معاشی بد حالی کی وجہ کورونا یا کارکردگی؟

جاسم محمد

محفلین
معاشی بد حالی کی وجہ کورونا یا کارکردگی؟
JUNE 17, 2020

ادارتی صفحہ

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دوسرا سالانہ وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے، 3437ارب روپے خسارے کے بجٹ کا حجم حکومت کے اپنے پہلے مالی سال کے پیش کردہ بجٹ سے 11فیصد کم ہے۔ حکومت نے تاریخی بجٹ خسارے کی وجہ کورونا کو قرار دیا ہے۔

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے گزشتہ ساڑھے تین ماہ میں ملکی معیشت کو تین ہزار ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن ملکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار کورونا کے بجائے تحریک انصاف کی حکومت کو گردانتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس 26فروری کو رپورٹ ہوا جبکہ اس سے قبل تمام معاشی اعشاریے حکومت کی بدترین کارکردگی کا مظہر تھے۔

جنوری تک ملک میں مہنگائی عروج پہ تھی، قرضوں کی شرح جی ڈی پی کی ریکارڈ سطح پہ پہنچ چکی تھی، روپے کی قدر میں خطیر کمی ہو چکی تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کے دعوے اپنی جگہ لیکن اگر تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشی اعشاریوں کا موازنہ مسلم لیگ ن کے آخری سال سے کیا جائے تو اسے کورونا کے قالین کے نیچے نہیں چھپایا جا سکتا۔

اس تقابلی جائزے کے لئے اعداد و شمار دونوں حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ بالترتیب آخری اقتصادی سروے سے لیے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دور اقتدار کے آخری اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں ترقی کی شرح 5.79تھی جو گزشتہ تیرہ سال میں سب سے زیادہ تھی جس میں زرعی شعبے نے 3.81فیصد، صنعتی شعبے نے 5.80اور خدمات کے شعبے نے 6.43فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے رواں مالی سال سے متعلق اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں مجموعی ترقی کی شرح 0.38فیصد ریکارڈ کی گئی۔

حکومت نے اس منفی ترقی کا سبب کورونا بتایا جبکہ کورونا فیکٹر کے بغیر یہ شرح 1.9فیصد ہونے کی توقع تھی ، تحریک انصاف کے دورمیں زرعی ترقی کی شرح 2.67صنعت کی منفی 2.64فیصد جبکہ خدمات کے شعبے کی ترقی 0.59فیصد رہی۔

ن لیگ کے دور کے آخری سال میں وفاقی ترقیاتی بجٹ 733ارب 30کروڑ روپے تھا جبکہ تحریک انصاف نے حالیہ ترقیاتی بجٹ کو 650ارب روپے پہ محدود کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے آخری مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ایف بی آر کے ٹیکسوں کے ضمن میں 2626ارب 60کروڑ روپے اکھٹے کیے گئے جبکہ مالی سال مکمل ہونے پہ 3850ارب روپے ٹیکس وصولی کی گئی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے رواں مالی سال کے دس ماہ میں 3300ارب 60کروڑ روپے ٹیکس وصول کیا۔

مسلم لیگ ن کے دور اقتدار کےآخری مالی سال میں شرح سود 6فیصد تھی جبکہ موجودہ حکومت نے شرح سود کو 13.25فیصد کی بلند ترین سطح پہ رکھا اور کورونا کے بعد اسے بتدریج کم کر کے 8فیصد کیا۔ مسلم لیگ ن نے مالی سال 18-2017 میں پہلے نو ماہ کے دوران بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملکی بینکوں سے 858ارب 30کروڑ روپے قرض لیا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے رواں مالی کے دس ماہ کے دوران مقامی بینکوں سے 990ارب 87کروڑ روپے قرض کی مد میں حاصل کیے۔

اگر افراط زر کی بات کی جائے تو ن لیگ کے دور حکومت میں جولائی سے مارچ 2018کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 3.78فیصد رہی جبکہ موجودہ دور حکومت کے رواں مالی سال میں جنوری 2020میں افراط زر 14.6فیصد کی ریکارڈ سطح پہ گیا جبکہ دس ماہ میں اوسط مہنگائی کی شرح 11.2فیصد رہی۔

مالی سال 18-2017میں جولائی سے مارچ کے دوران ملکی برآمدات 1۔17ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جبکہ درآمدات کا حجم 44ارب 37کروڑ 90لاکھ ڈالر رہا، ترسیلات زر 14 ارب 60کروڑ ڈالر رہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر سترہ ارب دس کروڑ ڈالر رہے جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جولائی سے مارچ 2018کے دوران 12ارب تین کروڑ ڈالر رہا۔

تحریک انصاف کے دور میں جولائی 2019سے اپریل 2020کے دوران ملکی برآمدات 19ارب 70کروڑ ڈالرز رہیں جبکہ درآمدات کا حجم 36ارب 10کروڑ ڈالرر ہا، ترسیلات زر 18ارب 80کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کو 2ارب 80کروڑ ڈالر پہ محدود کر دیا گیا جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر 17ارب 10کروڑ ڈالر ریکارڈ کئے گئے۔

ن لیگ کے آخری اقتصادی سروے سال 18-2017کے مطابق فروری 2018تک پاکستان کا مجموعی قرضہ 23ہزار 608ارب روپے تھا اور بیرونی قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کا حجم 69ارب 30کروڑ ڈالر تھا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ حالیہ اقتصادی سروے کے مطابق مارچ 2020تک پاکستان کا مجموعی قرضہ 35ہزار 207ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور بیرونی قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کے ضمن میں پاکستان کے ذمہ رقم 76ارب 50کروڑ ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، یوں ملکی قرضہ جی ڈی پی کے 98فیصد تک ہو چکا جو بذات خود قانونی خلاف ورزی ہے۔

مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پاکستان کی کل جی ڈی پی کا حجم 315ارب ڈالر تھا جو گزشتہ بائیس ماہ کے دوران 51ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 264ارب ڈالر پہ آ چکا ہے۔

پاکستانی معیشت کا یہ حال گزشتہ ساڑھے تین ماہ کی کورونا کی وبا کے باعث ہوا یا اس کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت کی بائیس ماہ کی کارکردگی ہے فیصلہ خود کر لیں۔
 
حکومتی کارکردگی دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کی حکومتی کارکردگی سے بھی بہتر ہے۔ یہ جو تھوڑی بہت معمولی سی خرابی کا پراپیگنڈا ہے وہ رائے ونڈ محل میں بنے ایک سیل کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ فکر ناٹ۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومتی کارکردگی دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کی حکومتی کارکردگی سے بھی بہتر ہے۔ یہ جو تھوڑی بہت معمولی سی خرابی کا پراپیگنڈا ہے وہ رائے ونڈ محل میں بنے ایک سیل کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ فکر ناٹ۔
اس تقابلی جائزے کے لئے اعداد و شمار دونوں حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ بالترتیب آخری اقتصادی سروے سے لیے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دور اقتدار کے آخری اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں ترقی کی شرح 5.79تھی جو گزشتہ تیرہ سال میں سب سے زیادہ تھی جس میں زرعی شعبے نے 3.81فیصد، صنعتی شعبے نے 5.80اور خدمات کے شعبے نے 6.43فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے رواں مالی سال سے متعلق اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں مجموعی ترقی کی شرح 0.38فیصد ریکارڈ کی گئی۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پاکستان کی کل جی ڈی پی کا حجم 315ارب ڈالر تھا جو گزشتہ بائیس ماہ کے دوران 51ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 264ارب ڈالر پہ آ چکا ہے۔
یہ اداریہ لکھنے والے جنگ گروپ کے صحافی رائیونڈ محل سے فارغ التحصیل ہی لگتے ہیں۔ ایک طرف خود مان رہے ہیں کہ پچھلے سال جی ڈی پی میں 0.38فیصد کا اضافہ ہوا اور پھر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ جی ڈی پی کا حجم 315ارب ڈالر سے گر کر 264ارب ڈالر ہو گیا۔ یہ تو سیدھا سیدھا ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ کیونکہ ن لیگی حکومت نے ریکارڈ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پیچھے چھوڑا تھا۔ جسے درست کرنے کیلئے حکومت کو روپے کی قدر ۳۰ فیصد تک گرانی پڑی۔ اور یوں ڈالروں میں جی ڈی پی کا حجم کم ظاہر ہوا۔ اس کا یہ مطلب کیسے نکلا کہ جی ڈی پی کا حجم ۲۲ ماہ میں اتنا گر گیا؟ بلکہ معیشت کا حجم تو پاکستانی روپوں میں بڑھا ہے۔
 
Top