معاشرے میں موجود محرومیوں کو حکمرانوں کی تشہیر اور غریب کی تحقیر بنا کر پیش کرنا بند کر دیں

زیرک

محفلین
معاشرے میں موجود محرومیوں کو حکمرانوں کی تشہیر اور غریب کی تحقیر بنا کر پیش کرنا بند کر دیں
پاکستان میں ہر دور کے حکمرانوں نے معاشرے میں کسی نہ کسی کمی یا محرومی کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کر کے نہ صرف غریب کا استحصال کیا ہے بلکہ وہ ان کی مروجہ انسانی حقوق کے اصولوں کی روشنی میں سخت ترین ہتک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں غرباء و بیروزگاروں کو گھر بیٹھے ایک باعزت سسٹم کے تحت مخصوص وقت کے لیے وظائف و گزارا لاونسزملتے ہیں، اس کے لیے انہیں حکمرانوں کی تشہیر کا نمونہ نہیں بننا پڑا لیکن پاکستان میں اس کے الٹ ہوتا ہے۔ معاشرے میں کوئی خرابی موجود ہوتی ہے تو اسے ختم کرنے کے لیے بڑا بھونڈا اور حکمران کی خود نمائی کرنے کا غلط طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ ماضی میں برطانیہ کی طرز پر پاکستان میں معاشرے کے سب سے پسے ہوئے غریب و بیروزگار لوگوں کی مدد کے لیے "انکم سپورٹ پروگرام" شروع کیا گیا لیکن ایک اچھے کام کی شروعات کو ہی متنازع بنا دیا گیا جب اس کا نام "بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام" رکھ دیا ہے، یہ ایک بہت اچھا پروگرام تھا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسے سیاسی و شخصی فائدے و سیاسی تشہیر کے لیے استعمال نہ کیا جاتا۔ نوازشریف کے دور میں ایک لیپ ٹاپ بانٹ سکیم متعارف کرائی گئی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غریب و مستحق طلباء کو تعلیمی میدان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کے انعام کے طور پر گھر بیٹھے لیپ ٹاپ یا لیپ ٹاپ واؤچر مل جاتا اور وہ اپنے شہر میں واقع مخصوص سٹور سے واؤچر و دیگر کوائف جمع کروا کر عزت کے ساتھ اپنا انعام وصول کر لیتا۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے طلباء کے ساتھ ساتھ اپنےمخصوص سوشل میڈیا وارئیرز کو نوازنے، پارٹی لیڈرشپ اور ان کے اہلِ خانہ کی تشہیر کا ذریعہ بنا کر اس اچھے پروگرام کا بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ پھر ایک اور صاحب آتے ہیں تبدیلی کا نعرہ ہے لیکن عمران خان جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے دوسروں کو طعنے دیا کرتے تھے کہ "ہر اشتہار میں شرفاء کے تھوبڑے ہی کیوں نظر آتے ہیں" اور جب ان کو حکومت ملی تو وہی کام خود کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے دورِ حکومت میں بھی ایک اچھا کام کا آغاز بڑے بھونڈے طریقے سے کیا گیا، وہ کام تھا بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہوم اور مفت کا کھانا، عمران خان کو شاید کسی نے بتایا ہو گا کہ خان ساحب! آپ خود شیلٹر ہوم جایا کریں اور وہاں کا معائنہ کیا کریں۔ جب آپ غرباء کو خود اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا کریں گے تو اس سے ثواب بھی ملے گا اور خوب تشہیر بھی ہو گی"۔ پھر خان صاحب نے یہی کیا اور جب بھی کسی شیلٹر ہوم گئے، میڈیا ساتھ ہوتا تھا، وہ بھی زیادہ تر ایسے اوقات میں رات گئے جبکہ وہاں لوگ آرام فرما رہے ہوتے تھے، نہ تو ان کے آرام، سونے کے وقت کا خیال رکھا جاتا اور نہ ہی ان کی عزتِ نفس کے مجروع ہونے کا خیال کیا جاتا۔ خان صاحب بڑے دھڑلے سے رات گئے کھانے کی پلیٹ ہاتھ میں پکڑے غرباء کو کھانا تقسیم کر کے ان کی کئی نسلوں پر گویا احسان جتا آتے تھے۔ میں یہ باتیں محض تنقید برائے تنقید کے لیے نہیں کر رہا، اپنے پاکستان کی لیڈرشپ کے گدھا وژن کو سامنے لانے کے لیے کر رہا ہوں کہ ان کو معاشرے میں جو خرابی نظر آتی ہے اسے محض اپنی ذاتی وشخصی تشہیر اور غریب کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کے لیے ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ اچھی بات کافروں یا غیر مسلوں سے بھی سیکھو تو برطانیہ اور یورپ کی طرز پر غرباء و مساکین کی مدد کے لیے باعزت طریقہ اپنانے میں کیا چیز مانع ہے؟
 
Top