مضامینِ سر سید - انتخاب

الف عین

لائبریرین
وارث مرحوم کی مرتب اس کتاب کی بھی تکمیل کی کوشش کی جائے۔ ان کی فہرست کے مطابق، ’’آزادی رائے‘‘ تک وہ کر چکے تھے۔(چیک کرنا ہے کہ یہ بھی مکمل ہوا یا نہیں۔@محب علوی
 

الف عین

لائبریرین
ریختہ سے:

گزرا ہوا زمانہ
سر سید احمد خاں

برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔ بڈھا نہایت غمگین ہے مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر۔ اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسو بھی بہے چلے جاتے ہیں۔

پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے۔ اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے جبکہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپیے اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر، ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یاد آتے تھے۔ وہ اور زیادہ غمگین ہوتا تھا اور بے اختیار چلا اٹھتا تھا، ’’ہائے وقت، ہائے وقت، ہائے گزرے ہوئے زمانے۔ افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔‘‘
پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل، بھرا بھرا بدن رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل۔ جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتے تھے اور نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا، ’’آہ ابھی بہت وقت ہے۔‘‘ اور بڑھاپے آنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لئے تیار رہتا۔ آہ وقت گزر گیا۔ آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ’’ابھی وقت بہت ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی، دیکھا کہ رات ویسی ہی ڈراؤنی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے۔ ہولناک آندھی چل رہی ہے۔ درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں۔ تب وہ چلا کر بولا، ’’ہائے ہائے، میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراؤنی ہے جیسی یہ رات۔‘‘ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمہارے ہی بھلے کے لئے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیئے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جا ری ہے۔ دوست، آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔

ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا کے ساتھ برتی تھیں۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست، آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا۔ اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جاتا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ’’ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا۔ اب کیوں کر اس کا بدل ہو۔‘‘
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔

اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پنا یاد آیا جس میں نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن۔ نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانہ کو یاد کیا جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا، نمازیں پڑھنی، حج کرنا، زکوٰۃ دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کی جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی، اپنی مدد کو پکارتا تھا۔ مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور پھر ویسے ہی جنگل ہیں۔ کنوئیں اندھے پڑے ہیں۔ نہ پیر اور نہ فقیر۔ کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی۔ اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا،
’’ہائے وقت، ہائے وقت، میں نے تجھ کو کیوں کھودیا۔‘‘

وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے۔ آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے تارے نکل آئے ہیں۔ ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ دل بہلانے کے لئے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آگئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے اس سے پوچھا،
’’کہ تم کون ہو۔‘‘

وہ بولی کہ ’’میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں۔‘‘
اس نے پوچھا کہ’’تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے۔‘‘

وہ بولی، ’’ہاں ہے۔ نہایت آسان، پر بہت مشکل۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا، ’’واللہ لا ایزید ولا انقص۔‘‘ ادا کر کہ انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے۔ اس کی میں مسخر ہوتی ہوں۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ انسان ہی ایسی چیز ہے اخیر تک رہے گا۔ پس جو بھلائی کہ انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل در نسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جا رہی رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں۔ جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے، انسان کی بھلائی میں کوشش کرے۔ کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں دل و جان و مال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہو گئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔‘‘
اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پر مبنی تھے۔ نیک کام جو کئے تھے ثواب کے لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کئے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا،
’’ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں۔ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہو سکتا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہو گیا۔
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس کو گلے لگا کر اس کی بلائیں لیں۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کر کھڑے ہوئے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے، کیوں تو بیقرار ہے۔ کس لئے تیری ہچکی بندھ گئی ہے۔ اٹھ منہ ہاتھ دھو، کپڑے پہن۔ نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔

یہ سن کر وہ لڑکا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا،
’’او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے۔ میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچتھاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ او خدا او خدا تو میری مدد کر۔ آمین۔

پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین
 

الف عین

لائبریرین
بحث و تکرار
سر سید احمد خاں

134
جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگا ہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے، پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے، ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں، منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبوڑا، جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔

نامہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں، پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے، دوسرا بولتا ہے، واہ یوں نہیں یوں ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’واہ تم کیا جانو۔‘‘ وہ بولتا ہے، ’’تم کیا جانو۔‘‘ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے، تیوری چڑھ جاتی ہے، رخ بدل جاتا ہے، آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں، باچھیں چر جاتی ہیں، دانت نکل پڑتے ہیں، تھوک اڑنے لگتا ہے، باچھوں تک کف بھر آتے ہیں، سانس جلدی چلتا ہے، رگیں تن جاتی ہیں، آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ، عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں، آستین چڑھا ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں۔ لپا ڈکی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک ادھر اور ایک ادھر، اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے لپٹ کر کپڑے جھاڑتے سر سہلاتے اپنی راہ لی۔
جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہوکر رہ جاتی ہے، کہیں توں تکار تک نوبت آ جاتی ہے، کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گذر جاتی ہے، مگر ان سب میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی، محبت اور دوستی کو ہاتھ سے دینا نہ چاہیے۔

پس اے میرے عزیز ہم وطنو! جب تم کسی کے بر خلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو مگر بناوٹ بھی نہ پائی جاوے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے لفظ استعمال کرو، مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا میں غلط سمجھا، گو بات تو عجیب ہے، مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔ جب دو تین دفعہ بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے کو نہ بدلے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔ یہ کہہ کر کہ میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا، جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کفر ختم کرو۔
دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلاؤ کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا، کیونکہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی آجاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور ایسی عزیز چیز (جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔

جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملے ہوئے ہیں تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے اور تکرار اور مباحثے کو آنے مت دو، کیونکہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے تو دونوں کو ناراض کردیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگی ہے تو جس قدر ممکن ہو اس کو ختم کر دو اور آپس میں ہنسی خوشی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
امید کی خوشی

اے آسمان پر بھورے بادلوں میں بجلی کی طرح چمکنے والی دھنک، اے آسمان کے تارو، تمہاری خوشنما چمک، اے بلند پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرنے والی دھندلی چوٹیو! اے پہاڑ کے عالی شان درختو! اے اونچے اونچے ٹیلوں کے دل کش بیل بوٹو! تم بہ نسبت ہمارے پاس کے درختوں اور سر سبز کھیتوں اور لہراتی ہوئی نہروں کے کیوں زیادہ خوشنما معلوم ہوتے ہو؟ اس لیے کہ ہم سے بہت دور ہو۔ اس دوری ہی نے تم کو یہ خوب صورتی بخشی ہے۔ اس دوری ہی سے تمہار ا نیلا رنگ ہماری آنکھوں کو بھایا ہے، تو ہماری زندگی میں بھی جو چیز بہت دور ہے وہی ہم کو زیادہ خوش کرنے والی ہے۔

وہ چیز کیا ہے؟ کیا عقل ہے؟ جس کو سب لوگ سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ کیا وہ ہم کو آئندہ کی خوشی کا یقین دلا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں! اس کا میدان تو نہایت تنگ ہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کرے تو نیچر تک اس کی رسائی ہے جو سب کے سامنے ہے۔ او نورانی چہرہ والے یقین کی اکلوتی خوب صورت بیٹی امید! یہ خدائی روشنی تیرے ہی ساتھ ہے۔ تو ہی ہماری مصیبت کے وقتوں میں ہم کو تسلی دیتی ہے۔ تو ہی ہمارے آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ تیری ہی بدولت نہایت دور دراز خوشیاں ہم کو نہایت ہی پاس نظر آتی ہیں۔ تیرے ہی سہارے سے زندگی کی مشکل مشکل گھاٹیاں ہم طے کرتے ہیں۔ تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیر ی ہی برکت سے خوشی، خوشی کے لیے نام آوری، نام آوری کے لیے بہادری، بہادری کے لیے فیاضی، فیاضی کے لیے محبت، محبت کے لیے نیکی، نیکی، نیکی کے لیے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔
وہ پہلا گنہگار انسان جب شیطان کے چنگل میں پھنسا اور تمام نیکیوں نے اس کو چھوڑا اور تمام بدیوں نے اس کو گھیرا تو صرف تو ہی اس ساتھ رہی۔ تو ہی نے اس ناامید کو ناامید ہونے نہیں دیا، تو ہی نے اس موت میں پھنسے دل کو مرنے نہیں دیا۔ تو ہی نے اس کو ذلت سے نکالا اور پھر اس کو اس اعلی درجہ پر پہونچایا جہاں کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تھا۔

اس نیک نبی کو جس نے سینکڑوں برس اپنی قوم کے ہاتھ سے مصیبت اٹھائی اور مارپیٹ سہی، تیرا ہی خوبصورت چہر ہ تسلی دینے والا تھا۔ وہ پہلا نا خدا جب کہ طوفان کی موجوں میں بہا جاتا تھا اور بجز مایوسی کے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا تو تو ہی اس طوفان میں اس کی کشتی کھینچنے والی اور اس کا بیڑا پار لگانے والی تھی۔ تیرے ہی نام سے جودی پہاڑ کی مبارک چوٹی کو عزت ہے۔ زیتون کی ہری ٹہنی کو جو وفادار کبوتر کی چونچ میں وصل کے پیغام کی طرح پہنچی، جو کچھ برکت ہے تیری ہی بدولت ہے۔
اے آسمانوں کی روشنی او ر اے ناامیدوں کی تسلی امید! تیرے ہی شاداب اور سر سبز باغ سے ہر ایک محنت کا پھل ملتا ہے۔ تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے۔ تجھی سے ہر ایک رنج میں آسودگی ہے۔ عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکا ہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سایہ کو ڈھونڈتا ہے۔ وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش الحان جانوروں کے راگ، بہتی نہروں کی لہریں اس کے دل کو راحت دیتی ہیں۔ اس کے مرے ہوئے خیالات کو پھر زندہ کرتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہو تی ہیں او ر دور دراز زمانہ کی خیالی خوشیاں سب آموجود ہوتی ہیں۔

دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے۔ اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے۔ ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے۔ سورہ میرے بچے سو رہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رہ، اے میرے دل کی کونپل سو رہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آنے پاوے، تیری ٹہنی میں کوئی خار کبھی نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آوے، کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی تو نہ دیکھے، سو رہ میرے بچے سو رہ، میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سو رہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہوگا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہوگی، تیری شہرت، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو ہم سے کرےگا آخر کار ہمارے دل کو تسلی دے گی۔ تیری ہنسی ہمارے اندھیرے گھر کا اجالا ہوگی۔ تیری پیاری پیاری باتیں ہمارے غم کو دور کریں گی۔ تیری آواز ہمارے لیے خوش آیند راگنیاں ہوں گی، سو رہ میرے بچے سو رہ۔ اے ہماری امیدوں کے پودے سو رہ۔
بولو جب اس دنیا میں ہم تم سے جدا ہو جاویں گے تو تم کیا کروگے۔ تم ہماری بے جان لاش کے پاس کھڑے ہوگے۔ تم پوچھوگے اور ہم کچھ نہ بولیں گے۔ تم روؤگے اور ہم کچھ نہ رحم کریں گے۔ اے میرے پیارے رونے والے! تم ہمارے ڈھیر پر آکر ہماری روح کو خوش کروگے۔ آہ ہم نہ ہوں گے اور تم ہماری یادگاری میں آنسو بہاؤگے۔ اپنی ماں کا محبت بھرا چہرہ، اپنے باپ کی نورانی صورت یا د کروگے۔ آہ ہم کو یہی رنج ہے کہ اس وقت ہماری محبت یاد کر کر تم رنجیدہ ہوگے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ۔ سو رہ میرے بالے سو رہ۔

یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور معصوم ہنسی سے اپنی ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اور امّاں امّاں کہنا سیکھا۔ اس کی پیاری آواز، ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہونچنے لگی۔ آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کو بھڑکانے کے قابل ہوا۔ پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا۔ رات کو اپنی ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غم زدہ دل سے سنانے لگا اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر ہاتھ منہ دھوکر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل، بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں۔ ا س کے ماں باپ اس معصوم سینہ سے سچی ہمدردی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اور ہماری پیاری امید تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ رہتی ہے۔
دیکھو وہ بڈھا آنکھوں سے اندھا اپنے گھر میں بیٹھا روتا ہے۔ اس کا پیارا بیٹا بھیڑوں کے ریوڑ میں سے غائب ہو گیا ہے۔ وہ اس کو ڈھونڈتا ہے پر وہ نہیں ملتا۔ مایوس ہے پر امید نہیں ٹوٹی۔ لہو بھرا دانتوں پھٹا کرتا دیکھتا ہے، پر ملنے سے نا امید نہیں۔ فاقوں سے خشک ہے۔ غم سے زار نزار ہے۔ روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئی ہیں۔ کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے مگر صرف ایک امید ہے جس نے اس کو وصل کی امید میں زندہ اور اس خیال میں خوش رکھا ہے۔

دیکھ وہ بے گناہ قیدی، اندھیرے کنوئیں میں سات تہہ خانوں میں بند ہے۔ اس کا سورج کا سا چمکنے والا چہرہ زرد ہے۔ بے یارو دیار غیر قوم، غیر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ میں قید ہے۔ بڈھے باپ کا غم اس کی روح کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ عزیز بھائی کی جدائی اس کے دل کو غمگین رکھتی ہے۔ قید خانے کی مصیبت، اس کی تنہائی، اس گھر کا اندھیرا اور اس پر اپنی بے گناہی کا خیال اس کو نہایت رنجیدہ رکھتا ہے۔ اس وقت کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ مگر اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید! تجھ ہی میں اس کی خوشی ہے۔
وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے کرتے تھک گیا ہے، ہزاروں خطرے در پیش ہیں مگر سب میں تقویت تجھ ہی سے ہے۔ لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے۔ اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور لڑائی کے بگل کی آواز بہادر سپاہی کے کان میں پہنچتی ہے۔ اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہوکر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے۔ اور جبکہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے۔ اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے تو اے بہادروں کی قوت ِبازو۔ اور اے بہادری کی ماں۔ تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال ان کے دلوں کو تقویت دیتا ہے۔ ان کا کان نقارہ میں سے تیرے ہی نغمے کی آواز سنتا ہے۔

وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکر کرتا ہے۔ دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے، ہر وقت بھلائی کی تدبیریں ڈھونڈتا ہے۔ ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے، یگانوں بے گانوں سے ملتا ہے۔ ہر ایک کی بول چال میں اپنا مطلب ڈھونڈتا ہے۔ مشکل کے وقت ایک بڑی مایوسی سے مدد مانگتاہے۔ جن کی بھلائی چاہتا ہے انہیں کو دشمن پاتا ہے۔ شہری وحشی بتاتے ہیں۔ دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں۔ عالم فاضل کفر کے فتوؤں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ بھائی بند عزیز اقارب سب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو رہتے ہیں۔
وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں

بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں
ساتھی ساتھ دیتے ہیں مگر ہاں ہاں کر کر محنت اور دل سوزی سے دور رہ کر۔ بہت سی ہمدردی کرتے ہیں، پر کوٹھی کٹھلے سے الگ کر کر۔ دل ہر وقت بے قرار ہے۔ کسی کو اپنا سا نہیں پاتا۔ کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔ مگر اے بے قرار دلوں کی راحت اور اے شکستہ خاطروں کی تقویت۔ تو ہی ہر دم ہمارے ساتھ ہے، تو ہی ہمارے دل کی تسلی ہے، تو ہی ہماری کٹھن منزلوں کی ساتھی ہے۔ تیری ہی تقویت سے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔ تیرے ہی سبب گوہر مراد کو پاویں گے اور ہمارے دل کی عزیز اور ہمارے مہدی کی پیاری‘‘ امید’’ تو ہمیشہ ہمارے دل کی تسلی رہ۔

اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید۔ جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لبِ بام ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں میں گرمی نہیں رہتی۔ رنگ فق ہو جاتا ہے۔ منہ پر مردنی چھاتی ہے۔ ہوا ہوا میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہوتی ہے۔ اس وقت اس زرد چہرے اور آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ہونٹوں اور بے خیال بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور غفلت کے دریا میں ڈوبتے ہوئے دل کو تیری یادگاری ہوتی ہے۔ تیرا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ تیری صدا کان میں آتی ہے اور ایک نئی روح اور تازہ خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک نئی لازوال زندگی کی جس میں ایک ہمیشہ رہنے والی خوشی ہوگی، امید ہوتی ہے۔
یہ تکلیف کا وقت تیرے سبب سے ہمارے لیے موسمِ بہار کی آمد آمد کا زمانہ ہو جاتا ہے۔ اس لازوال خوشی کی امید تمام دنیاوی رنجوں اور جسمانی تکلیفوں کو بھلا دیتی ہے اور غم کی شام کو خوشی کی صبح سے بدل دیتی ہے۔ گو کہ موت ہر دم جتاتی ہے کہ مرنا بہت خوف ناک چیز ہے۔ او ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی دوسری دنیا جس میں ہم کو ہمیشہ رہنا ہے جہاں سورج کی کرن اور زمانے کی لہر بھی نہیں پہنچتی۔ تیری راہ تین چیزوں سے طے ہوتی ہے، (۱) ایمان کے توشے۔ (۲) امید کے ہادی اور (۳) موت کی سواری سے۔ مگر ان سب میں جس کو سب سے زیادہ قوت ہے وہ ایمان کی کی خوبصورت بیٹی ہے جس کا پیارا نام ’’امید‘‘ ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ بے یقینوں کو موت کی کٹھن گھڑی میں کچھ امید نہیں ہوتی مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیری بادشاہت وہاں بھی ہے۔ قیامت پر یقین نہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ تمام زندگی کی تکلیفوں کا اب خاتمہ ہے اور پھر کسی تکلیف کے ہونے کی توقع نہیں ہے۔ وہ اپنے اس بے تکلف آنے والے زمانے کی امید میں نہایت بردباری سے اور رنجوں کے زمانے کے اخیر ہونے کی خوشی میں نہایت بشاشت سے یہ شعر پڑھتا ہوا جان دیتا ہے۔
بقدر ہر سکوں راحت بود بنگر تفاوت را

دویدن، رفتن، استادن، نشتن، خفتن و مردن





۔۔۔۔
یہ مضمون یہاں پوسٹ بھی ہو چکا ہے، لیکن یہاں ایک بار پھر، کہ یہ ای بک بن سکے
 

الف عین

لائبریرین
باقی ماندہ تین مضامین جمع کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ اسی کی ایک بک وارث کے نام بنا دی جائے گی
غلامی
دین و دنیا کا رشتہ
آدم کی سرگزشت
 
Top