں چلا جاتا ہے۔اگر یہ حالت طاری کرنے میں انسانی اختیار کا عمل دخل ہو تو پھر یہ ہرگز جائز نہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی تحریر میں لکھا کہ اختیار نہیں تو پھرڈرکس بات کا۔سوال تو اختیار والوں سے ہوتا ہے۔ سزا تو اختیار والوں کو ملتی ہے۔بے اختیارا بندہ تو سیدھا جنت میں جاتا ہے۔
عشق حقیقی کا دوسرا رنگ :طریقت وشریعت اور فلسفہ وحدت الوجود و شہود کی بحث میں الجھے بغیر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اوپر جو کچھ بیان ہے ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عشق حقیقی کی جھلک صرف مجذوبیت میں نظر آتی ہے اورخردمندی کے راستے میں یہ مقام عشق نہیں آتا۔ راستےبھلے جدا ہوں مگر مقصود و منزل عشق حقیقی ہی ٹھہرتا ہے۔ آپ نے جس وجود کی چاہت کا ذکر کیا وہ وجود کسی دوسرے کا نہیں ، وہ وجود تو اپنا ہے۔ جب تک اپنے وجود کی چاہت رہے گی اور وہ فنا نہیں ہوگا تو عشق حقیقی کا دیا روشن نہیں ہوگا۔ عشق مجازی انسان کے تکبر اور انا کے بت کو توڑ کر اسے صرف ایک ہی در پر جھکنا سکھاتا ہے۔عشق حقیقی کا بیج بونے سے پہلےدل کی بنجر زمین پرعشق مجازی کا ہل چلا کر اس کوتیار کیا جاتا ہے۔ جس طرح کسی معزز مہمان کی آمد پر پہلے ہم اپنے گھر کو اس کے شایان شان سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تصوف میں بھی سارا زور تزکیہ نفس اور اپنی " میں "کو مارنے پر لگایا جاتا ہے۔ میں نے لکھا کہ درد آشنا دل ہی خدا آشنا ہوتا ہے اور جب انسان خدا آشنا ہو جائے تو پھر اس کے بندوں کا پیار اس کے دل میں خودبخود کروٹیں لینے لگتا ہے۔دل میں سوزوگداز کا پیدا ہونا انسانی کوشش سے نہیں ، رب کی توفیق سے ہوتا ہے اور عشق رب کی ایسی ہی توفیق ہے، جو خاص دلوں کے لیے مختص ہے۔محبوب کا وجود تو بس وسیلہ بن جاتا ہے۔ اس کا عکس توسرآئینہ ہے ، پس آئینہ تو بس رب کی چاہت ہی ہوتی ہے۔
اسی تصور پرمیں نے تحریر لکھی ہے۔ جس میں ایک وجود کی چاہت (عشق مجازی ) ڈاکٹر مسعودالحسن کو اس معراج عشق پر پہنچا دیتی ہے جہاں پوری انسانیت کا درد (عشق حقیقی )اس کے دل میں جنم لے لیتا ہے۔ میرے نزدیک عشق حقیقی کی عملی تفسیر مخلوق خدا سے محبت اور انسانیت کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ کا بہت شکریہ۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
 
انٹرویو میں شاید اس کا جواب مل چکا ہو آپ کو۔۔۔ ورنہ مل جائے گا وہیں۔ مختلف کیفیات میں مختلف رہتا ہے۔

جی جی!
جواب آپ نے پہلے بھی دیا تھا اور انٹر ویو میں تو آپ کو اچھی طرح جان چکے ہیں کہ
آپ بہت اچھی ہیں
آپ کی متلون مزاجی بھی ہے تو وہ بھی اچھی ہی ہے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
فلسفہ عشق کو اتنے آسان الفاظ میں جس طرح آپ نے بیان کیا ہے قابلِ تعریف ہے اور سمجھ میں بھی آتا ہے
سلامت رہیں
دعا کے لیے ممنون ہوں خورشید صاحب۔ اللہ رب العزت آپ کو بھی سلامت رکھے اور آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ آمین۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نور وجدان بہنا! تحریر کو پسند کرنے اور دعاؤں کے لیے تہہ دل سے ممنون و متشکر ہوں۔ بہن نے وقت نکال کر میری تحریر کو پڑھا اور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔اس کے لیے سپاس گزار ہوں۔ مصروفیت کی وجہ سے جلد ریسپونس نہیں دے سکا، اس کے لیے معذرت۔ آپ میرے لیے کتنی محترم ہیں ، آپ جانتی ہیں۔ یہاں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ اگر بہن کے نقطہ نظر کے برعکس ہوں تو درگزر کے ساتھ ساتھ رہنمائی فرمائیے گا۔
میں نے لکھاکہ محبت تو محض ایک جذبہ ہےاور جذبے بے رنگ اور بے شکل مائع کی طرح ہوتے ہیں ۔جس برتن میں ڈالو، اُسی کی شکل اپنا لیتے ہیں۔ جیسے بارش کی ایک بوند اگرسیپ کے دل میں اُتر جائے تو موتی اور اگر سانپ کے منہ میں چلی جائے تو زہر بن جاتی ہے۔ یہی حال محبت کاہے۔ اگراس کا جنم کسی پاک دل میں ہو توعشق ِ حقیقی کا روپ بھر کر انسان کو ولایت عطا کردے اوراگر یہی کسی کم ظرف کے دل میں پیدا ہو توہوس بن کر اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کر دے۔
سمجھنے کی ضرورت اس امر کی ہے کہ محبت و عشق کا اثر سب دلوں پر ایک سا نہیں ہوتا اور یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا بھی نہیں جاتا۔اس کے لیے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں۔ محبت کہہ لیں یا عشق کہہ لیں یہ رب کی توفیق ہے ۔ وہ جسے چاہے اس سے نواز دے۔ بس دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ میاں محمد بخش صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
مالی دا کم پانی دینا، بھَر بھَر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھَل پھُل لانا، لاوے یا نہ لاوے
عشق حقیقی کا ایک رنگ۔آپ نے جس مقام عشق کی طرف اشارہ کیا، وہ عشق حقیقی کافقط ایک رنگ ہے جس کی جھلک راہ طریقت پر چلنے والوں میں نظر آتی ہے اورجس کا ذکر تصوف کی کتابوں میں ملتا ہے۔ آپ نے اس حالتِ وجدان اور عالم جذب و مستی کا ذکر کیا ، جس میں ڈوب کر ایک انسان مجذوب کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ساغر صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ تصوف کی کتابوں میں اولیائے اکرام کے ایسے متعدد واقعات کا ذکر ملتا ہے مثلاً حضرت منصورحلاج ؒ کا ذکر جنہوں نے اناالحق کا نعرہ بلند کیا اور اسی جرم کی پاداش میں انہیں سُولی چڑھنا پڑا۔ حضرت سرمد ؒ کا واقعہ جو برہنہ پھرتے تھے اور لاالہ سے آگے نہیں پڑھتے تھے۔ یاد رکھیے۔ اس دیوانگی کی حالت میں انسان کا ناتا صرف مجاز کے وجود سے یا اس کی چاہت سے ہی نہیں ٹوٹتا بلکہ وہ سب رشتوں اورفرائض دنیا سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جسے شاید آپ نے پکا عشق کہاہے۔ یہ حالت ِعشق اس لیے جائز سمجھی جاتی ہے کہ اس میں انسان عالم بے خودی یاعالم بے اختیاری میں چلا جاتا ہے۔اگر یہ حالت طاری کرنے میں انسانی اختیار کا عمل دخل ہو تو پھر یہ ہرگز جائز نہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی تحریر میں لکھا کہ اختیار نہیں تو پھرڈرکس بات کا۔سوال تو اختیار والوں سے ہوتا ہے۔ سزا تو اختیار والوں کو ملتی ہے۔بے اختیارا بندہ تو سیدھا جنت میں جاتا ہے۔
عشق حقیقی کا دوسرا رنگ :طریقت وشریعت اور فلسفہ وحدت الوجود و شہود کی بحث میں الجھے بغیر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اوپر جو کچھ بیان ہے ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عشق حقیقی کی جھلک صرف مجذوبیت میں نظر آتی ہے اورخردمندی کے راستے میں یہ مقام عشق نہیں آتا۔ راستےبھلے جدا ہوں مگر مقصود و منزل عشق حقیقی ہی ٹھہرتا ہے۔ آپ نے جس وجود کی چاہت کا ذکر کیا وہ وجود کسی دوسرے کا نہیں ، وہ وجود تو اپنا ہے۔ جب تک اپنے وجود کی چاہت رہے گی اور وہ فنا نہیں ہوگا تو عشق حقیقی کا دیا روشن نہیں ہوگا۔ عشق مجازی انسان کے تکبر اور انا کے بت کو توڑ کر اسے صرف ایک ہی در پر جھکنا سکھاتا ہے۔عشق حقیقی کا بیج بونے سے پہلےدل کی بنجر زمین پرعشق مجازی کا ہل چلا کر اس کوتیار کیا جاتا ہے۔ جس طرح کسی معزز مہمان کی آمد پر پہلے ہم اپنے گھر کو اس کے شایان شان سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تصوف میں بھی سارا زور تزکیہ نفس اور اپنی " میں "کو مارنے پر لگایا جاتا ہے۔ میں نے لکھا کہ درد آشنا دل ہی خدا آشنا ہوتا ہے اور جب انسان خدا آشنا ہو جائے تو پھر اس کے بندوں کا پیار اس کے دل میں خودبخود کروٹیں لینے لگتا ہے۔دل میں سوزوگداز کا پیدا ہونا انسانی کوشش سے نہیں ، رب کی توفیق سے ہوتا ہے اور عشق رب کی ایسی ہی توفیق ہے، جو خاص دلوں کے لیے مختص ہے۔محبوب کا وجود تو بس وسیلہ بن جاتا ہے۔ اس کا عکس توسرآئینہ ہے ، پس آئینہ تو بس رب کی چاہت ہی ہوتی ہے۔
اسی تصور پرمیں نے تحریر لکھی ہے۔ جس میں ایک وجود کی چاہت (عشق مجازی ) ڈاکٹر مسعودالحسن کو اس معراج عشق پر پہنچا دیتی ہے جہاں پوری انسانیت کا درد (عشق حقیقی )اس کے دل میں جنم لے لیتا ہے۔ میرے نزدیک عشق حقیقی کی عملی تفسیر مخلوق خدا سے محبت اور انسانیت کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ کا بہت شکریہ۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
اختلافِ حسن جا بجا.ہے
یہ اسکے ہونے کا نشان تو ہے
صد شکریہ محترم
بہت دعا آپ کے لیے
 
Top