مشہور شخصیات کی قیمتی یادیں۔۔۔۔

عین عین

لائبریرین
نامور شخصیات سے ان کی زندگی کے اہم، دل چسپ، سنجیدہ واقعات معلوم کر کے ان کی اشاعت کا سلسلہ ایکسپریس سنڈے میگزین میں جاری ہے۔ اس سلسلے میں اب تک انور مقصود، محمد علی صدیقی(نقاد، دانشور)، توصیف احمد(کرکٹر)، پروفیسر آفاق صدیقی(شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم)، گلوکار غلام عباس، اور اسنوکر چیمپئن محمد یوسف سے بات ہو چکی ہے۔ میں نے سوچا یہاں شایع ہونے کے بعد ان واقعات کو محفلین تک پہنچایا جائے۔ امید ہے پسند کریں گے۔

حنیف راجہ کے ذہن میں محفوظ ایک یاد۔۔۔۔۔۔۔۔
گفت گو : عارف عزیز
ذہن کو حاضر رکھتے ہوئے اچانک ہی گفت گو کا رُخ موڑتے، برجستگی کا ہتھیار سنبھالے ہوئے بات سے بات نکالتے، مخاطب کو لاجواب کرتے اور شگوفے چھوڑتے ہوئے حنیف راجہ سے کون واقف نہیں۔ یہ مشہور کامیڈین پاکستان کے اُن چند آرٹسٹوں میں سے ایک ہے جو شوبزنس کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے پہچان بنانے میں کام یاب رہے۔ نجی تقریبات میں پرفارم کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر بہ طور اداکار اور میزبان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور حاضرین و ناظرین سے خوب داد سمیٹی۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک دل چسپ اور اپنے لیے بڑی حد تک حیران کُن واقعہ ہمیں سنایا جو آپ کے لیے پیش ہے۔
”یہ ان دنوں کی بات ہے جب شوبزنس سے میری وابستگی نئی تھی۔ وہ میرا زمانہ¿ طالب عملی بھی تھا۔ میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گروپ کی شکل میں مختلف تقریبات میں پرفارم کرتا تھا۔ اس وقت فیملی شوز بہت ہوتے تھے جن سے ہم آرٹسٹوں کا جیب خرچ نکل آتا تھا۔ ہمارے گروپ کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ تقریبات میں پرفارمینس دیں تاکہ اپنے اخراجات آسانی سے پورے کر سکیں، اس لیے جہاں سے بلاوا آتا پہنچ جاتے تھے۔ ہمیں پروگرام کرنے کے لیے کراچی سے باہر بھی جانا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ سکھر کی ایک فیملی نے اپنے گھر کے پروگرام میں ہمیں پرفارم کرنے کے لیے بُلایا۔ ہم نے ان سے معاملات طے کیے اور مقررہ تاریخ پر سکھر کے لیے کراچی سے روانہ ہو گئے۔ یہ میری زندگی کا یادگار سفر تھا۔ ہم جس گاڑی میں سفر کر رہے تھے، وہ ’بے وفا‘ ثابت ہوئی۔ دورانِ سفر وہ گاڑی اتنی مرتبہ پنکچر ہوئی کہ مت پوچھیں۔ اس میں ہمارا بہت وقت ضایع ہوا۔ اُس زمانے میں موبائل فونز تھے نہیں کہ تقریب کے منتظمین ہم سے رابطہ کرتے اور ہم انہیں اپنی مشکل سے آگاہ کر دیتے۔ ہمیں غصہ تو بہت آرہا تھا، لیکن کر کیا سکتے تھے۔ خیر جناب! گاڑی پنکچر ہوتی رہی، گاڑی والا پنکچر لگواتا رہا اور ہم آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ اپنی منزل پر پہنچ گئے، لیکن اُس وقت تک رات ہو چکی تھی اور جس تقریب کے لیے ہمیں بلایا گیا تھا، وہ اختتام پر تھی۔ ہمارے آنے کی اطلاع پا کر اس گھر کے چند بڑوں نے ہمیں گھیر لیا اور خوب سنائیں۔ جس کے جو دل میں آیا، اس نے کہہ ڈالا۔ بڑے سناتے رہے اور چھوٹے جو اُس وقت تک ہمارے گرد جمع ہو چکے تھے، ہمیں دیکھ کر منہ بناتے رہے۔ جب اُن کے دل کی بھڑاس نکل گئی تو انہوں نے ہمیں لوٹ جانے کا کہہ دیا۔ وہاں سے ہمیں معاوضہ تو خیر کس بات کا ملتا، ہم سے تسلی کے دو بول کہنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ مایوسی اور کچھ پریشانی کے عالم میں ہم ریلوے اسٹیشن پر چلے آئے۔ اجنبی شہر میں رات کا وقت اسٹیشن پر گزرا۔ ہماری جیب میں جو کچھ تھا، وہ سکھر پہنچنے کے دوران خرچ ہو چکا تھا۔ بس چند ہی روپے جیب میں پڑے رہ گئے تھے جس سے کراچی واپس جانے کے لیے ٹکٹ خرید لیے۔ اس کے بعد تو ہماری جیبوں میں کچھ بھی نہ رہا۔ اس روز تو ہمارے ساتھ بہت ہی برا ہوا۔ ایک تو سکھر جاتے ہوئے راستے کی تھکن اور دوران سفر گاڑی کے پنکچر ہونے کی وجہ سے ہمیں شدید کوفت اٹھانا پڑی، پھر ہمیں تقریب کے منتظمین نے ٹھیک ٹھاک بے عزت کیا اور ہم ایک معقول رقم سے بھی محروم ہو گئے۔ ستم بالائے ستم والی کیفیت ہو چلی تھی۔ سکھر سے کراچی جاتے ہوئے بھوک ستانے لگی، کھانے کا وقت ہو گیا تھا، لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ کھانا خرید سکیں۔ دوسرے مسافر کھا پی رہے تھے اور ہم بے بسی کے احساس کے ساتھ انہیں دیکھ رہے تھے۔ اس مجھ سمیت تمام ساتھیوں سے پوچھا گیا کہ بھائی کسی کے پاس پیسے ہیں تو نکالے تاکہ پیٹ کی آگ بجھائی جائے، لیکن سبھی نے اپنی جیبیں الٹ دی تھیں جو خالی تھیں۔ خیر جناب! بھوکے پیاسے کراچی پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر اُتر کر سب اپنے اپنے گھر جانے کا سوچ رہے تھے۔ ضروری سامان بھی ساتھ تھا۔ ہمارے ساتھ ایک ڈرمر بھی تھا جو ہماری طرح پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بھوکا پیاسا رہا اور مصیبت اٹھا کر کراچی پہنچا تھا۔ جب گھر جانے کا موقع آیا تو اُس ڈرمر کے ہاتھ میں دو تین سو روپے نظر آئے جو اُس نے کہیں چھپا کر رکھے تھے۔ یہ حرکت دیکھ کر ہم سبھی کو بہت غصہ آیا۔ اُس سے پوچھا یہ کیا ہے؟ ہم بھوکے پیاسے تھے اور ساری صورت حال تمھارے سامنے تھی، لیکن تم نے اُس وقت پیسے نہیں نکالے۔ وہ کہنے لگا: ’یار یہ رقم میں نے بُرے وقتوں کے لیے رکھی ہوئی تھی۔‘ آج بھی مجھے اس کی بات یاد آتی ہے تو میں سوچتا ہوں اور حیرت کرتا ہوں کہ کسی کے لیے اس سے زیادہ بُرا وقت بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ ہو رہا ہو اور وہ بھوک سے تڑپتا رہے۔ “
”آج بھی یہ واقعہ میرے ذہن میں پوری طرح محفوظ ہے اور میں اپنے ساتھی آرٹسٹ کی اُس حرکت کا سوچ کر حیرت میں پڑ جاتا ہوں۔“

(روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا)
 
Top