مظلوم کی آہ سے بچیں!

*⭐مظلوم کی آہ سے بچیں!⭐*

✍محمد کاشف تبسم

" *ظلم* "کا نام سنتے ہی ہماری زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے:"اللہ تعالی ہمیں ظالموں کے ظلم سے بچائے"
مگر کبهی اس پر بهی غور فرمائیے کہ کسی پر صرف تشدد کرنے کو ہی ظلم نہیں کہتے، *جسمانی تکلیف،ذہنی اذیت،دباؤ ڈالنا،پریشرائز کرنا،اور کسی کو ڈرانا دهمکانا سب ظلم کہلاتا ہے"*
یہ اوپر کے الفاظ ایک بار پهر پڑهئے اور سوچئے کہیں ہم بهی کسی پر *ظلم* تو نہیں کر رہے؟؟
جس طرح ظلم کرنے والے آقا،مالک یا باس بڑے لوگ ہوتے ہیں،اسی طرح معاشرے میں چهوٹے لوگ بهی بڑوں پر ظلم کرتے ہیں.
عام طور پر مظلوم کی شرافت،خاموشی اور نرمی کا فائدہ اٹها کر *ظلم* کیا جاتا ہے،بعض لوگ اپنے عہدے،مقام ،مرتبے اور کرسی بچانے کی خاطر ظلم کی ایسی داستانیں رقم کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ!!
اپنا رعب جمانے اور دنیاوی ترقی کے لئے ہر چهوٹے پر ظلم کا بازار گرم کیا جاتا ہے.
*طعن و طنز سے دل* *دکهانا،الزامات سے پریشان کر دینا اور مختلف سازشوں سے دوسرے کو دباؤ میں رکهنے کا ظلم ہر جگه عام ہو چلا ہے،* کہیں اولاد اپنے والدین پر ظلم ڈها رہی ہے تو کہیں والدین بچوں کو ستاتے ہیں،کاروبار،سیاست،ملازمت غرض ہر جگه ظلم چهاتا چلا جا رہا ہے،اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے عظیم صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بهیجا تو انہیں نصیحت فرمائ؛
*"مظلوم کی بددعا سے بچو!* بلاشبہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی۔"
(بخاری کتاب المظالم و الغصب)
مسند احمد کی ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ حضرت محمد رسول اللہ سے (لوگوں کو برملا نصیحت کرتے) سنا....
لوگو! مظلوم کی بددعا سے بچو! اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ اس کی آہ و بددُعا اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہوتی۔
(مسند احمد)
ایک کافر کی بدعا اور آہ سے بچنے کی اتنی سخت تاکید ہمارے سامنے ہے تو پهر اپنے ہی ماتحت یا متعلقین پر ظلم کرنے سے ہمیں کتنا ڈرنے کی ضرورت ہے اور ہم اس کا کتنا خیال رکهتے ہیں ؟؟
ظالم کو وقتی ڈهیل ضرور ملتی رہتی ہے،مگر اس کی پکڑ دنیا میں بهی ضرور ہو کر رہتی ہے.
اس لئے ذہن پر زور دے کر سوچئے خوب سوچئے کہیں اپنے الفاظ،طنزیہ جملوں،اپنے رویے،کردار اور اپنی پالیسی سے کسی پر ظلم تو نہیں کر رہے؟
خصوصا" اپنے ماتحت کام کرنے والوں اور وہ لوگ جنہیں ہم اپنے سے کم تجربہ یا چهوٹا،سادہ اور اناڑی سمجهتے ہیں یا انہیں کم حیثیت دیکهنے کی خواہش رکهتے ہیں ان سب پر کسی بهی قسم کا ذہنی دباؤ ،قلبی،روحانی اور جسمانی اذیت میں کہیں ہمارا ہاته تو نہیں؟؟
ہمارے ظلم کے شکار لوگ تڑپتے رہتے ہیں اور ہم اپنےظلم کی تاویلیں کرتے رہ جاتے ہیں اور خود کو مطمئن رکهنے کی کوشش کرتے ہیں.
یاد رکهئے!
صرف یہ کہنا کہ وہ بهی تو ہمارے ساته ایسا کرسکتا ہے یا پهر کسی *بد گمانی* کاشکار ہو کر کسی پر ظلم ڈهانا ہماری خود فریبی تو ہو سکتی ہے مگر اس سے *اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا ہرگز نہیں* !!
 
Top