معاشرتی عمل اور تعلیم

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ڈاکٹر جان ڈیوی نے تعلیم کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ

”تعلیم ایسے تجربات کی تعمیرِ نو کا نام ہے جو فرد اور سماج دونوں کی ترقی اور بہتر کارکردگی کے ضامن ہوں۔“

اسکا فلسفہ حیات پر مبنی ہے اس کے نزدیک تعلیم ایسا معمولی اور عام مسئلہ نہیں ہے کہ اس کی اہمیت کو نظرانداز کر دیا جائے تعلیم سماج کا ایک خود اختیاری آلہ کار ہے جس پر نہ صرف فرد کی بلکہ بنی نوع انسان کی ضرورتیں ، ترقی اور نصب العین کے حصول کا دارومدار ہوتا ہے ۔ تعلیم کے ذریعہ تہذیب و ثقافت زندہ رہتی ہے ۔ لہٰذا سماج کے مشاغل میں تعلیم سب سے اہم عنصر ہے۔ علم ایک سماجی آلہ ہے ۔ تعلیم تجربات کی حیاتِ نو ہے اور یوں تعلیم ایک ایسا عمل قرار پاتا ہے جو ہر دور میں بالیدگی یا نمو میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا ہے۔ تعلیم دراصل وہ ہنر ہے جو انسان کو بھر پور زندگی گزارنے کا اہل بناتا ہے اور اسے اسی مقام پر فائز کرتا ہے جو اشرف ال مخلوقات کا درجہ ہے کیونکہ انسان جب تک تعلیم و تربیت سے صیقل نہ ہو اعلٰی صفات سے متصف نہیں ہو سکتا۔ تخلیقِ آدم میں خود یہ نکتہ مضمر ہے جب اللہ تعالٰی نے فرشتوں پر اپنی مشیت ظاہر کی کہ وہ روئے زمین پر ایک خلیفہ بنا کر بھیجنا چاہتا ہے تو فرشتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ ذات زمین پر فساد اور خون ریزی کرے گی جس سے نظام عالم میں خلل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور ہم جو ہر وقت تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں کیا یہ کافی نہیں ہے اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو ان کی لا علمی کی طرف توجہ دلائی کہ نہ تو وہ مشیت ایزدی کی ”کنہ“ جانتے ہیں نہ اشیاء کے ناموں سے واقفیت رکھتے ہیں۔
 
Top